اسلام آباد:

ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے ماتحت عدلیہ کے ججز کی درخواست پر ڈیپوٹیشن پر آئے ججز کو واپس بھیجنے کے جوڈیشل سروس ٹریبونل کےفیصلے کیخلاف کیس  میں اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

یاد رہے کہ جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان  پر مشتمل ٹریبونل نے ماتحت عدلیہ کے ڈیپوٹیشن پر آئے ججز کو واپس بھیجنے کا فیصلہ دیا تھا۔

کیس میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدالتی معاون کو اپنے دلائل تحریری طور پر جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے مؤقف اختیار کیا کہ 18 مارچ کو نئے ٹریبونل کا نوٹیفکیشن جاری ہو گیا تو پرانا ٹریبونل ختم ہو گیا۔ پرانے ٹریبونل نے 21 مارچ کو کیس کا مختصر فیصلہ جاری کیا۔

جسٹس ارباب محمد طاہر نے استفسار کیا کہ 18 مارچ کا صدارتی نوٹیفکیشن ٹریبونل کے سامنے چیلنج تھا؟، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل راشد حفیظ نے بتایا کہ نوٹیفکیشن چیلنج نہیں تھا، اُسے کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل ایاز شوکت نے کہا کہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کیا ٹریبونل کے پاس وہ آرڈر کرنے کا اختیار تھا یا نہیں؟، جس پر جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ ٹریبونل نے لکھا ہے کہ انہوں نے فیصلہ پہلے محفوظ کر لیا تھا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ قانون کو کالعدم قرار دینے سے پہلے اٹارنی جنرل کو نوٹس کیا گیا تھا؟، جس پر ایڈیشنل اٹارنی  جنرل نے بتایا کہ ٹریبونل کے پاس اٹارنی جنرل کو نوٹس کر کے طلب کرنے کا بھی اختیار نہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ٹریبونل سول کورٹ کے برابر ہے اور سول کورٹ کے پاس کسی قانون کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں۔ نئے نوٹیفکیشن کے بعد جس ٹریبونل کا وجود ہی نہیں وہ آرڈر نہیں کر سکتا تھا۔

جسٹس ارباب محمد طاہر نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ جانے والے ججز بھی بعد میں محفوظ کردہ فیصلے جاری کرتے ہیں۔

درخواست گزار ججز کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد کے ججز کے دوسرے صوبوں میں تبادلے بار کا مطالبہ رہا ہے۔ صوبوں کے ججز کے صوبے کے اندر تبادلے ہوتے رہتے ہیں،اسلام آباد کے ججز کا تبادلہ نہیں ہوتا۔ اسلام آباد بار کا مطالبہ رہا ہے کہ اسلام آباد کے ججز کے بھی دوسرے صوبوں میں تبادلے ہونے چاہییں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس ارباب محمد طاہر نے اسلام آباد ٹریبونل کے ججز کے کے ججز

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر، چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیڈرل ازم پر تفصیل سے بات کی، آئینی بینچ

اسلام آباد:

سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر نے میں ججز ٹرانسفر کیخلاف کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ ججز ٹرانسفر کیلئے تین چیف جسٹس صاحبان نے رضامندی کا اظہار کیا جبکہ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے بہت تفصیل کیساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیڈرل ازم پر بات کی۔

جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اپیلوں پر سماعت کی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کے وکیل منیراے ملک نے دلائل میں کہا ہم نے جواب الجواب دلائل جمع کرا دیے ہیں۔ 

ایک جج کا ٹرانسفر ایگزیکٹو عمل ہے جس پر جوڈیشل ریویو ہو سکتا ہے، ججز ٹرانسفر کے عمل میں صدر مملکت کو سمری کابینہ سے منظوری کے بغیر بھجوائی گئی، اس بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ مصطفیٰ ایمپکس کیس موجود ہے۔

مزید پڑھیں: ججز ٹرانسفر کیس؛ وکیل درخواستگزار کو جواب الجواب دینے کیلیے مہلت مل گئی

جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا مصطفیٰ ایمپکس کیس میں رولز آف بزنس کے سیکشن 16 دو کو کالعدم قرار دیا گیا، اسکا ججز ٹرانسفر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

منیر اے ملک نے کہا قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا عدالتی امور پر صدر کو آزادانہ مائنڈ اپلائی کرنا چاہیے، ججز ٹرانسفر کی سمریوں سے عیاں ہوتا ہے صدر مملکت اور وزیراعظم نے ایک ہی دن منظوری دی، سمری عدلیہ کے ذریعے نہیں بھجوائی گئی، ٹرانسفر سے قبل عدلیہ میں مشاورت نہیں ہوئی۔ کیس کی آئندہ سماعت آئندہ بدھ تک ملتوی کر دی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا لاپتہ شہری کے اغوا کا مقدمہ درج کرنے کا حکم
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان کی سزا کیخلاف اپیل رواں برس میں مقرر ہونے کا کوئی امکان نہیں، رجسٹرار آفس اسلام آباد ہائیکورٹ
  • ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس: عمران خان کی سزا کیخلاف اپیل 2025 میں مقرر ہونے کا کوئی امکان نہیں، رجسٹرار آفس اسلام آباد ہائیکورٹ
  • ججز ٹرانسفر، چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیڈرل ازم پر تفصیل سے بات کی، آئینی بینچ
  • سپریم کورٹ: آئینی بینچ میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس مقرر
  • منصوبے کے تحت اسلام آباد ہائیکورٹ پر قبضے کیلئے جج ٹرانسفر کیے گئے. منیراے ملک
  • اسلام آباد دنیا کے دیگر بڑے شہروں سے زیادہ محفوظ قرار
  • لندن اور نیویارک جیسے شہروں کی نسبت اسلام آباد محفوظ ترین شہر قرار