نیویارک میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کے گروپ نے جنوبی ایشیا کی بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ او آئی سی گروپ نے بھارت کی جانب سے پاکستان پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت پاکستان پر بے بنیاد الزامات کے ذریعے پہلے سے غیر مستحکم خطے میں کشیدگی کو ہوا دے رہاہے۔

او آئی سی گروپ کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ بھارت کی طرف سے کی جانے والی بیان بازی اور جارحانہ اقدامات جنوبی ایشیا کے پہلے سے غیر مستحکم سکیورٹی ماحول کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔ گروپ نے واضح کیا کہ وہ دہشت گردی کی تمام شکلوں اور مظاہر کی مذمت کرتا ہے اور کسی بھی ملک، مذہب، نسل، ثقافت یا قومیت کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششوں کو مسترد کرتا ہے۔

بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ غیر حل شدہ تنازعہ، بالخصوص مسئلہ کشمیر، جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کو متاثر کرنے والا بنیادی سبب ہے۔ او آئی سی گروپ نے جموں و کشمیر کے عوام کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت سے محروم رکھنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیری عوام کی جائز امنگوں کو تسلیم کرے۔

او آئی سی گروپ نے پاکستان کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور مسائل کے پرامن حل کے لیے سفارتی کوششوں کو سراہا۔ گروپ نے کہا کہ پاکستان کشیدگی کا خواہاں نہیں اور خطے میں پائیدار امن کے لیے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق آگے بڑھنا چاہتا ہے۔

بیان میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی مثبت کوششوں کی بھی تعریف کی گئی اور عالمی برادری، سلامتی کونسل اور بااثر ممالک سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا تاکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن ممکن بنایا جا سکے۔

او آئی سی گروپ نے اپنی غیر متزلزل حمایت اور یکجہتی کا اعادہ کرتے ہوئے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ دشمنانہ بیان بازی اور جارحانہ اقدامات بند کرے تاکہ خطے میں امن اور استحکام کی راہ ہموار ہو سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: او آئی سی گروپ نے جنوبی ایشیا

پڑھیں:

بڑھتی ہوئی کشیدگی کا محور

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی ایک بار پھر ایسی شدت کے ساتھ بھڑک اٹھی ہے کہ پورا مشرق وسطیٰ جنگ کے دہانے پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ جو تصادم کبھی صرف نظریاتی اور سرد جنگ کی شکل رکھتا تھا، وہ اب براہ راست، مسلح اور شدت آمیز تصادم میں بدل چکا ہے۔ ڈرونز سرحدیں عبور کر رہے ہیں، پراکسی ملیشیائیں میزائل داغ رہی ہیں، اور سیاسی بیانات میں شدید تندی آ چکی ہے۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ جنگ ہوگی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کب اور کہاں یہ مکمل آگ کی صورت اختیار کرے گی۔ پاکستان کے لیے، جو مذہب، سیاست، اور سفارت کے کئی دھاگوں سے اس تنازع سے جڑا ہوا ہے، یہ معاملہ صرف نظریاتی نہیں، بلکہ حقیقی اور خطرناک ہے۔ اس دشمنی کی جڑیں کئی دہائیوں پر محیط ہیں، مگر اس کی جدید شکل 1979 کے ایرانی انقلاب سے شروع ہوئی، جب شاہ ایران کا اقتدار ختم ہوا اور آیت اللہ خمینی نے قیادت سنبھالی۔ ایران، جو کبھی اسرائیل کا قریبی اتحادی تھا، یکدم اس کا شدید مخالف بن گیا۔ اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دے کر ایران نے اپنی خارجہ پالیسی کو صہیونیت کے خلاف مزاحمت پر مبنی کر دیا۔ اس پالیسی کا عملی اظہار ایران کی جانب سے حزب اللہ، حماس اور حوثی باغیوں کی حمایت کی صورت میں ہوتا ہے، جنہیں اسرائیل اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
آج شام میں ایرانی ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے، لبنان میں حزب اللہ کی سرگرمیاں، اور بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملے ایک وسیع اور مربوط پالیسی کا حصہ ہیں۔ یہ تمام واقعات الگ الگ نہیں، بلکہ تہران کی طویل المدتی حکمت ِ عملی کے تحت اسرائیل کو گھیرنے کی کوششیں ہیں۔ دوسری طرف، اسرائیل نے نہ صرف ایرانی اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے بلکہ کئی ایرانی جوہری سائنسدانوں کو بھی قتل کیا اور ساتھ ہی سفارتی محاذ پر عرب ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں سعودی عرب کا کردار سب سے نازک ہے۔ ایران کے خلاف ایک روایتی توازن کے طور پر سامنے آنے والا ملک، 2023 میں چین کی ثالثی کے تحت تہران سے تعلقات بحال کر کے دنیا کو حیران کر گیا۔ لیکن یہ صلح محض ظاہری ہے، کیونکہ سعودی عرب اب بھی یمن اور عراق میں ایرانی پراکسیوں سے پریشان ہے۔ اگرچہ سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، مگر اس کے ساتھ انٹیلی جنس اور دفاعی تعاون خفیہ طور پر بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے مشرق وسطیٰ کے منظرنامے کو تبدیل کر دیا۔ انہوں نے ایران نیوکلیئر ڈیل سے علٰیحدگی اختیار کی، یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، اور عرب ریاستوں کو اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی ترغیب دی۔ ان اقدامات نے اسرائیل کو مزید جرأت بخشی اور ایران کو چین و روس کی طرف دھکیل دیا۔ ساتھ ہی ساتھ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا تصور اب محض ایک خواب نہیں، بلکہ ایک فعال سیاسی نظریہ بنتا جا رہا ہے۔
’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا نظریہ، جو کچھ عرصہ پہلے تک ایک انتہا پسند تصور سمجھا جاتا تھا، اب اسرائیل کی شدت پسند جماعتوں میں مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نظریہ تورات کی بنیاد پر اسرائیل کی سرحدوں کو نیل سے فرات تک بڑھانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اگرچہ سرکاری سطح پر اسرائیل اس نظریے کی تردید کرتا ہے، مگر زمین پر بستیوں کی توسیع، مسجد اقصیٰ پر کشیدگی، اور الحاق کی پالیسیوں نے اس خواب کو ایک قدم قریب کر دیا ہے۔
یہ تنازع جتنا سیاسی ہے، اتنا ہی مذہبی بھی ہے۔ ایران کی قیادت مہدوی عقائد سے متاثر ہو کر اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو دینی فریضہ سمجھتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے اندر کچھ طبقات مسجد اقصیٰ کی جگہ تیسرا ہیکل بنانے اور مسیحا کی آمد کو ایک قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جب مذہبی نظریے عسکری حکمت عملی میں ضم ہو جائیں، تو تصادم کی شدت بڑھ جاتی ہے۔
عالمی طاقتیں بھی اس کھیل سے باہر نہیں ہیں۔ روس اور چین مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر رسوخ کے لیے ایران کی بقا میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ امریکا، اسرائیل کا دیرینہ اور سخت اتحادی، اب بھی ہر ممکن مدد فراہم کرتا ہے۔

