2 ہزار کلومیٹر تک مار کرنیوالے بیلسٹک میزائل کا کامیاب تجربہ،امریکی اڈے ہمارے نشانے پر،حملہ ہوا تو بھرپور جواب دینگے: ایران
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
تہران (اوصاف نیوز)ایران نے 2 ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل ’خیبر‘ کا کامیاب تجربہ کرلیا۔ رپورٹ کے مطابق ایران کا بیلسٹک میزائل پروگرام مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا ہے، جس کا کہنا ہے کہ اس کے ہتھیار دیرینہ دشمن اسرائیل اور خطے میں موجود امریکی اڈوں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
امریکا اور یورپی ممالک کی مخالفت کے باوجود ایران کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ’دفاعی‘ میزائل پروگرام کو مزید توسیع دے گا۔ایرانی وزیر دفاع محمد رضا اشتیانی نے کہا کہ ایران کے دشمنوں کے لیے ہمارا پیغام ہے کہ ہم ملک اور اس کی کامیابیوں کا دفاع کریں گے، جبکہ ہمارے دوستوں کے لیے ہمارا پیغام ہے کہ ہم علاقائی استحکام میں مدد کرنا چاہتے ہیں۔
ایران کے سرکاری ٹی وی نے بیلسٹک میزائل کے تجربے کی چند سیکنڈز کی ویڈیو نشر کی جس کے بارے اس کا کہنا تھا کہ یہ ایران کے ’خرمشہر 4‘ بیلسٹک میزائل کا اپ گریڈ ورژن ہے جس کی رینج 2 ہزار کلومیٹر ہے اور یہ ایک ہزار 500 کلوگرام وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
سرکاری ٹی وی کا مزید کہنا تھا کہ مقامی طور پر تیار کردہ خیبر میزائل کی جدید ترین خصوصیات میں فوری تیاری اور لانچ کا ٹائم شامل ہے جو اسے اسٹریٹجک کے علاوہ ایک حکمت عملی کا ہتھیار بناتا ہے۔
چند روز قبل ایک اعلیٰ اسرائیلی جنرل نے ایران کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی کی تجویز پیش کی تھی کیونکہ ایران کی جوہری پیش رفت میں تیزی سے متعلق مغربی خدشات کے درمیان تہران کے 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے چھ عالمی طاقتوں کی کوششیں گزشتہ ستمبر سے تعطل کا شکار ہیں۔
فرانس نے ایران پر بیلسٹک میزائل تجربے کے بعد جوہری معاہدے کی توثیق کرنے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا، جس کے بارے میں پیرس نے کہا کہ تہران کے جوہری پروگرام کے ’بلا رکاوٹ اضافے‘ کے پیش نظر یہ تشویشناک ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے حوثیوں کے حملوں کے جواب میں حوثیوں کے سرپرست ایران پر حملے کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ تہران نے اب اس دھمکی کا جواب دیا ہے۔
ایرانی وزیر دفاع عزیز نصیر زادہ نے اتوار کے روز سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ اگر ہم پر جنگ مسلط کی گئی یا ہم پر حملہ کیا گیا تو ہم بھرپور اور دو ٹوک جواب دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی اڈے ہمارے نشانے ہیں جہاں کہیں بھی ہوں اور جس وقت ہم اسے ضروری سمجھیں گے اگر امریکہ یا اسرائیل کی طرف سے کوئی جارحیت کی گئی تو ہم ان اڈوں کو بھی نشانہ بنائیں گے۔
یہ بیان نیتن یاہو کے اس سے قبل اتوار کے روز “ایکس” پر اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے کہ اسرائیل حوثیوں کے حملوں کا جواب ان کے “سرپرست ایران” پر حملہ کر کے دے گا۔
نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ ہم حوثیوں کے حملوں کا جواب اس وقت اور اس جگہ دیں گے جو ہم منتخب کریں گے۔ انہوں نے اپنی پوسٹ کے ساتھ امریکی صدر کی سابق پوسٹ کی ایک تصویر بھی منسلک کی جس میں کہا گیا تھا کہ حوثی گروپ کے حملوں کے پیچھے تہران کا ہاتھ ہے۔
نیتن یاہو نے لکھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بالکل درست کہہ رہے ہیں، حوثیوں کے حملوں کا منبع ایران ہے۔اسرائیلی فوج کے سابق چیف آف سٹاف اور نیشنل یونٹی پارٹی کے رہنما بینی گینٹز نے بھی اس سے قبل اسرائیلی حکام پر زور دیا تھا کہ وہ حوثی میزائل حملے کے جواب میں براہ راست ایران پر حملہ کر دیں۔
حوثی گروپ نے اس سے قبل اتوار کے روز بیلسٹک میزائل سے بن گوریون بین الاقوامی ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا جس کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہوگئے اور فضائی ٹریفک میں خلل پڑ گیا تھا۔ ایئر لائنز کو اپنی پروازیں معطل کرنا پڑ گئی تھیں۔ اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا تھا کہ روکنے کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن سے داغا گیا میزائل بن گوریون ایئرپورٹ کے قریب آ گرا تھا۔
