Express News:
2025-06-19@23:49:31 GMT

ملتان سلطانز کا مسئلہ کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT

کراچی:

یہ 2017 کی بات ہے، پی ایس ایل کی ابتدائی کامیابی کو دیکھ کر اس میں ایک نئی ٹیم شامل کرنے کا فیصلہ ہوا، چھٹی ٹیم کیلیے پی سی بی کا شون گروپ کے ساتھ 5.2 ملین ڈالرز کا معاہدہ ہوا، یہ سابقہ مہنگی ترین ٹیم کراچی کنگز (2.6 ملین) سے دگنی رقم تھی، البتہ اپنے ابتدائی سیزن کے بعد ہی شون گروپ کو اندازہ ہو گیا کہ اس نے غلطی کر لی ہے، جب فیس کی ادائیگی نہیں ہوئی تو پی سی بی نے معاہدہ منسوخ کر دیا.

دسمبر 2018 میں عالمگیر ترین نے اپنے بھتیجے علی ترین کے ساتھ مل کر6.3 ملین ڈالر میں یہ ٹیم خرید لی،اس وقت ان کے ذہن میں یہی تھا کہ ہر حال میں فرنچائز لینی ہے اس لیے شاید یہ بات نہ سوچی کہ جب شون گروپ5.2 ملین فیس دیکھ کر سائیڈ پر ہوگیا تو یہ اس سے زیادہ رقم کیسے کور کریں گے. 

خیر یہ پارٹی بہت بڑی ہے، کچھ سیاسی معاملات بھی ذہن میں ہوں گے، اس لیے نقصانات بھی برداشت کیے جاتے رہے،2021 میں بعض وجوہات کی بنا پر عالمگیر ترین اکیلے ہی تمام شیئرز کے مالک بن گئے، چچا بھتیجے کے درمیان کیا بات ہوئی اس کا ہمیں کوئی مطلب نہیں،2023 میں عالمگیر ترین اس دنیا میں نہیں رہے اور علی ترین فرنچائز کے پھر سے مالک بن گئے،ان دنوں لیگ کا دسواں ایڈیشن جاری ہے.

اس سے قبل ہی علی ترین نے فنانشل ماڈل کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، اچانک انھیں لیگ میں بے انتہا خامیاں دکھائی دینے لگیں اور وہ مالی نقصانات کا رونا رونے لگے، حیران کن طور پر پی سی بی اس دوران خاموش تماشائی بنا رہا کیونکہ علی ترین خاصی اثرورسوخ والی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، انھوں نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر ویلیویشن کے نتیجے میں فیس بڑھائی تو وہ ری بڈنگ میں جائیں گے. 

ایک اور انٹرویو میں انھوں نے ملتان کی فیس کراچی کے برابر کرنے کا مطالبہ بھی کیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ دسمبر میں جب پی سی بی نے  فرنچائزز سے پوچھا تھا کہ کیا وہ ملکیت اپنے پاس برقرار رکھنا چاہتی ہیں تو ملتان سمیت سب نے ہاں میں جواب دیا تھا. 

سلمان نصیر اور علی ترین کے تعلقات بھی مثالی نہیں ہیں، وہ اب لیگ کے سی ای او بن چکے لہذا صورتحال تھوڑی پیچیدہ سی ہے،دسویں ایڈیشن کے بعد کرکٹ بورڈ تمام ٹیموں کی ویلیویشن کرائے گا اور اس کے بعد کم ازکم 25 فیصد فیس میں اضافہ ممکن ہے. 

یوں ملتان کی فیس ایک ارب 8 کروڑ روپے سالانہ سے بڑھ کر ایک ارب 35 کروڑ تک ہو سکتی ہے، یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہوگا اور علی کا شکوہ  ممکن طور پر غلط بھی نہیں ہے، البتہ ٹائمنگ اور انداز پر سوال اٹھ سکتے ہیں، ان کی باتوں سے لیگ کو نقصان ہوا، اس کی قدروقیمت کم ہوئی، علی ترین کو یہ باتیں گورننگ کونسل میٹنگ میں کہنی چاہیے تھیں لیکن سنا ہے وہاں وہ اپنا مائیک میوٹ ہی رکھتے ہیں.

