خاک سے اٹھتے خواب: ایران و پاکستان کا اتحاد
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
یادرکھو:جب غرورکے تخت پر تدبرقربان ہوتا ہے،تواقتدارکے ستون ریت کی دیواربن جاتے ہیں۔جب احتیاط کی تلوارکندہو جائے، تو دشمن کی ضرورت نہیں رہتی، تب اندرسے بوسیدگی موت کی دستک دیتی ہے۔آج دنیادیکھ رہی ہے،آج عمان کےدریائوں کےکنارےمذاکرات ہورہے ہیں، مگرشہیدرجائی کے ملبےسےاٹھتی راکھ ان مذاکرات پرمشکوک سایہ ڈال رہی ہے۔اےاہلِ ایران اب بھی وقت ہے،آج کےدکھ کوکل کی دانش میں بدل لو۔آج کی راکھ سےایک نئی بصیرت کی شمع جلالوکہ وقت کاسمندرمنتظرنہیں ہوتا،اورقومیں جولمحے گنوادیتی ہیں، صدیوں کے اندھیروں میں گم ہوجاتی ہیں۔ میں صدقِ دل سےتمہیں بلاتاہوں کہ اٹھو: خودکوتعمیرکروتاکہ دنیاگواہی دے کہ ایران پھر اٹھاہے،عقل کے،تدبرکے،حکمت کے پروں پر سوار ہوکر۔ اے فرزندانِ خاکِ ایران!اے وہ لوگو، جو کہن سال تہذیبوں کے وارث ہو،جن کے خون میں تختِ جمشیدکی عظمت ہے،جن کے خوابوں میں قادسیہ کی تپش ہے،اورجن کی سانسوں میں بحرِعمان کی ہواکا غروربساہے۔آج میں تم سےاس لمحےمخاطب ہوں جب شہید رجائی کی بندرگاہ پر امیدوں کے چراغ بجھ چکے ہیں،جب خاکسترہوچکی تجارت کی وہ عظیم روایت جوصدیوں سےتمہاری معیشت کی روح تھی،جب دھماکوں کی گونج نے تمہیں تمہارے غرور،تمہاری غفلت،تمہاری نادانی کانوحہ سنایاہے۔ تم نےدیکھاکہ کیساہلاکت خیز کھیل کھیلا گیا،جہاں راکٹوں کاایندھن تھا،جہاں سوڈیم پرکلوریٹ کی مہلک سانسیں تھیں،وہاں احتیاط کےحصارنہ تھے،عقل کے قلعے منہدم تھے،دانش کی باریک دیواریں ریزہ ریزہ ہوگئیں۔آج جب ہم سب ملبےپرکھڑے ہیں تویہ ملبہ محض دھاتوں اور پتھروں کانہیں،یہ ہماری دانش کاملبہ ہے،ہماری تدبیرکاجنازہ ہے، ہماری قیادت کی بصیرت کاماتم ہے۔
اےملتِ ایران!یادرکھو!تاریخ بڑی بےرحم ہے،وہ ان قوموں کوبھول جاتی ہےجواپنی غلطیوں سےسبق نہ سیکھیں،اوروہ انہیں امرکردیتی ہےجوماضی کی راکھ سےمستقبل کا قصرتعمیر کریں۔ ہمیں یہ مان لیناچاہیے کہ ہم طاقت کےجنون میں ہوش کھو بیٹھے،ہم نے ترقی کے سفرمیں احتیاط کاچراغ گرادیا،ہم نےطاقت کوعقل سے آزادکر دیا،اوریہی وہ لمحہ تھاجب زوال نے ہمارادروازہ کھٹکھٹایا۔
آج میں تمہیں دعوت دیتاہوں آئو،شہید رجائی کی ویران سرزمین پرایک نیاعہداٹھاؤ۔ ایساعہدجوعقل کاہو،تدبرکاہو،اصول کاہو،ہمیں راکٹوں سے زیادہ دانش کے میزائل چاہیے، ہمیں ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ علم کااسلحہ چاہیے،ہمیں بندرگاہوں میں ایندھن سے زیادہ تدبرکے گودام چاہیے۔
آج وقت نے ہمیں ایک بارپھرایک فیصلہ کن موڑپرلاکھڑاکیاہے۔اس نازک اورحساس دور میں جب ہماری سرزمینوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں،اب وقت آچکاہے کہ ایران اور پاکستان، دوبرادراسلامی ممالک،اپنے تاریخی، ثقافتی اورمذہبی رشتوں کوایک مضبوط اورمتحرک اتحاد میں ڈھالیں۔جب دریاسوکھنے لگیں،جب بچوں کی پیاس بجھانے والے چشمے دشمنی کی آگ میں جھلس جائیں،اورجب آسمان پربارودکے بادل چھاجائیں تب انسان اپنے بھائی کوپکارنے لگتاہے۔