یورپ، جو توانائی اور تجارتی راستوں پر انحصار کرتا ہے، بھی اس کشیدگی سے خوفزدہ ہے۔ اگر ایران نے ہرمز آبنائے بند کی یا اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، تو عالمی معیشت ہل کر رہ جائے گی۔ ایسے میں پاکستان ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ براہ راست فریق نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے اس تنازع کے اثرات نہایت شدید ہو سکتے ہیں۔ عوامی سطح پر فلسطینیوں سے ہمدردی ہے، جبکہ ایران کے ساتھ سرحدی اور مذہبی تعلقات، اور سعودی عرب سے مالیاتی انحصار— یہ سب مل کر ایک پیچیدہ صورتحال بناتے ہیں۔ پاکستان اگر کسی ایک جانب جھکاؤ دکھاتا ہے، تو فرقہ وارانہ فسادات، سفارتی دباؤ، اور بیرونی مداخلت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان میں مذہبی بیانیہ بھی بہت طاقتور ہے۔ امام مہدی کی آمد، غزوۂ ہند، اور دجال سے متعلق پیش گوئیاں عام ہیں۔ یہ بیانیہ عوامی جذبات کو ابھارتا ہے، مگر ریاستی پالیسی کو اس جذباتیت سے الگ رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ ہم مذہبی جذبات میں فیصلے کر کے ریاست کو عدم استحکام میں جھونک سکتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب پاکستان کو حکمت اور تدبر سے کام لینا ہوگا۔ اس بحران کی ماقبل آخری سطر یقینا ایمان، شہادت اور انصاف کے جذبات سے جڑی ہے۔ لیکن آخری سطر صرف اور صرف ریاستی تدبر اور تزویراتی حکمت کے نام ہونی چاہیے۔ پاکستان کو جذبات کے بجائے غیرجانبداری، ثالثی، اور سفارتی مہارت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایران اور سعودی عرب دونوں سے تعلقات برقرار رکھنا، فلسطینیوں کی حمایت عالمی فورمز پر جاری رکھنا، اور اندرونی ہم آہنگی قائم رکھنا ہی پاکستان کا اصل امتحان ہے۔
اسرائیل اور ایران کا یہ تنازع صرف ایک بحران نہیں، بلکہ ایک آزمائش ہے— جس میں پاکستان کی خودمختاری، سفارت کاری، اور تدبر کا اصل امتحان ہوگا۔ اگر ہم ہوش سے کام لیں، تو ہم نہ صرف اس آگ سے بچ سکتے ہیں بلکہ شاید اس آگ میں ایک روشنی کی کرن بن کر ابھریں۔

متعلقہ مضامین

  • چین۔جنوبی ایشیا تعاون فورم، پاکستان اور چین کا ہمہ موسمی تذویراتی شراکت داری کے عزم کا اعادہ
  • چین، بنگلہ دیش اور پاکستان کے سہ فریقی اجلاس کا آغاز، تعاون کے نئے دور کی بنیاد
  • بڑھتی ہوئی کشیدگی کا محور
  • پاکستان کی نویں چین -جنوبی ایشیا ایکسپو میں شرکت
  • بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بے نقاب، بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹ
  • ایک گروپ کو فائدہ پہنچانے پر اسٹیل ملز پر بھاری جرمانہ عائد
  • مالیاتی نگران قوانین اور دیگر احتیاطی میکانزم کو مزید مستحکم کیا گیا ہے، گورنرچینی مرکزی بینک
  • مالیاتی نگران قوانین اور دیگر احتیاطی میکانزم کو مزید مستحکم کیا گیا ہے، گورنر چینی مرکزی بینک
  • کیا واٹس ایپ صارفین کا ڈیٹا اسرائیل کو دے رہا ہے؟ ایران نے پابندی کیوں لگائی
  • بجٹ پر الزامات لگانا حافظ نعیم کی عادت ہے، شرجیل میمن