ان کے پاس ایک آپشن یہ بھی تھا کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھتے اور کہتے کہ چچا کا انتقال ہو چکا، ٹیم انھوں نے خریدی تھی لیکن اس فیس میں اسے میں نہیں سنبھال سکتا لہذا کچھ نظرثانی کریں، گوکہ معاہدے کی رو سے فیس میں کمی ممکن نہیں لیکن سلمان نصیر ماہر وکیل ہیں، وہ کوئی نہ کوئی راہ نکال ہی لیتے. 

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ علی ترین اتنے جارحانہ موڈ میں کیوں ہیں؟ حال ہی میں پی سی بی کے 2  ڈائریکٹرز ندیم خان اور سمیع برنی نے ملتان سلطانز کو جوائن کیا ہے، کیا انھوں نے کچھ ایسے مشورے دیے؟ کیا کسی نے یہ کہا کہ پی سی بی بیانات سے دباؤ میں آ جائے گا ایسا کرو، البتہ لوگ یہ کیوں بھول گئے کہ اس وقت چیئرمین محسن نقوی ہیں، وہ بھلا کسی کے دباؤ میں کیوں آئیں گے. 

ہو سکتا ہے ابھی مروت میں ڈھیل دی ہو لیکن ایسا زیادہ دیر نہیں چل سکتا، اس بار ملتان سلطانز بے دلی سے پی ایس ایل میں شریک ہوئے، اسکواڈ متوازن نہیں ہے، مسلسل شکستوں نے سابقہ کامیابیوں کو بھی گہنا دیا،اگر ٹیم کی برانڈ ویلیو تمام 10 ایڈیشنز کی بنیاد پر نہ بنتی تو ملتان پیچھے رہ جاتا، ویسے یہ بھی عجیب بات ہے جس نے اپنی ٹیم کو بڑا برانڈ بنایا وہ اتنے ہی نقصان میں رہے گا. 

ویلیویشن میں اس کی فیس زیادہ بڑھ سکتی ہے، جو سارے سال آرام سے بیٹھے رہیں اور لیگ کے وقت جاگیں ان کو فائدہ ہوگا، جتنا علی ترین کے بیانات نے پی ایس ایل کو نقصان پہنچایا اس سے زیادہ ٹیم کی ناقص کارکردگی سے لیگ متاثر ہوئی، آپ نے کبھی آئی پی ایل اونرز کو اس کی برائی کرتے نہیں دیکھا ہوگا. 

سوال یہ اٹھتا ہے کہ آپ نے اتنے مہنگے داموں ٹیم کیوں لی؟ جب مسلسل نقصان برداشت کرتے رہے تو چپ کیوں رہے؟ اب 10 سال پورے ہونے پر خیال آ رہا ہے، پی ایس ایل فرنچائز مالکان کو یہ سوچنا چاہیے کہ دولت تو ان کے پاس پہلے سے تھی، اس لیگ نے سیلیبریٹی اسٹیٹس دیا، آپ جنوبی پنجاب کے کتنے سیاستدانوں کو جانتے ہوں گے؟ کتنے بزنس مینز کے ناموں سے آپ واقف ہوں گے؟

البتہ پی ایس ایل اونرز کی مکمل ہسٹری دنیا جانتی ہے،وہ جہاں جاتے ہیں مداح ساتھ سیلفیز بنواتے ہیں،بیشتر نے یقینی طور پر لیگ سے پیسہ بھی کمایا ہوگا، جس وقت کسی کو علم نہ تھا کہ پی ایس ایل چلے گی یا نہیں تب خطرہ مول لے کر عاطف رانا، ثمین رانا، جاوید آفریدی، ندیم عمر، علی نقوی اور سلمان اقبال نے ٹیمیں خریدیں،اصل کریڈٹ تو انہی کو جاتا ہے.