پاکستان اس وقت آبی جارحیت کا سامنا کر رہا ہے،جہاں بھارتی حکومت،مودی کی قیادت میں، سندھ طاس معاہدے کوختم کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔یہ عمل صرف پاکستان کی سلامتی ہی نہیں،بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔دوسری جانب اسرائیل،جوبھارت کاقریبی حلیف ہے،اسی جارحانہ سوچ کوعالمی سطح پرپھیلا رہا ہے ،نہ صرف غزہ میں بیگناہوں کاخون بہارہاہے بلکہ اب انڈیاکے ہزاروں افرادکوجنگ کاحصہ بناکراس ظلم میں شریک ہوچکاہے۔پاکستان پرمودی کی آبی جارحیت ایک خاموش جنگ ہے ،پانی کو ہتھیار بناکر ہماری دھرتی کی سانسیں روکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔یہ وہی مودی ہے جس کے اشارے پر ہزاروں بھارتی جنگجوغزہ میں معصوموں کاخون بہا رہے ہیں اوراسی مودی کے پیچھے اسرائیل کھڑاہے وہی اسرائیل جوبرسوں سے ایران کی سرحدوں پر زہر بو رہا ہے،جوتہران کو تنہاکرنے کے خواب دیکھ رہاہے۔ایران بھی ایک عرصے سے صہیونی جارحیت کے خلاف مدافعت کی علامت بنا ہوا ہے۔ہمیں یادرکھناچاہیے کہ ہمارادشمن ایک ہے وہ جو ہمارے درمیان تفرقہ پیدا کرناچاہتا ہے، جوہمارے وسائل پرقبضہ اور ہماری خودمختاری کو چیلنج کرتاہے۔یہ وقت ہے کہ ہم ایک صف میں کھڑے ہوں،اپنی مشترکہ اقدار،سلامتی اور مستقبل کیلئے ایک آوازبنیں۔ایران اورپاکستان کا اتحاد نہ صرف دشمنوں کے عزائم کوناکام بنائے گا، بلکہ پوری امتِ مسلمہ کیلئے امیداوراستقامت کی علامت بنے گا۔ مگر کیا دشمن ہمیں بھول گیا؟کیاوہ بھول گیاکہ کربلاسے ہمیں صبر،غیرت اور مزاحمت ورثے میں ملی ہے؟کیاوہ بھول گیاکہ اسلام آباداورتہران،لاہوراورشیرازکارشتہ فقط زبان کا نہیں ،دلوں کاہے؟جب فلسطین جلتاہے تو ایران اورپاکستان کے دل سے آہیں نکلتی ہیں، اورجب کشمیرسسکتاہے توپاکستان کے بچے بھی نعرہ حریت بلندکرتے ہیں۔
خاکسترسے قصر اٹھائیں گے
زخموں سے چراغ جلائیں گے
اے ایران!اے سرزمینِ حسین۔۔۔۔اے پاکستان!اے ارضِ شہدا!
اٹھو:غفلت کی زنجیریں توڑدو،خوف کی دیواریں گرادو،فرسودہ سوچوں کی بیڑیاں کاٹ دو، وقت کے سمندرپرایک نیاسفینہ تراشو،ایساسفینہ جواصولوں کی بادبانی سے چلے، ایساسفینہ جسے حکمت کی ہوادھکے دے۔آج شہیدرجائی ہم سے مطالبہ کر رہاہے کہ ہم صرف مرثیہ نہ کہیں،صرف ماتم نہ کریں،بلکہ نئی زندگی کی قندیل جلائیں، اور دنیا کو دکھائیں کہ ایران، ہزارزخم کھاکربھی،اپنے زخموں سے چراغ بناناجانتاہے۔
خداکی قسم!اگرہم نے آج کے اس المیے کو بصیرت میں ڈھال لیا،توکل شہید رجائی کی راکھ سے ایک نیاایران جنم لے گا، ایساایران جس کے دریا،پہاڑاورریگزارگواہی دیں گے کہ ایرانی قوم اپنے خوابوں کی قیمت جانتی ہے،اورانہیں تعمیرکرنے کاہنربھی۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنے اختلافات بھول کر،اپنی دشمنیوں کودفن کرکے،ایک نئی صبح کی بنیادرکھیں۔ایک ایسی صبح جہاں ایران اورپاکستان،ظلم کے خلاف ایک دیوار ہوں۔ جہاں ہماری یکجہتی دشمن کے ایوانوں کو ہلا دے۔ جہاں مائیں اپنے بیٹوں کوشیربننے کا درس ایران وپاکستان کے اتحادکی کہانی سناکر دیں۔آئیں،ہاتھ میں ہاتھ ڈال کردشمن کو بتا دیں،ہم نہ پانی چھیننے دیں گے،نہ ایمان۔نہ غزہ تنہا ہے، نہ کشمیر۔ہم ایک ہیں،اور ایک رہیں گے،ایک جسم،ایک آواز،ایک عزم۔ آئیے،مل کرظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، اور دنیا کو بتا دیں کہ برادرقومیں جب ایک ہوجائیں توکوئی طاقت انہیں جھکانہیں سکتی۔وقت آگیاہے کہ ہم یکجا ہوں۔ایران وپاکستان خون سے سینچا ہوا رشتہ،جو اب فولادبننے جارہاہے۔دوستی نہیں، برادری ہے اوربرادری کبھی جھکتی نہیں، خداہمیں بصیرت دے،استقامت دے،اور کامیابی دے۔
راکھ کے نیچے خوابوں کی کرنیں ہیں،
ویران فضائوں میں امیدوں کی گھنگھنیاں ہیں۔
جہاں آگ بھڑکی،وہیں روشنی پھوٹے گی،
جہاں زخم ابھرا،وہیں قوت جھلکے گی۔
ہم وہ قوم ہیں جوخاک سے دستاربناتی ہے،
اندھیروں سے صبحوں کی نویدلاتی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایران اور کہ ایران ہے کہ ہم رہی ہے
پڑھیں:
