data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان اور بھارت کی ایمرجنگ کرکٹ ٹیمیں ایک بار پھر مدِ مقابل آنے جا رہی ہیں، جس کا شائقین کو بے چینی سے انتظار ہے۔

ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے تحت ہونے والا ایشیا کپ رائزنگ اسٹارز 2025 آئندہ ماہ 14 سے 23 نومبر تک دوحا میں کھیلا جائے گا۔ یہ ٹورنامنٹ پہلے ’’ایمرجنگ ایشیا کپ‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، مگر اے سی سی نے اس کا نیا نام ’’رائزنگ اسٹارز‘‘ رکھا ہے تاکہ اسے نوجوان کرکٹرز کے لیے ایک باوقار پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا جا سکے۔

مقامی میڈیا پر دستیاب تفصیلات کے مطابق ایونٹ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں کھیلا جائے گا، جس میں مجموعی طور پر 15 میچز ہوں گے۔ گزشتہ ماہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والے ایشیا کپ میں شریک وہی آٹھ ٹیمیں دوبارہ حصہ لیں گی، جن میں پاکستان، بھارت، افغانستان، سری لنکا، بنگلادیش، عمان، متحدہ عرب امارات اور ہانگ کانگ شامل ہیں۔

اس دلچسپ ٹورنامنٹ میں ٹیموں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پاکستان اے اور بھارت اے کو ایک ہی گروپ میں رکھا گیا ہے جہاں ان کے ساتھ یو اے ای اور عمان بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب گروپ اے میں بنگلادیش اے، افغانستان اے، سری لنکا اے اور ہانگ کانگ کی ٹیمیں شامل ہیں۔

پاکستان اور بھارت کا سب سے زیادہ انتظار کیا جانے والا مقابلہ 16 نومبر کو گروپ مرحلے میں دوحا میں ہوگا۔ چونکہ ایونٹ میں ’’سپر فور‘‘ مرحلہ شامل نہیں کیا گیا، اس لیے دونوں ٹیموں کے درمیان زیادہ سے زیادہ دو مقابلے ہی ممکن ہیں ۔ ایک گروپ مرحلے میں اور دوسرا اگر دونوں سیمی فائنل یا فائنل میں آمنے سامنے آجائیں۔

ہر گروپ کی 2 بہترین ٹیمیں سیمی فائنل میں جگہ بنائیں گی، جب کہ فائنل 23 نومبر کو کھیلا جائے گا۔

کرکٹ شائقین کو امید ہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کے درمیان ہونے والے یہ مقابلے مستقبل کے اسٹارز کی شناخت میں اہم کردار ادا کریں گے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ایڈیشن میں افغانستان اے نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے سری لنکا اے کو فائنل میں شکست دی تھی اور ایمرجنگ ایشیا کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اور بھارت ایشیا کپ

پڑھیں:

