ایف بی آر کو بغیر اجازت و پیشگی اطلاع بینک اکاؤنٹس سے رقم ضبط کرنے کا اختیار دیدیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 مئی 2025ء ) حکومت کی جانب سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بغیر اجازت و پیشگی اطلاع بینک اکاؤنٹس سے رقم ضبط کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایف بی آر نے ٹیکس دہندگان کوبغیر کسی پیشگی نوٹس کے ٹیکس کی رقم ریکور کرنے کیلئے بینک اکاؤنٹس سے رقوم نکالنے اور جائیداد ضبط کرنے کے اختیارات حاصل کرلیے ہیں، اس حوالے سے ٹیکس قوانین میں نئی ترامیم پر قانونی اور ٹیکس ماہرین نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ٹیکس دہندگان کے حقوق کیلئے خطرناک قرار دیدیا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے جاری کردہ ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2025ء کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو عدالتوں سے فیصلے کے بعد کسی بھی ٹیکس دہندہ کے بینک اکاؤنٹس یا منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے ٹیکس کی فوری وصولی کا اختیار حاصل ہو گیا ہے اس کے لیے مزید کسی نوٹس کی ضرورت نہیں ہوگی، نئے آرڈیننس کے نفاذ کے بعد انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی دفعہ 138 کے تحت نوٹس جاری کیے بغیر ہی ایف بی آر ٹیکس کی ریکوری کرسکے گا، اس ترمیم کے ذریعے ایف بی آر کو کاروباری اداروں اور فیکٹریوں میں اپنے افسران تعینات کرنے، پیداوار، مال کی ترسیل اور غیر فروخت شدہ اسٹاک کی نگرانی کا بھی مکمل اختیار دے دیا گیا۔(جاری ہے)
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ آرڈیننس کے اجراء کے فوری بعد ہی ایف بی آر نے عدالتوں سے منظور شدہ فیصلوں کی روشنی میں کمپنیوں کے خلاف ریکوری اور عملدرآمد کی کارروائیاں شروع کر دی ہیں، سب سے پہلے اس آرڈیننس کی زد میں ٹیلی کام سیکٹر کی ایک بڑی کمپنی کے آنے کا امکان ہے جس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اربوں روپے کا واجب الادا ٹیکس ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی، دوسری کمپنی جو اس کارروائی کی زد میں آسکتی ہے وہ ایک مشترکہ منصوبے پر مبنی ٹیلی کام کمپنی ہے جس نے عدالت کے حکم کے مطابق واجب الادا ٹیکس ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ بتایا جارہا ہے کہ ٹیکس قوانین ترمیمی آرڈیننس 2025ء میں متعارف کردہ ترامیم سے قانونی اور ٹیکس ماہرین شدید تشویش کا شکار ہیں کیوں کہ نئے آرڈیننس کے تحت ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ روایتی قانونی طریقہ کار کو نظرانداز کرتے ہوئے فوری طور پر ٹیکس وصولی کی کارروائیاں شروع کرسکے جسے ناقدین کی جانب سے ٹیکس دہندگان کے قانونی تحفظات اور شفافیت کے اصولوں کے منافی قرار دیا گیا۔ .ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بینک اکاؤنٹس ایف بی آر
پڑھیں:
مالدیپ میں متنازع بل منظور، صحافتی آزادی پر قدغن کے خدشات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) مالدیپ کی پارلیمان نے صحافیوں اور میڈیا اداروں کو ضابطہ کار میں لانے کے لیے ایک ایسا متنازع قانون منظور کر لیا ہے، جس پر مقامی اور بین الاقوامی حلقوں نے سخت تشویش ظاہر کی ہے۔
منگل کی شب منظور ہونے والے 'میڈیا اینڈ براڈکاسٹنگ ریگولیشنز بل‘ کو انسانی حقوق کی تنظیموں نے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے۔
اس قانون کے تحت ایک ریگولیٹری کمیشن قائم کیا جائے گا، جسے میڈیا اداروں کو معطل، اخبارات کی ویب سائٹس بلاک کرنے اور بھاری جرمانے عائد کرنے کا اختیار ہو گا۔یہ بل صدر محمد معیزو کی توثیق کے بعد نافذ العمل ہوگا۔ مقامی روزنامہ ''محارو‘‘ کے مطابق بیس سے زائد ملکی اور غیر ملکی تنظیموں نے اس قانون کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن پارلیمان نے ان خدشات کو نظرانداز کر دیا۔
(جاری ہے)
پیرس میں قائم تنظیم رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (RSF) نے خبردار کیا ہے کہ اس بل میں مبہم زبان استعمال کی گئی ہے، جسے حکومت سینسرشپ کے لیے استعمال کر سکتی ہے، خاص طور پر طاقت کے غلط استعمال کی کوریج کو محدود کرنے کے لیے۔مجوزہ کمیشن سات اراکین پر مشتمل ہو گا، جن میں سے تین کا تقرر پارلیمان کرے گی جبکہ چار کا انتخاب میڈیا کی صنعت سے ہو گا، تاہم پارلیمان کو انہیں برطرف کرنے کا اختیار ہوگا۔
کمیشن کو 25 ہزار روفیہ (تقریباً 1625 ڈالر) تک صحافیوں اور 100 ہزار روفیہ (6500 ڈالر) تک اداروں پر جرمانہ کرنے، لائسنس منسوخ کرنے اور ایک سال قبل شائع شدہ مواد پر بھی کارروائی کرنے کا اختیار ہو گا۔وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ نئے ضوابط کا مقصد میڈیا پر عوامی اعتماد قائم کرنا اور جھوٹی معلومات کے پھیلاؤ کو روکنا ہے، تاہم یہ قانون سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لاگو نہیں ہو گا۔
آر ایس ایف کے ورلڈ پریس فریڈم انڈکس میں مالدیپ کا نمبر 180 ممالک میں سے 104ہے، جو کہ قریبی جنوبی ایشیائی ممالک پاکستان (158) سری لنکا (139) اور بھارت (151) سے کہیں بہتر ہے۔
ادارت: مقبول ملک