سعودی عرب کی مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی وزیر کی دراندازی کی شدید مذمت
سعودی عرب کی مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی وزیر کی دراندازی کی شدید مذمت
سعودی عرب کی اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت: نہتے فلسطینیوں پر حملے ناقابل قبول ہیںسعودی عرب کی اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت: نہتے فلسطینیوں پر حملے ناقابل قبول ہیں
عازمین حج کے لیے بہترین انتظامات، سعودی عرب جا کر سہولیات کا جائزہ لیا، وفاقی وزیر مذہبی امورعازمین حج کے لیے بہترین انتظامات، سعودی عرب جا کر سہولیات کا جائزہ لیا، وفاقی وزیر مذہبی امور
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دورہ سعودی عرب کیا معاہدے طے پائے؟بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دورہ سعودی عرب کیا معاہدے طے پائے؟
امریکی صدر ٹرمپ اگلے ماہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کریں گےامریکی صدر ٹرمپ اگلے ماہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کریں گے
سعودی عرب کے ترقیاتی منصوبوں میں پاکستانیوں کا کردار، ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں، پاکستانی سفیر احمد فاروقسعودی عرب کے ترقیاتی منصوبوں میں پاکستانیوں کا کردار، ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں، پاکستانی سفیر احمد فاروق
عمرہ ویزے پر سعودی عرب میں داخلے کا آخری دنعمرہ ویزے پر سعودی عرب میں داخلے کا آخری دن
امریکا اور سعودی عرب میں سول نیوکلیئر انرجی پر تاریخی معاہدے کی تیاریامریکا اور سعودی عرب میں سول نیوکلیئر انرجی پر تاریخی معاہدے کی تیاری
سعودی عرب کا حج ویزا کے بغیر مکہ شہر میں داخلے پر پابندی کا فیصلہسعودی عرب کا حج ویزا کے بغیر مکہ شہر میں داخلے پر پابندی کا فیصلہ
سعودی عرب غزہ سے فلسطینیوں کی بیدخلی کیخلاف ڈٹ گیاسعودی عرب غزہ سے فلسطینیوں کی بیدخلی کیخلاف ڈٹ گیا
حج 2025: سعودی عرب نے پاکستان کا کوٹہ بڑھا دیا، اب کتنے افراد حج کے لیے جاسکیں گے؟حج 2025: سعودی عرب نے پاکستان کا کوٹہ بڑھا دیا، اب کتنے افراد حج کے لیے جاسکیں گے؟
آرامکو نے سعودی عرب میں تیل اور گیس کے 14 نئے ذخائر دریافت کرلیےآرامکو نے سعودی عرب میں تیل اور گیس کے 14 نئے ذخائر دریافت کرلیے
وژن 2030: سعودی عرب نے 2024 کی سالانہ رپورٹ جاری کردی، ریکارڈ کامیابیاںوژن 2030: سعودی عرب نے 2024 کی سالانہ رپورٹ جاری کردی، ریکارڈ کامیابیاں
پہلگام حملہ: وزیراعظم مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کرکے نئی دہلی پہنچ گئےپہلگام حملہ: وزیراعظم مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کرکے نئی دہلی پہنچ گئے
سعودی عرب میں فرینڈز آف ریاض کے زیر اہتمام ’کنیکٹڈ پاکستان‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقادسعودی عرب میں فرینڈز آف ریاض کے زیر اہتمام ’کنیکٹڈ پاکستان‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد
پاکستان نے بھارت کے بے بنیاد الزامات پر سعودی عرب کو اعتماد میں لے لیاپاکستان نے بھارت کے بے بنیاد الزامات پر سعودی عرب کو اعتماد میں لے لیا
سعودی عرب کا غیر قانونی طور حجاج، سہولت کاروں کے لیے سزاؤں کا اعلانسعودی عرب کا غیر قانونی طور حجاج، سہولت کاروں کے لیے سزاؤں کا اعلان
سعودی عرب اور قطر کا شام کے ذمہ ورلڈ بینک کے قرضے کا تصفیہ کرنے کا اعلانسعودی عرب اور قطر کا شام کے ذمہ ورلڈ بینک کے قرضے کا تصفیہ کرنے کا اعلان
سعودی عرب کی بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش، فریقین کو تحمل اور سفارتی حل کی دعوتسعودی عرب کی بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش، فریقین کو تحمل اور سفارتی حل کی دعوت
اسرائیل کے غزہ پر حملے، سعودی عرب نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں عالمی ضمیر جھنجوڑ کر رکھ دیااسرائیل کے غزہ پر حملے، سعودی عرب نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں عالمی ضمیر جھنجوڑ کر رکھ دیا
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کی شدید مذمت سعودی عرب کی سعودی عرب کا میں داخلے حج کے لیے کا اعلان کا دورہ پر حملے
پڑھیں:
ایران اسرائیل جنگ اور فیلڈ مارشل کا دورہ امریکا