زمین کا انتباہ ؛ 2025ء میں بدلتا ہوا موسم اور ہماری ذمے داریاں
زمین کی کوکھ سے اُٹھنے والی کراہیں، برفانی چوٹیاں جو تیزی سے پگھل رہی ہیں، جنگلات کی آگ جو انسان کے گناہوں کا دھواں آسمان تک پہنچا رہی ہے، اور سمندر جو اپنی حدیں پار کر رہے ہیں یہ سب اس بات کے گواہ ہیں کہ کلائمٹ چینج اب کوئی مستقبل کا اندیشہ نہیں بلکہ موجودہ عہد کا سنگین بحران بن چکا ہے۔
2025 میں دنیا ایک نئے اور خطرناک دور میں داخل ہوچکی ہے، جہاں ماحولیاتی تبدیلیوں نے صرف تحقیقاتی مقالوں یا ماحولیاتی کانفرنسوں کا موضوع بننے کے بجائے انسانی بقا کے بنیادی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اس سال کے پہلے چھے ماہ میں دنیا بھر میں درجہ حرارت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر اوسط درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوچکا ہے، جو اقوام متحدہ کی بین الحکومتی رپورٹ برائے ماحولیاتی تبدیلی (IPCC) کے خطرناک حد سمجھے جانے والے ہدف کو چھو رہا ہے۔
یورپ، امریکا، بھارت، چین، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی خطے اس سال 50 سے 52 ڈگری سینٹی گریڈ تک کی شدید گرمی کی لپیٹ میں آئے۔ صرف بھارت میں مئی 2025 کے دوران ہیٹ ویو کے باعث 1,200 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ کینیڈا اور یونان کے جنگلات میں لگنے والی آگ نے ہزاروں ایکڑ زمین کو راکھ میں بدل دیا، جب کہ امریکا کی کیلیفورنیا ریاست میں 2025 کی گرمی کے موسم کو تاریخ کا سب سے خشک اور گرم قرار دیا گیا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سب سے بڑا بوجھ ترقی پذیر ممالک اٹھا رہے ہیں، جو عالمی آلودگی میں کم حصہ رکھنے کے باوجود شدید متاثر ہورہے ہیں۔ پاکستان کی مثال اس کی زندہ دلیل ہے۔ ہم دنیا کی کل گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں صرف 0.8 فی صد کے شریک ہیں، مگر ماحولیاتی آفات سے متاثرہ اولین دس ممالک میں شامل ہیں۔ جرمن واچ (Germanwatch) کی گلوبل کلائمٹ رسک انڈیکس رپورٹ کے مطابق پاکستان گزشتہ دہائی میں 150 سے زائد ماحولیاتی سانحات کا سامنا کر چکا ہے۔
سال 2025 کے ابتدائی مہینوں میں پاکستان کے جنوبی علاقے، خصوصاً سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان، شدید گرمی اور خشک سالی کا شکار رہے۔ دریائے سندھ اور چناب کی سطح آب میں خطرناک حد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔ تربیلا اور منگلا جیسے بڑے ڈیموں میں پانی کی سطح نازک حد تک نیچے جاچکی ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف زرعی پیداوار متاثر ہوئی ہے بلکہ شہروں کو بھی پانی اور بجلی کے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
زرعی شعبہ، جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، موسمیاتی تبدیلی سے بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ کپاس، گندم، چاول اور گنے جیسی بنیادی فصلیں یا تو وقت سے پہلے تیار ہو رہی ہیں یا پھپھوندی، گرمی اور پانی کی قلت کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو آئندہ پانچ سالوں میں پاکستان کو غذائی قلت کا سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
ماحولیاتی بحران صرف درجہ حرارت یا پانی کی کمی تک محدود نہیں، بلکہ صحت عامہ پر بھی اس کے تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں۔ ہیٹ اسٹروک، ملیریا، ڈینگی اور سانس کی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، خصوصاً شہری علاقوں میں جہاں درختوں کی کمی، ٹریفک کا شور، فضائی آلودگی اور آبادی کا دباؤ ان مسائل کو مزید گھمبیر بناتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے مطابق دنیا میں ہر سال 70 لاکھ افراد صرف آلودہ ہوا کے باعث ہلاک ہوتے ہیں، جن میں بڑی تعداد جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتی ہے۔
