پاکستان سپر لیگ کے آئندہ ایڈیشن میں کتنی ٹیمز حصہ لیں گی؟ اعلان ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے اگلے ایڈیشن میں 8 ٹیمیں حصہ لیں گی۔
پی سی بی حکام کے مطابق پی ایس ایل کے اگلے ایڈیشن میں حیدرآباد، میرپور خاص، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں سے دو ٹیمیں ہوسکتی ہیں۔
پی سی بی حکام نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی، چیئرمین پی سی بی اور سی ای او کی عدم موجودگی پر قائمہ کمیٹی نے برہمی کا اظہار کیا۔
پی ایس ایل کے چیف ایگزیکٹو سلمان نصیر نے کمیٹی کو بتایا، پاکستان ٹیم کی حالیہ کارکردگی پر لوگ اسٹیڈیم نہیں آرہے، ہر فارمیٹ کیلئے الگ الگ ٹیمیں بنانے پر غور کیا جارہا ہے۔
دوسری جانب کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ویمن ٹیم کرکٹ ورلڈکپ میں شرکت کے لیے بھارت نہیں جائے گی۔ چیمپئنز ٹرافی سے ڈھائی ارب روپے سے زائد کا منافع حاصل ہوا ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
پاکستان کی پہلی ہانگور کلاس آبدوز آئندہ سال لانچ ہونے کا امکان
پاکستان اور چین کے درمیان 5 ارب ڈالر مالیت کے دفاعی معاہدے کے تحت چین کے تعاون سے تیار کی جانے والی پہلی ہانگور کلاس آبدوز آئندہ سال پاک بحریہ کی فعال سروس میں شامل ہو جائے گی۔پاکستانی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل نوید اشرف نے گلوبل ٹائمز کیساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ 2028 تک 8 آبدوزوں کی فراہمی کا معاہدہ خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ جدید آبدوزیں پاکستان کی بحیرہ عرب اور بحرِ ہند میں نگرانی کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ کریں گی۔معاہدے کے تحت پہلی 4 آبدوزیں چین میں تیار ہوں گی، جب کہ باقی 4 پاکستان میں اسمبل کی جائیں گی تاکہ مقامی تکنیکی مہارت کو فروغ دیا جا سکے۔اب تک چین کے صوبہ ہوبے میں 3 آبدوزیں یانگ زی دریا میں لانچ کی جا چکی ہیں۔ایڈمرل نوید اشرف نے کہا، چینی ساختہ آلات اور پلیٹ فارمز نہ صرف قابلِ اعتماد ہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے جدید اور پاکستان نیوی کی ضروریات کے عین مطابق ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ جدید جنگی تقاضوں کے پیش نظر مصنوعی ذہانت (AI)، غیر انسانی نظاموں (Unmanned Systems) اور الیکٹرانک وارفیئر ٹیکنالوجیز پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے، اور پاکستان چین کے ساتھ ان شعبوں میں تعاون کے امکانات کا جائزہ لے رہا ہے۔اس معاہدے سے پاکستان اور چین کے درمیان دفاعی و صنعتی تعاون مزید مضبوط ہونے کی توقع ہے۔ ایڈمرل اشرف کے مطابق، یہ تعاون صرف ہتھیاروں تک محدود نہیں، بلکہ اس میں تربیت، ٹیکنالوجی شیئرنگ، ریسرچ اور صنعتی شراکت داری بھی شامل ہے۔