اسلام ٹائمز: اسرائیلی حملے، امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات پر بھی اثرانداز ہوئے کیونکہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ فوجی کارروائی کے پیچھے اسرائیل کا مقصد جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ ایران اسرائیل تنازع، جنوبی ایشیا کے تنازع سے قدرے مختلف ہیں۔ لیکن وسیع پیمانے پر یہ گمان پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی رضامندی یا کم از کم خاموش حمایت کے بغیر اسرائیل کبھی بھی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ تحریر: محمد عامر رانا
ایران پر اسرائیلی حملوں نے علاقائی اور عالمی بحران جنم دیا ہے۔ یہ حملہ پاکستان میں داخلی امن کی صورت حال اور جغرافیائی سیاست میں اس کی پوزیشن پر اثرانداز ہوگا بالخصوص اس تناظر میں کہ جب اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات مضبوط ہورہے ہیں۔ امریکی فوج کے 250 سال مکمل ہونے کی تقریبات میں شرکت کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر کا دورہ امریکا، پاک امریکا تعلقات میں تبدیلی کا عکاس ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جہاں دو جوہری قوت سے لیس ممالک، پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی معاہدے میں ثالثی کے طور پر اپنی کامیابی پر جشن منا رہے ہیں وہیں اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا ہے جبکہ مبینہ طور پر اس نے یہ حملہ اس شک کی بنیاد پر کیا کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کررہا ہے۔
اسرائیلی حملے، امریکا اور ایران کے درمیان مذاکرات پر بھی اثرانداز ہوئے کیونکہ یہ واضح ہوگیا ہے کہ فوجی کارروائی کے پیچھے اسرائیل کا مقصد جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ ایران اسرائیل تنازع، جنوبی ایشیا کے تنازع سے قدرے مختلف ہیں۔ لیکن وسیع پیمانے پر یہ گمان پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی رضامندی یا کم از کم خاموش حمایت کے بغیر اسرائیل کبھی بھی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ جیسا کہ ماہرِ تعلیم ولی نصر نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے، اس حملے نے واشنگٹن کی شمولیت کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں۔
بہت سے مبصرین اب پاکستانی آرمی چیف کے حالیہ دورہ امریکا کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں کیونکہ امریکا کی جانب سے پاکستان کی پذیرائی کی ٹائمنگ سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پردے کے پیچھے کچھ اور بھی ہو رہا ہے۔ قیاس آرائیاں ہیں کہ امریکا، ایران کو تنہا کرنا چاہتا ہے اور اس تناظر میں پاکستان کے ممکنہ کردار پر غور کررہا ہے۔ اگر اسرائیل نے ایران پر امریکی رضامندی سے حملہ کیا ہے تو اس نے صدر ٹرمپ کے ’عالمی امن پسند‘ کے تشخص کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ یہ تشخص انہوں نے حال ہی میں روس-یوکرین اور پاک-بھارت کے مابین کشیدگی کو کم کرنے میں ثالث کا سہرا اپنے سر لے کر بنایا تھا۔
جنرل ضیاالحق کے دور سے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ تاہم جنوری 2024ء میں مختصر تنازع کے بعد ان تعلقات میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں دونوں ریاستوں کے سربراہان اور اعلیٰ عسکری قیادت نے دورے کیے ہیں جوکہ تعلقات میں بہتری کا عکاس ہے۔ پاکستان کے ساتھ مزید تصادم سے بچنے کے علاوہ، ایران نے دفاعی تعلقات کو فروغ دینے کا انتخاب کیا ہے حالانکہ طویل عرصے سے تاخیر کا شکار پاکستان-ایران گیس پائپ لائن پر پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ یہ پیچیدہ معاہدہ ہے اور یہ خدشات تھے کہ ایران، پاکستان کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایران نے اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے ارادے کے تحت اس منصوبے کے ذریعے بڑے اقتصادی اور اسٹریٹجک اہداف پر توجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کیا ہے اور ان کوششوں کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال ایران نے انڈس شیلڈ مشق میں حصہ لیا تھا جوکہ ایک بڑی کثیر الملکی فضائی مشق ہے جس کا اہتمام پاک فضائیہ نے کیا تھا۔ رواں سال ہی ایرانی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری جوکہ 13 جون کی اسرائیلی فضائی اسٹرائیکس میں شہید ہوگئے ہیں، پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ابھی حال ہی کہ بات کریں تو بھارت کے ساتھ 4 روزہ تنازع کے بعد وسطی ایشیا کے اپنے دورے میں وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کا بھی دورہ کیا اور مشکل وقت میں پاکستان کی حمایت کرنے پر اظہار تشکر کیا۔