حکومتی سطح پر کچھ مثبت اقدامات ضرور کیے گئے ہیں۔ ’’ٹین بلین ٹری سونامی منصوبہ‘‘، کلین اینڈ گرین پاکستان مہم، اور الیکٹرک وہیکلز پالیسی جیسے پروگرامز ماحول دوست وژن کی عکاسی کرتے ہیں۔ حال ہی میں لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں الیکٹرک بسیں متعارف کرائی گئی ہیں، جو گرین ٹرانسپورٹ کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ وفاقی حکومت نے ’’کلائمیٹ ایکشن بل 2025 ‘‘ پر بحث کا آغاز بھی کیا ہے، جس میں کاربن ایمیشن کی حد بندی، صنعتی آلودگی پر سخت ضوابط، اور گرین انرجی کے فروغ جیسے نکات شامل ہیں۔
تاہم ان منصوبوں پر عمل درآمد میں سنجیدگی، رفتار اور شفافیت کا فقدان ہے۔ بہت سے منصوبے صرف کاغذوں تک محدود ہیں یا ان پر عمل اتنا سست ہے کہ نتائج حاصل ہونے میں دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ ماحولیاتی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مؤثر کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پلاسٹک کا بے تحاشا استعمال، صنعتی فضلہ، اور شہری فضائی آلودگی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کئی بڑے شہر، خصوصاً لاہور، سال کے بیشتر حصے میں دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔
عوامی شعور کی کمی اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ عام شہری نہ تو ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں، اور نہ ہی اپنی روزمرہ زندگی میں ماحول دوست عادات اپنانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں موسمیاتی تعلیم کو ابھی تک سنجیدگی سے شامل نہیں کیا گیا، اور میڈیا پر بھی اس حوالے سے مسلسل آگاہی کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔
مگر تمام تر مایوسی کے باوجود، امید کے کچھ دیے اب بھی روشن ہیں۔ پاکستان میں نوجوانوں کے درمیان ماحولیاتی شعور بیدار ہو رہا ہے۔ مختلف اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں ’’گرین کلب‘‘ قائم کیے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ماحول دوست مہمات چلائی جا رہی ہیں، اور نجی ادارے کاربن فٹ پرنٹ کم کرنے کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں۔ قابل تجدید توانائی، جیسے سولر پینلز اور ونڈ ٹربائنز، کی تنصیب میں اضافہ ہورہا ہے، اور ماحول دوست طرزِزندگی کو فروغ دینے کے رجحان میں آہستہ آہستہ اضافہ ہو رہا ہے۔
مگر یہ سب کچھ اُس وقت تک ادھورا ہے جب تک ہم بحیثیت قوم اس مسئلے کو اپنی اجتماعی ذمے داری تسلیم نہ کریں۔ جب تک شہری بجلی، پانی، پلاسٹک اور قدرتی وسائل کے استعمال میں احتیاط نہیں کریں گے، جب تک تعلیمی ادارے ماحول دوست نسل تیار نہیں کریں گے اور جب تک حکمران طبقہ محض اعلانات کی بجائے عمل کو ترجیح نہیں دے گا، اُس وقت تک کلائمٹ چینج صرف رپورٹوں کا موضوع رہے گا، حل کا نہیں۔
اس لیے اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ماحولیاتی تبدیلی کو صرف ’’چیلینج‘‘ نہ سمجھیں بلکہ اسے اپنی قومی، اخلاقی اور انسانی ذمے داری مانتے ہوئے فوری، دیرپا اور جامع اقدامات کریں۔ ورنہ یہ زمین، جو کبھی ہمارے خوابوں کی جنت تھی، کل ہماری غفلت کی دوزخ بن جائے گی۔