کامیابی کے بعد آنے والوں کو تو زیادہ فیس دینی ہی تھی، اب پھر آئندہ سال 2 نئی ٹیموں کو شامل کیا جا رہا ہے، علی ترین کے بیانات کے بعد کیا کوئی 6.3 ملین ڈالر میں بھی ٹیم کو خریدے گا؟ وہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ملتان سلطانز جب اتنے نقصان میں ہے تو ہم کیسے ریکور کریں گے.

ایک طریقہ ہے پی سی بی ری بڈنگ میں ملتان کی ٹیم بھاری قیمت میں فروخت کر دے پھر اگلی 2 ٹیموں کے بھی ریٹس بڑھ جائیں گے، اس لیگ کو بڑا اونرز کو ہی بنانا تھا لیکن بدقسمتی سے چند ایک کے سوا دیگر فعال کردار ادا نہ کر سکے، اب نئے معاہدے ہونا ہیں اس صورتحال کا نقصان ہی ہوگا.

جب تک لیگ بڑی نہیں ہوتی زیادہ آمدنی ہونا ممکن نہیں ہے، اسے بڑا بنانے کیلیے ضروری ہے کہ رونا دھونا چھوڑ کر سب ٹیبل پر بیٹھیں اور نئی راہیں تلاش کریں، اگر ایسا نہیں کر سکتے تو ٹیم کو چھوڑ دیں،یقین مانیے کئی لوگ مالک بننے کیلیے تیار بیٹھے ہیں، فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے جو ہے وہ کریں بس لیگ کو برباد نہ کریں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ملتان سلطانز علی ترین کے پی ایس ایل انھوں نے پی سی بی ٹیم کی تھا کہ کے بعد

پڑھیں:

