عالیہ بھٹ فٹ رہنے کے لیے کونسے دیسی کھانے کھاتی ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT
بولی ووڈ کی باصلاحیت اداکارہ عالیہ بھٹ نہ صرف اسکرین پر بہترین کارکردگی دکھاتی ہیں بلکہ اپنی صحت مند غذائی عادات کے حوالے سے بھی مشہور ہیں۔
ایک زمانے میں موٹاپے کا شکار رہنے والی عالیہ اب اپنی خوراک اور ورزش پر خاص توجہ دیتی ہیں تاکہ فٹ اور صحت مند رہ سکیں۔
ایک انٹرویو میں عالیہ نے بتایا کہ وہ مغربی ڈائٹ سے زیادہ روایتی بھارتی کھانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں بالکل دیسی ہوں۔ مجھے سلاد بالکل نہیں پسند۔
یہ بھی پڑھیے: ’عالیہ بھٹ میری پہلی بیوی نہیں ہے‘ ، رنبیر کپور کا انکشاف
انہوں نے کہا کہ مجھے دال چاول، سبزی چاہیے۔ روٹی کے لیے کبھی راگی روٹی کھاتی ہوں، کبھی جوار کی۔ میرے آپشن بدلتے رہتے ہیں۔ اور میں شکر کو بالکل ہاتھ نہیں لگاتی۔
ماہرینِ صحت کے مطابق دال اور چاول بہترین امتزاج ہیں اور یہ جسم کو تمام ضروری پروٹین فراہم کرتے ہیں۔ اسی طرح راگی (فنگر ملیٹ) ہڈیوں کی مضبوطی، ہاضمے اور بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں مددگار ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق اس میں اینٹی ڈائبٹک، اینٹی آکسیڈنٹ اور اینٹی مائیکروبیل خصوصیات پائی جاتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
دیسی کھانے صحت عالیہ بھٹ کھانے.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: دیسی کھانے عالیہ بھٹ کھانے عالیہ بھٹ
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