ایل او سی پر بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ، پاک فوج کا منہ توڑ جواب
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حوثیوں کے حملوں بیلسٹک میزائل نیتن یاہو ایران کے پر حملہ کہا کہ تھا کہ
پڑھیں:
’غزہ جنگ بند کروائیں‘، اسرائیل کے 600 سے زائد سابق سیکیورٹی عہدیداروں کا امریکی صدر ٹرمپ کو خط
اسرائیل کے 600 سے زائد سابق سینیئر سکیورٹی عہدیداروں نے امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک خط لکھ کر غزہ میں جاری جنگ کو فوری طور پر ختم کروانے کے لیے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق خط پر دستخط کرنے والوں میں موساد کے سابق سربراہ، شاباک (شین بیت) کے سابق ڈائریکٹر، اور اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) کے سابق نائب سربراہ سمیت دیگر اعلیٰ سطحی حکام شامل ہیں۔ ان تمام شخصیات کا تعلق ’کمانڈرز فار اسرائیلی سکیورٹی‘ (CIS) نامی تنظیم سے ہے، جو سابق سکیورٹی افسران پر مشتمل ایک مؤثر گروپ سمجھا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے سڈنی آسٹریلیا: فلسطین کے حق میں تاریخی مارچ، ہزاروں افراد کی شرکت
خط میں ٹرمپ سے اپیل کی گئی ہے:
’آپ نے ماضی میں لبنان کے معاملے میں مداخلت کر کے کردار ادا کیا تھا، اب وقت آ گیا ہے کہ غزہ میں بھی ویسا ہی کردار ادا کریں۔‘
سابق اسرائیلی عہدیداروں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پیشہ ورانہ تجزیے کے مطابق ’حماس اب اسرائیل کے لیے کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں رہی‘ اور اب مزید جنگ جاری رکھنا نہ صرف غیر ضروری بلکہ اسرائیل کی عالمی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہے۔
خط میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ اسرائیل کی بین الاقوامی قانونی حیثیت شدید بحران کا شکار ہو چکی ہے، خاص طور پر جب خود ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل پر غزہ میں قحط پیدا کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
’غزہ میں امدادی مراکز اسکوئیڈ گیم جیسے بن چکے ہیں‘دریں اثنا، برطانیہ کی ایک معروف یونیورسٹی سے وابستہ اسرائیلی پروفیسر نے بھی اسرائیلی فوج کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں قائم اسرائیلی امدادی مراکز درحقیقت ‘اسکوئیڈ گیم یا ہنگر گیم’ کی طرز پر کام کر رہے ہیں، جہاں بھوکے شہری خوراک کی تلاش میں نکلتے ہیں اور گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے تل ابیب میں ہزاروں افراد کا احتجاج، یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوری جنگ بندی کا مطالبہ
پروفیسر کا کہنا تھا:
’غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن کا انسانی ہمدردی سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ ایک ایسی تنظیم ہے جو قحط سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ہمارے رہنما صرف زبانی دعوے کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔‘
غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر گیاادھر غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری جاری ہے۔ اتوار کو مزید 92 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 56 افراد امداد کے منتظر تھے۔ عرب میڈیا کے مطابق خوراک کی شدید قلت کے باعث قحط کی صورتحال مزید سنگین ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے حماس کے قیدی کی دہائی، ’ہم بھوکے ہیں، اپنی قبر خود کھود رہا ہوں‘
غذائی قلت سے ہلاکتوں کی تعداد 175 ہو گئی ہے جن میں 93 بچے شامل ہیں۔ طبی اور امدادی تنظیموں نے غزہ میں فوری انسانی امداد کی اپیل کی ہے، مگر اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث خوراک، دوا اور پینے کے پانی کی فراہمی انتہائی محدود ہو چکی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ٹرمپ سابق اسرائیلی سیکیورٹی عہدےداران شن بیت غزہ جنگ موساد