تو ایران کا کیا ہوگا؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

یوری ایوننری

اسرائیلی بائیں بازو کے صحافی یوری ایوننری کا یہ کالم ۲۰۰۷ میں یعنی آج سے اٹھارہ سال قبل شائع ہوا؛ اٹھارہ سال پرانا تجزیہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا ہے۔ دنیا کیا سے کیا ہو گئی ہے لیکن اس کے کچھ حصے اب بھی ریلیونٹ ہیں۔ اس وقت بھی امریکا اور اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کے لیے اتنے ہی بے تاب تھے۔ ایران پر حملے اور رجیم چینج کی گفتگو پرو اسرائیل امریکا میں کبھی ختم ہی نہیں ہوئی۔ ان کا کالم تزین فرید کی وال سے لے کر قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
………
ایک معزز امریکی اخبار نے اس ہفتے ایک بڑی خبر شائع کی: نائب صدر ڈک چینی، جو جنگ کے سب سے بڑے حامی سمجھے جاتے ہیں، نے ایران پر حملے کے لیے ایک مکاری پر مبنی منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس منصوبے کا مرکزی نکتہ یہ ہے: اسرائیل سب سے پہلے ایران کی کسی جوہری تنصیب پر بمباری کرے گا، ایران اس کے ردعمل میں اسرائیل پر میزائل برسائے گا اور یہ حملہ امریکا کے لیے ایران پر حملے کا بہانہ بنے گا۔ کیا یہ منصوبہ ناقابلِ یقین ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ 1956 میں پیش آنے والے واقعے جیسا ہی ہے۔ اْس وقت فرانس، اسرائیل اور برطانیہ نے خفیہ طور پر مصر پر حملے کی منصوبہ بندی کی تاکہ جمال عبد الناصر کو اقتدار سے ہٹایا جا سکے (آج کی زبان میں ’’ریجیم چینج‘‘)۔ طے پایا کہ اسرائیلی پیراٹروپرز سوئز کینال کے قریب اُتارے جائیں گے، اور پیدا ہونے والا تنازع فرانسیسیوں اور برطانویوں کو کینال کے علاقے پر قبضہ کرنے کا موقع دے گا تاکہ وہ اس آبی گزرگاہ کو ’’محفوظ‘‘ کر سکیں۔ یہ منصوبہ عمل میں آیا اور بری طرح ناکام ہوا۔ اگر ہم چینی کے اس منصوبے پر عمل کریں تو ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ ہمارے پائلٹس کو ایران کی سختی سے محفوظ جوہری تنصیبات پر حملہ کرنا پڑے گا، جان کا خطرہ مول لیتے ہوئے۔ اس کے بعد ایرانی میزائل ہمارے شہروں پر برسیں گے۔ سیکڑوں، شاید ہزاروں، افراد ہلاک ہوں گے۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ امریکا کو جنگ کا جواز مل سکے۔ کیا یہ جواز کافی ہوتا؟ دوسرے الفاظ میں، کیا امریکا کو ہمارے ساتھ جنگ میں شامل ہونا لازم ہے، چاہے ہم ہی اس جنگ کا باعث بنے ہوں؟ نظریاتی طور پر، جواب ہاں ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے درمیان موجودہ معاہدوں کے مطابق، امریکا کو کسی بھی جنگ میں اسرائیل کی مدد کرنا ہے۔ چاہے جنگ کسی نے شروع کی ہو۔
کیا اس خبر میں کوئی صداقت ہے؟ کہنا مشکل ہے۔ لیکن اس سے یہ شک ضرور مضبوط ہوتا ہے کہ ایران پر حملہ توقع سے زیادہ قریب ہو سکتا ہے۔ کیا بش، ڈک چینی اور ان کے ساتھی واقعی ایران پر حملے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ مجھے یقین نہیں، لیکن یہ شک ضرور بڑھ رہا ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ جارج بش کی مدتِ صدارت اپنے اختتام کے قریب ہے۔ اگر یہ دور ویسے ہی ختم ہوا جیسے ابھی حالات ہیں، تو وہ امریکا کے بدترین بلکہ شاید سب سے بدترین صدر کے طور پر یاد کیے جائیں گے۔ ان کی صدارت کا آغاز ٹوئن ٹاورز کے سانحے سے ہوا، جو خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کا عکاس تھا، اور اس کا اختتام عراق کی ہولناک تباہی پر ہو گا۔ اب صرف ایک سال باقی ہے کچھ ’’قابل ِ فخر‘‘ کرنے کے لیے تاکہ تاریخ میں اپنا نام بچایا جا سکے۔ ایسے حالات میں، حکمران اکثر فوجی مہم جوئی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اور بش کی شخصیت کو مد ِنظر رکھتے ہوئے، جنگ کا امکان واقعی خوفناک نظر آتا ہے۔ بے شک، امریکی فوج عراق اور افغانستان میں پھنسی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ بش اور چینی جیسے لوگ بھی اس وقت ایک ایسے ملک پر حملہ کرنے کا خواب نہیں دیکھ سکتے جو رقبے میں عراق سے چار گنا اور آبادی میں تین گنا بڑا ہے۔ لیکن جنگ کے حامی بش کے کان میں سرگوشی کر سکتے ہیں: آپ کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ حملے کے لیے زمینی فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ صرف بمباری کافی ہے، جیسے ہم نے سربیا اور افغانستان پر کی۔ ہم اپنی جدید ترین بمباری اور میزائلوں سے دو ہزار کے قریب اہداف کو نشانہ بنائیں گے تاکہ نہ صرف ایران کی جوہری تنصیبات، بلکہ ان کی فوجی تنصیبات اور حکومتی دفاتر بھی تباہ ہو جائیں۔ جیسا کہ ایک امریکی جنرل نے ویتنام کے بارے میں کہا تھا: ’’ہم انہیں پتھر کے دور میں واپس پہنچا دیں گے‘‘ یا جیسا کہ اسرائیلی فضائیہ کے جنرل دان حلوتز نے لبنان کے بارے میں کہا: ’’ہم ان کی گھڑی بیس سال پیچھے کر دیں گے‘‘۔ یہ ایک پرکشش خیال ہو سکتا ہے۔ امریکا صرف اپنی فضائیہ، میزائلوں اور طاقتور طیارہ بردار بحری بیڑوں کو استعمال کرے گا، جو پہلے ہی خلیج فارس میں تعینات ہیں۔ یہ سب کچھ قلیل نوٹس پر متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ایک ناکام صدر کے لیے، جو اپنے دورِ اقتدار کے اختتام پر ہو، ایک آسان اور مختصر جنگ کا تصور بہت کشش رکھتا ہے۔ اور اس صدر نے پہلے ہی ثابت کیا ہے کہ وہ ایسے وسوسوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کیا یہ واقعی اتنا آسان منصوبہ ہوگا، جیسا کہ امریکی زبان میں کہا جاتا ہے، ’’پیس آف کیک‘‘؟
مجھے شک ہے۔ ’’اسمارٹ بمز‘‘ بھی انسانوں کو مارتے ہیں۔ ایرانی ایک باوقار، پْرعزم اور باہمت قوم ہیں۔ وہ یہ بتاتے ہیں کہ دو ہزار سال میں انہوں نے کبھی کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کیا، لیکن ایران- عراق جنگ کے آٹھ سال میں انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ جب ان کے اپنے ملک پر حملہ ہو تو وہ اس کا دفاع کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔
امریکی حملے کا ان کا پہلا ردِعمل خلیج فارس کے داخلی راستے آبنائے ہرمز کو بند کرنا ہو گا۔ یہ دنیا کی ایک بڑی تیل کی ترسیل کو روک دے گا اور عالمی سطح پر ایک بے مثال اقتصادی بحران پیدا کر دے گا۔ اس آبنائے کو دوبارہ کھولنے کے لیے (اگر ایسا ممکن بھی ہو) امریکی فوج کو ایران کے بڑے رقبے پر قبضہ کرنا پڑے گا۔ مختصر اور آسان جنگ ایک طویل اور مشکل جنگ میں بدل جائے گی۔ اس کا اسرائیل کے لیے کیا مطلب ہوگا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا، تو وہ اپنے اعلان کے مطابق ردعمل دے گا: وہ ہمیں ان راکٹس سے نشانہ بنائے گا جو اس نے خاص اسی مقصد کے لیے تیار کیے ہیں۔ یہ اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ تو نہیں ہوگا، لیکن یہ خوشگوار بھی ہرگز نہیں ہوگا۔ اگر امریکی حملہ ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ میں تبدیل ہو گیا، اور اگر امریکی عوام اسے عراق کی طرح ایک اور تباہی سمجھنے لگے، تو کچھ لوگ لازماً اس کا الزام اسرائیل پر ڈالیں گے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ پرو اسرائیل لابی اور اس کے اتحادی، جن میں زیادہ تر یہودی نیو کنزرویٹو اور عیسائی صہیونی شامل ہیں امریکا کو اس جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں، بالکل جیسے انہوں نے عراق کی جنگ میں کیا تھا۔ اسرائیلی پالیسی کے لیے، اس جنگ سے جو متوقع فائدے ہیں، وہ بہت بڑے نقصانات میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ نہ صرف اسرائیل کے لیے، بلکہ امریکی یہودی برادری کے لیے بھی۔ اگر صدر محمود احمدی نژاد موجود نہ ہوتے، تو اسرائیلی حکومت کو انہیں ایجاد کرنا پڑتا۔ ان میں دشمن کے لیے وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جن کی کوئی تمنا کر سکتا ہے۔ وہ بہت زیادہ بولتے ہیں، بڑھکیں مارتے ہیں، جان بوجھ کر تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔ وہ ہولوکاسٹ کے منکر ہیں۔ وہ یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ اسرائیل ’’نقشے سے مٹ جائے گا‘‘ (حالانکہ جیسا کہ غلط رپورٹ کیا گیا، انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ اسرائیل کو خود مٹا دیں گے)۔ اس ہفتے، پرو اسرائیل لابی نے ان کے نیویارک کے دورے کے خلاف بڑے مظاہرے منظم کیے۔ یہ مظاہرے دراصل احمدی نژاد کے لیے بہت بڑی کامیابی ثابت ہوئے۔ ان کا خواب پورا ہو گیا کہ وہ عالمی توجہ کا مرکز بنیں۔ انہیں یہ موقع ملا کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنے دلائل کچھ ناقابل ِ قبول، کچھ معقول؛ دنیا بھر کے سامعین کے سامنے پیش کریں۔ لیکن احمدی نژاد، ایران نہیں ہیں۔ بے شک، وہ عوامی انتخابات جیت چکے ہیں، لیکن ایران کی ساخت کچھ ایسی ہے جیسے اسرائیل کی مذہبی جماعتیں: وہاں سیاست دانوں کے بجائے علما (آیات) کی بات چلتی ہے۔ شیعہ مذہبی قیادت ہی فیصلے کرتی ہے اور فوج کی کمان بھی انہی کے ہاتھ میں ہے، اور یہ قیادت نہ تو لفاظی کرتی ہے، نہ بڑھکیں مارتی ہے، نہ ہی تنازعات میں الجھتی ہے۔ بلکہ وہ بہت محتاط انداز میں فیصلے کرتی ہے۔
اگر ایران واقعی ایٹم بم حاصل کرنے کے لیے اس قدر بے تاب ہوتا، تو وہ مکمل خاموشی اور رازداری سے کام لیتا اور خود کو منظر عام سے چھپا کر رکھتا (جیسے اسرائیل نے کیا تھا)۔ احمدی نژاد کی لاف زنی ایران کی ایٹمی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے، اس سے زیادہ جتنا ایران کا کوئی دشمن نہیں پہنچا سکتا۔ یہ خیال کافی ناپسندیدہ ہے کہ ایران (یا کسی بھی ملک) کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں۔ میری خواہش ہے کہ اسے روکا جا سکے یا ترغیب دے کر یا پابندیاں لگا کر۔ لیکن اگر یہ کوشش ناکام بھی ہو جائے، تو یہ نہ دنیا کا خاتمہ ہو گا، نہ اسرائیل کا۔ اس معاملے میں، اسرائیل کی دفاعی قوت بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ احمدی نژاد بھی ایسا رسک نہیں لے سکتے کہ ایران کی تباہی کے بدلے اسرائیل کی تباہی کو برداشت کریں یعنی ’’رانیوں کا تبادلہ‘‘۔
نپولین نے کہا تھا کہ اگر کسی ملک کی پالیسی سمجھنی ہو، تو اس کا نقشہ دیکھو۔ اگر ہم ایسا کریں تو دیکھیں گے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کی کوئی معروضی وجہ نہیں ہے۔ بلکہ، طویل عرصے تک یروشلم میں یہ سمجھا جاتا رہا کہ یہ دونوں ممالک قدرتی اتحادی ہیں۔