استنبول مذاکرات: جنوبی ایشیا کا نیا بحران

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251030-03-6
میر بابر مشتاق
بحیرۂ مرمرہ کے کنارے، ترکی کے تاریخی شہر استنبول میں، جہاں کبھی خلافت ِ عثمانیہ کے فیصلے امت ِ مسلمہ کی تقدیر بدل دیتے تھے، آج ایک نیا فیصلہ لکھا جا رہا ہے۔ مگر اس بار قلم سپہ سالاروں کے نہیں بلکہ سفارت کاروں کے ہاتھ میں ہے۔یہ مذاکرات بظاہر پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ہیں، مگر حقیقت میں ان کے اثرات جنوبی ایشیا کے تزویراتی توازن تک پھیل چکے ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ آیا یہ خطہ کسی نئے امن کی طرف بڑھ رہا ہے یا ایک اور عسکری تصادم کی طرف۔گزشتہ ہفتوں میں پاک – افغان سرحد پر شدید جھڑپوں کے بعد 19 اکتوبر کو دوحا میں عارضی جنگ بندی طے پائی، جس کے بعد ترکی کی ثالثی میں استنبول میں باقاعدہ مذاکرات شروع ہوئے۔ مقصد یہ تھا کہ دونوں ممالک ایک مستقل سیز فائر، بارڈر میکانزم، اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف مشترکہ حکمت ِ عملی پر متفق ہو سکیں۔ لیکن 28 اکتوبر تک کوئی نمایاں پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔ ان مذاکرات نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ افغانستان میں امن کی سب سے بڑی رکاوٹ طالبان کی داخلی کمزوری اور اقتدار کی کشمکش ہے۔
طالبان حکومت اس وقت تین بڑے دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے 1۔ قندھار گروہ: جو امیر المؤمنین ہیبت اللہ اخوندزادہ کے زیر ِ اثر ہے اور سخت مذہبی احکامات، عسکری کنٹرول اور شرعی اجارہ داری پر یقین رکھتا ہے۔2۔ کابل دھڑا: جو نسبتاً شہری، سیاسی اور دنیا سے جڑا ہوا طبقہ ہے، جس کی توجہ معاشی بحران اور بین الاقوامی تعلقات پر مرکوز ہے۔3۔ خوست گروہ: جو سرحدی قبائل، پاکستان سے روابط، اور مقامی سیاست میں اثر رسوخ رکھنے والے عناصر پر مشتمل ہے۔
استنبول مذاکرات کے دوران یہ تقسیم پوری شدت سے نمایاں ہوئی۔ ایک ہی افغان وفد تین مختلف سمتوں میں بٹا ہوا نظر آیا۔ پاکستان نے جب ٹی ٹی پی کے خلاف عملی کارروائی اور سرحد پار حملوں کی روک تھام کے لیے تحریری یقین دہانی مانگی تو قندھار گروہ نے خاموشی سے اس کی تائید کی، مگر کابل دھڑے نے اچانک شرط عائد کر دی کہ امریکا کو ضامن کے طور پر شامل کیا جائے، بصورتِ دیگر کوئی معاہدہ ممکن نہیں۔ یہ شرط نہ صرف پاکستان بلکہ ترکی اور قطر کے ثالثوں کے لیے بھی حیران کن تھی۔ دراصل اس کے پیچھے سیکورٹی نہیں بلکہ مالی و سیاسی مفاد کارفرما تھا۔ کابل دھڑا سمجھتا ہے کہ اگر امریکا دوبارہ مذاکراتی عمل میں شامل ہو جائے تو بین الاقوامی امداد کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ 2021 کے انخلا کے بعد افغانستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق نصف سے زیادہ آبادی غذائی قلت کا شکار ہے، اور مجموعی پیداوار میں بیس فی صد کمی آئی ہے۔ استنبول مذاکرات کے دوران افغان وفد کا رویہ اسی داخلی انتشار کا آئینہ دار تھا۔ اجلاس بار بار ملتوی ہوتے رہے، وفد کے ارکان کابل سے ہدایات لیتے، واپس آ کر پہلے سے طے شدہ نکات پر اعتراضات اٹھا دیتے۔ ترک اور قطری ثالثوں نے بھی اعتراف کیا کہ اصل مسئلہ پاکستان کے مطالبات نہیں بلکہ طالبان کے باہمی اختلافات ہیں۔
یہ روش نئی نہیں۔ دوحا میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران بھی طالبان نے وقت حاصل کرنے اور مخالف کو تھکانے کی یہی حکمت ِ عملی اپنائی تھی۔ اْس وقت وہ کامیاب ہو گئے کیونکہ امریکا انخلا کے لیے بے تاب تھا۔ مگر پاکستان کے ساتھ اب یہ چال کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پاکستان نے سرحدی باڑ مکمل کی، انٹیلی جنس تعاون بڑھایا، اور عسکری آپریشنز دوبارہ منظم کیے۔ چین اور روس بھی اس موقف پر متفق ہیں کہ طالبان اگر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی جاری رکھتے ہیں تو افغانستان سرمایہ کاری کے قابل نہیں رہے گا۔ طالبان کے اندر یہ غلط فہمی شدت اختیار کر چکی ہے کہ ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کو پاکستان کے خلاف ایک تزویراتی ہتھیار کے طور پر رکھا جا سکتا ہے۔ یہ سوچ نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ بلکہ خود طالبان کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ حالیہ مہمند، باجوڑ اور خیبر میں ہونے والے حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ طالبان کی خاموش حمایت نے دہشت گردی کو نئی زندگی دی ہے۔ پاکستان کا مؤقف دوٹوک ہے، افغان سرزمین کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ اگر طالبان واقعی ریاستی ذمے داریوں کو سمجھتے ہیں تو انہیں اپنی سرزمین سے دہشت گرد نیٹ ورکس کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