ایران اور پاکستان کے درمیان سب سے بڑا حل طلب مسئلہ انسدادِ دہشتگردی ہے۔ بلوچ باغی، سیکولر اور اسلامک عسکریت پسند دونوں ممالک کی مشترکہ سرحد پر اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ وہ دونوں ممالک کی سرزمین استعمال کررہے ہیں۔ اگرچہ اس معاملے پر سرکاری سطح پر بارہا بات ہوئی ہے لیکن عسکریت پسند گروپ دونوں ممالک کے صبر کو آزماتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کی ایک دوسرے پر بداعتمادی پیدا ہوئی ہے کیونکہ ان کے خیال میں مخالف ملک پُرتشدد گروہوں کی پشت پناہی کررہا ہے یا ان کی حفاظت کررہا ہے۔
اس کے برعکس، انسدادِ دہشتگردی میں تعاون پاکستان اور امریکا کے درمیان ہم آہنگی کا اہم نقطہ ثابت ہوا ہے۔ کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان کے کردار کو سراہا۔ حال ہی میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیل کوریلا نے امریکی ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران پاکستان کے انسداد دہشت گردی تعاون کو ’غیر معمولی‘ قرار دیا۔ اسلام آباد کے داعش خراساں کے خلاف مؤثر آپریشنز کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس غیر معمولی شراکت داری کے ذریعے پاکستان نے داعش خراساں کو نشانہ بنایا جس میں درجنوں عسکریت پسند مارے گئے۔
اطلاعات ہیں کہ بھارت جو امریکا کا قریبی اسٹریٹجک پارٹنر ہے، واشنگٹن کے لہجے میں اس تبدیلی پر قدرے حیران تھا۔ ان کے گہرے دفاعی، اسٹرٹیجک اور اقتصادی تعلقات کے باوجود امریکی مؤقف میں تبدیلی آئی ہے جو بالخصوص اسرائیل اور ایران تصادم کے بعد بتاتی ہے کہ واشنگٹن اُبھرتے ہوئے علاقائی منظرنامے میں پاکستان کے لیے زیادہ فعال اور غیرجانبدار کردار کا خواہاں ہے۔ یہ قیاس آرائیاں بھی ہیں کہ پاکستان، چین اور مغرب کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس تناظر میں امریکا کے پاکستان کی جانب ہاتھ بڑھانے کو پاکستان کے ساتھ مزید تعمیری انداز میں تعلقات استوار کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
اگرچہ لوگ اکثر عالمی جغرافیائی سیاست کے بارے میں اندازہ لگاتے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ پاکستان نے تمام قسم کی بین الاقوامی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مستقل عزم کا مظاہرہ کیا ہے بالخصوص جب افغان سرحد کے ساتھ مقابلوں کی بات ہو۔ اس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک مضبوط اور قابل اعتماد پارٹنر کے طور پر دنیا بھر میں اس کی ساکھ کو بہتر بنانے میں مدد ملی ہے۔ ایران-اسرائیل تنازعے کے مشرق وسطیٰ پر اثرات، امریکا کے عالمی مؤقف اور علاقائی جغرافیائی سیاست پر پاکستان کی سمت کے تزویراتی نتائج سے ہٹ کر، اس تنازع نے ملک کے اندر بنیادی طور پر فرقہ وارانہ خطوط پر عوامی جذبات کو ابھارا ہے۔
یہ تشویشناک ہے کیونکہ پاکستان نے حال ہی میں فرقہ وارانہ تشدد کو کسی حد تک قابو میں لایا ہے حالانکہ کچھ علاقے جیسے کہ کرم ضلع اب بھی اس کی زد میں ہیں۔ ایران پر اسرائیلی حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر ایران کے حق میں اور اس کی مخالفت میں پوسٹس کی بھرمار ہوچکی ہے۔ اگرچہ سڑکوں پر کوئی بڑا مظاہرہ نہیں ہوا ہے لیکن آئندہ دنوں میں اسے خارجِ از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ہر صورت حال میں اندرونی سلامتی کے خطرات اور ممکنہ جغرافیائی سیاسی پھیلاؤ دونوں کا جائزہ لینے کے لیے حالات پر گہری نظر رکھیں گے۔ اسی دوران ریاست بحران میں ایک متعلقہ کردار کے طور پر اپنی پوزیشن طے کرنے کے طریقے تلاش کرسکتی ہے۔ تاہم ریاستی حکمت عملی اور عوامی جذبات کے درمیان ایک بار پھر خلیج پیدا ہوسکتی ہے۔ پہلی خلیجی جنگ سے لے کر غزہ میں اسرائیل کی بار بار کی بربریت تک، پاکستان کا سرکاری ردعمل محتاط رہا ہے جس نے خطے کے تمام بڑے کھلاڑیوں بشمول ایران، اسرائیل، امریکا اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان جغرافیائی سیاست اور عوامی جذبات کے درمیان، کس حد تک مؤثر طریقے سے اس توازن کو سنبھالے گا۔
اصل تحریر:
https://www.dawn.com/news/1917273/crisis-management-balance