ڈیوڈ بن گوریان نے ’’سرحدی اتحاد‘‘ (Alliance of the Periphery) کا نظریہ پیش کیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ پوری عرب دنیا اسرائیل کی فطری دشمن ہے، لہٰذا اسرائیل کو اپنی سرحدوں سے باہر کے غیر عرب مسلم ممالک جیسے ترکی، ایران، ایتھوپیا، چاڈ وغیرہ سے اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ (انہوں نے عرب دنیا کے اندر بھی ان قوموں سے تعلقات قائم کیے جو سنّی عرب نہیں تھیں، جیسے مارونی، قبطی، کرد، شیعہ وغیرہ۔) شاہِ ایران کے دور میں ایران اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات تھے کچھ مثبت، کچھ منفی، اور کچھ سراسر خفیہ۔ شاہ نے ایلات سے اشکلون تک پائپ لائن تعمیر کروائی تاکہ ایرانی تیل کو سویز نہر سے بچا کر بحیرہ روم تک پہنچایا جا سکے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی (شاباک) نے ایران کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی (ساواک) کو تربیت دی۔ اسرائیلی اور ایرانی ایجنٹس نے عراق کے کردستان میں مل کر کام کیا تاکہ کردوں کو سنّی عرب حکمرانوں کے ظلم سے بچایا جا سکے۔ خمینی انقلاب نے ابتدا میں اس اتحاد کا خاتمہ نہیں کیا اسے صرف زیر ِ زمین کر دیا۔ ایران عراق جنگ کے دوران اسرائیل نے ایران کو اسلحہ فراہم کیا، اس بنیاد پر کہ ’’جو عربوں سے لڑتا ہے، وہ ہمارا دوست ہے‘‘۔ اسی وقت، امریکا نے صدام حسین کو اسلحہ فراہم کیا، جو واشنگٹن اور یروشلم کی پالیسیوں میں ایک نادر اختلاف تھا۔ بعد میں ’’ایران- کانٹرا اسکینڈل‘‘ کے ذریعے اس خلا کو پْر کیا گیا، جب امریکیوں نے اسرائیل کو آیت اللہ کو اسلحہ بیچنے میں مدد دی۔
آج دونوں ممالک کے درمیان ایک نظریاتی جنگ جاری ہے، لیکن یہ زیادہ تر بیان بازی اور عوامی اشتعال انگیزی کی سطح پر لڑی جا رہی ہے۔ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ احمدی نژاد کو اسرائیل فلسطین تنازعے کی واقعی پروا نہیں۔ وہ اسے صرف عرب دنیا میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر میں فلسطینی ہوتا تو میں ان پر انحصار نہ کرتا۔ جلد یا بدیر، جغرافیہ اپنا کردار ادا کرے گا، اور اسرائیل ایران تعلقات دوبارہ اسی نہج پر لوٹیں گے۔ امید ہے کہ زیادہ مثبت انداز میں۔ ایک بات میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں: جو کوئی بھی ایران کے خلاف جنگ کو ہوا دے رہا ہے، وہ ایک دن اس پر پچھتائے گا۔ کچھ مہم جوئیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں داخل ہونا آسان، لیکن نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آخری شخص جس نے یہ سبق سیکھا وہ صدام حسین تھا۔ اسے لگا کہ یہ ایک آسان جنگ ہو گی؛ آخرکار خمینی نے شاہ کی فوج کے زیادہ تر افسران اور خاص طور پر پائلٹس کو مار دیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ عراق کا ایک تیز حملہ ایران کو گرا دے گا۔ اسے آٹھ طویل سال کی جنگ میں اس پر پچھتانا پڑا۔ ممکن ہے کہ ہم اور امریکی جلد ہی یہ محسوس کریں کہ عراق کی دلدل، ایران کے دلدل کے مقابلے میں مکھن جیسی تھی۔

متعلقہ مضامین

  • تو ایران کا کیا ہوگا؟
  • کشمیر کا مسئلہ دوطرفہ نہیں رہا، ٹرمپ کا ظہرانہ اہم سنگ میل: خواجہ آصف
  • ملتان، اتحاد اُمت فورم کے زیراہتمام مردہ باد امریکہ و اسرائیل ریلی جمعہ کو ہوگی 
  • مسئلہ کشمیر پر  بھارت نے کبھی ثالثی قبول نہیں کی، نہ آئندہ کرے گا، مودی کا ٹرمپ کو جواب
  • بھارت مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی قبول نہیں کرے گا
  • بھارت مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی قبول نہیں کرے گا، مودی کا ٹرمپ کو پیغام 
  • خوف کا بت ٹوٹ چکا
  • امریکی صدر کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہیے، صدر آزاد کشمیر
  • امکانی طویل جنگ اور مسئلہ فلسطین کا حل
  • سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی 69ویں سالگرہ22جون کو منائی جائیگی