فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس دہندگان کوبغیر کسی پیشگی نوٹس کے ٹیکس کی رقم ریکور کرنے کیلئے بینک اکاؤنٹس سے رقوم نکالنے اور جائیداد ضبط کرنے کے اختیارات حاصل کرلئے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ٹیکس قوانین میں نئی ترامیم پر قانونی اور ٹیکس ماہرین نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئےٹیکس دہندگان کے حقوق کیلئے خطرناک قرار دیدیا ہے کیونکہ ان کے تحت ٹیکس افسران کو ٹیکس دہندگان سے بغیر کسی پیشگی نوٹس کے رقم وصول کرنے کے وسیع اختیارات دے دیے گئے ہیں۔

ٹیکس ماہرین نے اسے عدالتی فیصلوں کے بھی خلاف قرار دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے جاری کردہ ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2025 کے تحت فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو عدالتوں سے فیصلے کے بعد کسی بھی ٹیکس دہندہ کے بینک اکاؤنٹس یا منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے ٹیکس کی فوری وصولی کا اختیار حاصل ہو گیا ہے اور اس کے لیے مزید کسی نوٹس کی ضرورت نہیں ہوگی۔

نئے آرڈیننس کے نفاذ کے بعد انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 138 کے تحت نوٹس جاری کیے بغیر ہی ایف بی آر ٹیکس کی ریکوری کر سکے گا۔ اس ترمیم کے ذریعے ایف بی آر کو کاروباری اداروں اور فیکٹریوں میں اپنے افسران تعینات کرنے، پیداوار، مال کی ترسیل اور غیر فروخت شدہ اسٹاک کی نگرانی کا بھی مکمل اختیار دے دیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق آرڈیننس کے اجرا کے فوراً بعد ایف بی آر نے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات عدالتوں سے منظور شدہ فیصلوں کی روشنی میں کمپنیوں کے خلاف ریکوری اور عملدرآمد کی کارروائیاں شروع کر دیں ۔

ذرائع نے انکشاف کیا کہ اس آرڈیننس کی پہلی زد میں ٹیلی کام سیکٹر کی ایک بڑی کمپنی آئے گی جس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اربوں روپے کا واجب الادا ٹیکس ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے دوسری کمپنی جو اس کارروائی کی زد میں آئی ہے وہ ایک مشترکہ منصوبے پر مبنی ٹیلی کام کمپنی ہے جس نے عدالت کے حکم کے مطابق واجب الادا ٹیکس ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

دوسری طرف ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس 2025 کے ذریعے متعارف کی گئی حالیہ ترامیم نے قانونی اور ٹیکس ماہرین میں بھی  شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ نئے آرڈیننس کے تحت ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ روایتی قانونی طریقہ کار کو نظر انداز کرتے ہوئے فوری طور پر ٹیکس وصولی کی کارروائیاں شروع کر سکے جسے ناقدین ٹیکس دہندگان کے قانونی تحفظات اور شفافیت کے اصولوں کے منافی قرار دے رہے ہیں۔

اس حوالے سے معروف ٹیکس ماہر اور وکیل وحید شہزاد بٹ نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کے اس اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ٹیکس ریکوری کے قوانین میں کی گئی یہ فوری ترمیم اسلام آباد ہائی کورٹ کے مشہور پاکستان ایل این جی کیس کے فیصلے کے بالکل برعکس ہے جس میں عدالت نے قانون کی حکمرانی اور ٹیکس دہندگان کے ساتھ شفاف برتاؤ کو فروغ دیا تھا ۔

وحید بٹ نے خبردار کیا کہ ایسے بے لگام اختیارات سے ٹیکس نظام پر عوامی اعتماد کو شدید دھچکا لگے گا اور یہ حقیقی ریکوری کے بجائے ٹیکس بربریت کے مترادف ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی قرار دے چکی ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 140 کے تحت کسی بھی سخت کارروائی سے قبل دفعہ 138(1) کے تحت سات دن کا نوٹس دینا لازم ہے، تاکہ ٹیکس دہندہ رضاکارانہ طور پر ادائیگی کر سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ نئی ترامیم نہ صرف اس قانونی نظیر کو نظر انداز کرتی ہیں بلکہ جبری اقدامات کے دروازے کھولتی ہیں جس سے افراد اور کاروباری ادارے بغیر اطلاع یا قانونی چارہ جوئی کے نشانہ بن سکتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک اور پسماندہ قدم ہے جو قانونی شفافیت اور ٹیکس دہندگان کے تحفظ پر مبنی عدالتی فیصلوں سے انحراف ہے۔

انکا کہنا تھا کہ نئے آرڈیننس کی شق کے مطابق اس آرڈیننس یا کسی دیگر قانون یا قاعدے یا کسی بھی فورم، اتھارٹی یا عدالت کے کسی فیصلے کے باوجوداگر کسی معاملے پر ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہو تو اس کی بنیاد پر ٹیکس کی رقم فوری طور پر یا نوٹس میں دی گئی مدت کے اندر ادا کرنا لازم ہوگی قطع نظر اس کے کہ دیگر قانونی دفعات کیا کہتی ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹیکس دہندگان کے ایف بی آر اور ٹیکس فیصلے کے کے مطابق ٹیکس کی کے تحت

