محنت کش ہی ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم جز ہوتے ہیں، ڈاکٹر عشرت العباد
اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT
اجلاس سے خطاب میں سابق گورنر سندھ نے کہا کہ بدقسمتی سے مزدوروں کو شرعی احکامات کے برعکس پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسکی اجرت نہ دینے کا کلچر محنت کشوں کو مناسب اجرت کا اجرا نہ ہونا اور حکومت کے احکامات قانون سازی کے باوجود گڈ گورننس نہ ہونے کی وجہ سے اسکی کم ازکم طے شدہ اجرت 35ہزار بھی ادا نہیں کی جاتی۔ اسلام ٹائمز۔ سابق گورنر سندھ اور روح رواں ایم پی پی ڈاکٹر عشرت العباد خان نے کہا ہے کہ یکم کئی مزدوروں کا عالمی دن ہے جس کے منانے کا مقصد امریکا کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے، انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جدوجہد سے بھرپور استعارے کا دن ہے، شکاگو میں سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خون میں نہلا دیا گیا، محنت کش ہی ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم جز ہوتے ہیں، بدقسمتی سے مزدوروں کو شرعی احکامات کے برعکس پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسکی اجرت نہ دینے کا کلچر محنت کشوں کو مناسب اجرت کا اجرا نہ ہونا اور حکومت کے احکامات قانون سازی کے باوجود گڈ گورننس نہ ہونے کی وجہ سے اسکی کم ازکم طے شدہ اجرت 35ہزار بھی ادا نہیں کی جاتی، محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد میں ہم انکے لئے مثبت اور ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات محنت کشوں کے ذمہ داران اور مختلف یونیزکے نمائندگان اورایم پی پی لیبر ونگ اور مرکزی کمیٹی کے اجلاس سے محنت کشوں کے دن پر خصوصی خطاب میں کہی۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
فلسطینی نوجوان کی غیر معمولی ہجرت ، جیٹ اسکی پر سمندر پار اٹلی پہنچ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اٹلی: غزہ کے 31 سالہ فلسطینی محمد ابو دخہ نے ایک طویل، پرخطر اور غیر معمولی سفر کے بعد بالآخر یورپ میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں اٹلی کا رخ کیا، یہ سفر ایک سال سے زائد عرصہ، ہزاروں ڈالر کے اخراجات، کئی ناکامیوں اور بالآخر ایک جیٹ اسکی کے ذریعے ممکن ہوا۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق ابو دخہ نے اپنی کہانی ویڈیوز، تصاویر اور آڈیو فائلز میں دستاویزی شکل میں ریکارڈ کی جو انہوں نے عالمی میڈیا سے شیئر کیں، جس میں بتایا کہ وہ غزہ میں جاری تقریباً دو سالہ اسرائیل، حماس جنگ کی تباہ کاریوں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے، جس میں مقامی حکام کے مطابق اب تک 64 ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں۔
انہوں نے اپریل 2024 میں 5 ہزار ڈالر ادا کر کے رفح سرحد کے راستے مصر کا سفر کیا بعدازاں وہ پناہ کے لیے چین گئے لیکن ناکامی پر ملیشیا اور انڈونیشیا کے راستے دوبارہ مصر لوٹ آئے، پھر لیبیا پہنچے جہاں انسانی اسمگلروں کے ساتھ دس ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے تقریباً 5 ہزار ڈالر میں ایک استعمال شدہ یاماہا جیٹ اسکی خریدی، اضافی 1500 ڈالر جی پی ایس، سیٹلائٹ فون اور لائف جیکٹس پر خرچ کیے۔
دو دیگر فلسطینی ساتھیوں کے ساتھ انہوں نے 12 گھنٹے کا سمندری سفر کیا، دورانِ سفر انہیں تیونس کی گشتی کشتی کا تعاقب بھی برداشت کرنا پڑا، ایندھن ختم ہونے پر 20 کلومیٹر دوری پر انہوں نے مدد طلب کی، جس کے بعد یورپی بارڈر ایجنسی فرنٹیکس کے ایک مشن کے تحت رومانیہ کی گشتی کشتی نے انہیں بچایا اور وہ 18 اگست کو لampedusa پہنچے۔
یورپی ادارے کے ترجمان کے مطابق یہ واقعہ ’’انتہائی غیر معمولی‘‘ تھا، ابو دخہ اور ان کے ساتھیوں کو اٹلی کے جزیرے سے سسلی منتقل کیا گیا مگر بعد میں وہ حکام کی نگرانی سے نکل کر جینوا سے برسلز روانہ ہو گئے اور پھر جرمنی جا پہنچے، جہاں وہ اس وقت پناہ کے درخواست گزار کے طور پر مقیم ہیں۔
ابو دخہ کا کہنا تھا کہ ان کا خاندان خان یونس کے ایک خیمہ بستی میں رہائش پذیر ہے، جہاں ان کا گھر جنگ میں تباہ ہو چکا ہے، ان کے والد نے کہا کہ وہاں اس کا انٹرنیٹ شاپ تھا اور زندگی کافی بہتر تھا مگر سب کچھ تباہ ہوگیا۔
خیال رہےکہ ابو دخہ اس وقت جرمنی کے شہر برامشے میں ایک پناہ گزین مرکز میں مقیم ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ اپنی بیوی اور دو بچوں کو، جن میں سے ایک کو نیورولوجیکل مرض لاحق ہے، جرمنی بلا سکیں، انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے اپنی جان داؤ پر لگائی، بغیر اپنے خاندان کے زندگی کی کوئی معنویت نہیں۔
غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری اور امریکی حمایت کو مقامی عوام نے امداد کے نام پر دہشت گردی قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن رہے ہیں جبکہ اسپتال، پناہ گزین کیمپ اور بنیادی ڈھانچہ تباہی کا شکار ہیں، عالمی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر کسی قسم کا مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے، دوسری جانب مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور خاموشی نے مظلوم فلسطینیوں کے دکھ درد میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