استنبول مذاکرات میں ترکی نے بطور ثالث ایک دلچسپ تجویز پیش کی جسے غیر رسمی طور پر ’’سیریا ماڈل‘‘ کہا جا رہا ہے۔ اس کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ، بارڈر سیکورٹی کوآرڈی نیشن، اور مشترکہ انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں کا نظام قائم کیا جائے۔ جس میں ترکی اور قطر بطور مبصر شامل ہوں تاکہ غلط فہمیوں کا بروقت ازالہ ہو سکے۔ یہ تجویز اعتماد سازی کی ایک نئی راہ کھول سکتی تھی، مگر طالبان نے اسے اپنی خودمختاری کے منافی قرار دے کر مسترد کر دیا۔ اس ردعمل نے ثالثی کے عمل کو کمزور کر دیا، اور مذاکرات کے امکانات مزید دھندلا گئے۔ دوسری طرف، عسکری ماہرین کے مطابق طالبان دراصل بھارت کو ایک اسٹرٹیجک واک اوور دینے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
رپورٹس کے مطابق بھارت آنے والے دنوں میں پاکستان پر دو محاذی دباؤ بڑھانے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایک جانب بحیرۂ عرب اور سرکریک میں ممکنہ کارروائیاں، اور دوسری جانب کنٹرول لائن پر جارحیت۔ ایسے حالات میں طالبان دانستہ طور پر پاکستان کے ساتھ کسی مستقل معاہدے سے پہلوتہی کر رہے ہیں تاکہ پاکستان مغربی سرحد پر مطمئن نہ رہے۔ یہ صورتحال اسلام آباد کے لیے ایک سنگین تزویراتی چیلنج ہے۔ بیک وقت مغربی، مشرقی اور بحری تین محاذوں پر دباؤ کسی بھی ملک کے لیے خطرناک امتحان ہوتا ہے۔ اگر طالبان اپنی موجودہ روش پر قائم رہے تو بھارت اس صورتحال کا سیاسی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ خاص طور پر نریندر مودی، جو ’’پاکستان کو نیچا دکھانے‘‘ کے بیانیے سے اپنی گرتی مقبولیت کو سہارا دینا چاہتا ہے۔ طالبان کی اندرونی تقسیم دراصل ایک گہرا فکری بحران ہے۔ قندھار کی مذہبی شدت، کابل کی سیاسی موقع پرستی، اور خوست کی قبائلی خودمختاری مل کر ایک ایسی حکومت تشکیل دیتے ہیں جو نہ متحد ہے نہ مستحکم۔ امیر المؤمنین کی خاموشی، ملا برادر اور سراج الدین حقانی کے الگ بیانیے، اور وزارتِ خارجہ کے متضاد مؤقف۔ سب مل کر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ طالبان حکومت فکری طور پر ایک واضح سمت سے محروم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے لیے ہر مذاکراتی میز انتشار کا مظہر بن جاتی ہے۔ وہ ایک طرف اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف عالمی امداد کے حصول کے لیے مغرب کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ یہ دوغلا رویہ انہیں نہ صرف دنیا سے دور کر رہا ہے بلکہ اپنے عوام کے اعتماد سے بھی محروم کر رہا ہے۔ پاکستان کے لیے اب دو ہی راستے باقی ہیں یا تو خاموش تماشائی بن کر دہشت گردی کے پھیلاؤ کا انتظار کرے، یا ایک فعال اور مربوط علاقائی حکمت ِ عملی اختیار کرے۔
اسلام آباد کو چین، سعودی عرب، قطر اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ مل کر طالبان پر دباؤ بڑھانا ہوگا تاکہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اقدامات کریں۔ یہی عملی راستہ ہے، کیونکہ افغانستان میں امن کے بغیر نہ سی پیک ممکن ہے، نہ وسط ایشیائی توانائی منصوبے، اور نہ جنوبی ایشیا میں کسی پائیدار معاشی نظام کی بنیاد۔ استنبول مذاکرات کی ناکامی پاکستان کی سفارتی ناکامی نہیں بلکہ طالبان کی سیاسی ناپختگی کا شاخسانہ ہے۔ اگر طالبان نے اپنی اندرونی اختلافات کو ختم نہ کیا اور دہشت گرد گروہوں کو اقتدار کے تحفظ کا ذریعہ بنائے رکھا، تو افغانستان ایک بار پھر عالمی تنہائی اور تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو گا۔ ترکی کی ثالثی اس وقت ایک نازک موڑ پر ہے۔ امن کی باتیں جاری ہیں مگر فضا میں بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ طالبان اگر واقعی اسلامی دنیا کے ایک ذمے دار حکمران بننا چاہتے ہیں تو انہیں سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کی سرپرستی اسلام نہیں سیاسی خودکشی ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت ٹیمیں ایک بار پھر مد مقابل آنے کو تیار
  • ویمنز ورلڈ کپ: بھارت نے آسٹریلیا کو شکست دیکر فائنل میں جگہ بنالی
  • ویمنز ورلڈکپ: بھارت نے آسٹریلیا کو شکست دے کر فائنل میں جگہ بنا لی
  • ویمنز ورلڈ کپ: بھارت نے پہاڑ جیسا ہدف عبور کرکے آسٹریلیا کو 5 وکٹوں سے ہرادیا، فائنل میں جگہ بنالی
  • کرکٹ میں پاک بھارت ٹیمیں ایک بار پھر مد مقابل ہونے کو تیار
  • ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن سمٹ میں ٹرمپ کا مودی پر طنزیہ وار، “خونی قاتل” قراردیدیا
  • استنبول مذاکرات: جنوبی ایشیا کا نیا بحران
  • مشرقی لداخ میں بھارت چین آمنے سامنے، لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر فوجی مذاکرات
  • الاسکا بیٹریز نے ایمرجنگ برانڈ آف دی ایئر 2025” ایوارڈ جیت لیا