پڑھیں:

سیلاب متاثرین کی بحالی، کاروں، سگریٹ اور الیکٹرانک اشیا پر اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز

اسلام آباد:

حکومت امیروں سے پیسہ جمع کرنے کے نام پر سیلاب سے متعلق بحالی کے لیے ایک نیا منی بجٹ پیش کر سکتی ہے جس کے تحت کاروں، سگریٹ، الیکٹرانک اشیا پر اضافی ٹیکس لگانے اور جون میں ریگولیٹری ڈیوٹیوں میں کمی کے برابر درآمدی سامان پر لیوی عائد کرنے کی تجویز ہے۔

ذرائع نے کہا ہے کہ حکومت بعض ایسی اشیا کو ہدف بنانے پر غور کر رہی ہے جو امیر طبقے استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح 1,100 سے زائد درآمدی سامان پر فیڈرل لیوی کے ذریعے مزید محصولات جمع کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

اگر وزیر اعظم شہباز شریف نے اس کی منظوری دے دی تو یہ منی بجٹ محصولات کے خسارے کو کم کرے گا اور سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے رقم اکٹھی کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔

تاہم زیادہ تر ریلیف اور ریسکیو کا کام صوبے کر رہے ہیں۔ ذرائع نے ’’ ایکسپریس ٹریبیون ‘‘ کو بتایا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے منگل کے روز ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں فلڈ لیوی بل کے ذریعے حکومت کی ممکنہ تجاویز پر غور کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ منی بجٹ کے ذریعے حاصل ہونے والی اضافی آمدنی کی مقدار، شرح اور متاثرہ اشیا کا حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔

کم از کم 50 ارب روپے جمع کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے تاہم اصل رقم اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب جولائی تا اگست 40 ارب روپے کا ٹیکس خسارہ سامنے آیا ہے جو اس ماہ کے اختتام تک بڑھ کر 100 ارب روپے سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔

اس اقدام سے آئی ایم ایف کے مالیاتی اہداف بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے وزارتِ خزانہ اور ایف بی آر کے ترجمانوں نے حکومتی منصوبوں پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

ذرائع نے بتایا حکومت 5 فیصد لیوی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے جو مخصوص قیمت کی حد سے زائد والے الیکٹرانک سامان پر لاگو ہوگی۔

اسی طرح ہر برانڈ اور قیمت سے قطع نظر ہر سگریٹ کے پیکٹ پر 50 روپے لیوی عائد کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ ٹیکس کے برعکس لیوی صرف وفاقی آمدنی ہوتی ہے اور ایف بی آر کے مجموعے کا حصہ نہیں بنتی۔

تاہم غیر ٹیکس محصولات مثلاً فلڈ لیوی سے ایف بی آر کے محصولات کے خسارے کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وفاقی لیوی کی آئینی حیثیت پر بھی تفصیل سے بحث کی گئی۔

اعداد و شمار کے مطابق جولائی میں بڑی صنعتوں کی پیداوار 9 فیصد بڑھنے کے باوجود ایف بی آر اپنے اہداف پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔

آئی ایم ایف نے حال ہی میں 213 ارب روپے کے جناح میڈیکل کمپلیکس اسلام آباد کی تعمیر کے لیے میونسپل ٹیکس کے نئے مجوزہ منصوبے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک اور تجویز یہ ہے کہ مخصوص انجن کیپسٹی سے زیادہ والی کاروں پر لیوی عائد کی جائے۔ ممکنہ طور پر 1800 سی سی اور اس سے بڑی گاڑیاں نشانے پر ہوں گی۔

انڈس موٹرز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر علی اصغر جمالی نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ گاڑیوں کی قیمتیں حکومت کے بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے زیادہ ہیں جو کل قیمت کا 30 سے 61 فیصد تک بنتے ہیں۔

بجٹ میں حکومت نے تقریباً 1150اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹیوں میں کمی کی تھی۔ اب وزارت خزانہ ان اشیا پر اتنی ہی شرح کی لیوی لگانے پر غور کر رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف کی اگلی قسط کیلئے شرائط، ٹیکس ہدف اور بجٹ سرپلس حاصل کرنے میں ناکام
  • آئی ایم ایف کی اگلی قسط کیلئے شرائط، ٹیکس ہدف اور بجٹ سرپلس حاصل کرنے میں ناکام
  • یو این چیف کا عالمی مسائل کے حل میں سنجیدگی اختیار کرنے پر زور
  • مالدیپ میں متنازع بل منظور، صحافتی آزادی پر قدغن کے خدشات
  • سیلاب متاثرین کی بحالی اور ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلئے منی بجٹ لانے کا امکان
  • عوام کی صحت کیساتھ کھیلنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائیگی، شفقت محمود
  • سیلاب متاثرین کی بحالی، کاروں، سگریٹ اور الیکٹرانک اشیا پر اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز
  • کراچی: ریڈ لائن منصوبے میں غیر معمولی تاخیر، شہری اذیت کا شکار
  • اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے گورنر کی تنخواہ مقرر کرنے کا اختیار واپس لینے کی تیاری
  • کسی ملزم کو عدالتی پراسیس کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، چیف جسٹس