تاریخ کی سب سے مہنگی ویب سیریز، ایک قسط پر 1600کروڑ روپے خرچ
اشاعت کی تاریخ: 6th, May 2025 GMT
ٹیلی ویژن کو تاریخی طور پر سینیما کا ایک غریب ہمزاد سمجھا جاتا تھا، جب بڑی بجٹ والی فلموں کی شان و شوکت سے اس کا موازنہ کیا جاتا تھا۔ ہندوستان اور مغرب دونوں میں سب سے مقبول ٹی وی شو بھی اس تصور سے بچ نہ پائے۔
تاہم، او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے اُبھرنے کے ساتھ، اس منظر نامے میں تبدیلی آئی، جنہوں نے بڑے پیمانے پر بنائی جانے والی شو کی تخلیق کی۔آج ہم ایسے ہی دنیا کے سب سے مہنگے او ٹی ٹی شو کی بات کریں گے، جس نے عالمی سطح پر بنائی جانے والی سب سے شاندار فلموں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق، دی لارڈ آف دی رنگز: دی رنگز آف پاور کو تاریخ کی سب سے مہنگی ویب سیریز سمجھا جا رہا ہے۔اس شو کا پہلا سیزن 2022 میں ایمیزون پرائم ویڈیو پر نشر ہوا، جس پر تقریباً 1 ارب ڈالر (تقریباً 27701کروڑ روپے) کی لاگت آئی۔ اس قیمت میں سیزن 1 کے حقوق اور پروموشنل اخراجات شامل ہیں۔
رپورٹس کا کہنا ہے کہ اس کی پیداوار کے اخراجات اکیلے 465 ملین ڈالر (12682 کروڑ روپے سے زائد) تک پہنچے، جس کے نتیجے میں ہر قسط کی قیمت ایک حیرت انگیز 58 ملین ڈالر (1601,99کروڑ روپے) تک پہنچی۔
موازنہ کیا جائے تو اسٹار وارز: دی فورس اویکنس، جو سب سے مہنگی فلم سمجھی جاتی ہے، اس کی پروڈکشن کا بجٹ 447 ملین ڈالر تھا، جو اب بھی دی رنگز آف پاور کے بجٹ سے کم ہے۔ اسی طرح، دی لارڈ آف دی رنگز کی اصل ٹریلوژی کا مجموعی پروڈکشن بجٹ صرف 260 ملین ڈالر تھا۔ اسپن آف شو نے اپنے پیش روؤں کو نمایاں فرق سے پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک نیا معیار قائم کیا ہے۔
بھارتی فلمیں ابھی تک اس سطح تک نہیں پہنچ سکیں۔ کَلکی 2898 اے ڈی، RRR اور ادیپوروش جیسی بھارتی فلمیں، جو مہنگی ترین بھارتی فلموں میں شمار کی جاتی ہیں، ان کا پروڈکشن بجٹ دی رنگز آف پاور کے سیزن 1 کے بجٹ کا صرف 1/15 حصہ ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ملین ڈالر
پڑھیں:
بُک شیلف
تبصرہ نگار: ارشاد احمد ا رشاد
دارالسلام انٹر نیشنل کی شائع کردہ شاہکار کتاب
اٹلس فتوحات اسلامیہ
یہ کتاب مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا باب اور مسلمان اقوام وملل کے روز شب کی آئینہ دار ہے
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا تھا ’’ تاریخ سے ناآشنا قومیں یاداشت کھو بیٹھتی ہیں ‘‘ یہ بات معلوم ہے کہ جس شخص کی یاداشت ختم ہوجائے اس کی پہچان و شناخت ختم ہوجاتی اور زندگی بے مقصد ہوکر رہ جاتی ہے۔ تاریخ ایک انتہائی اہم موضوع ہے جس کے ذریعے سے گذشتہ اقوام کے عروج و زوال اور تعمیر و تخریب کے اسباب کا علم ہوتا ہے۔تاریخ سے آئندہ نسلوں کو عبرت اور بصیرت ملتی ہے۔
حکمت عملی تیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔تاریخ انسان کے دل و دماغ میں جدت اور شعور پیدا کرتی ہے۔شریف قومیں اپنے بزرگوں کے کارنامے یاد رکھتی ہیں اور ان کی پیروی کو اپنی کامیابی کے لیے ضروری سمجھتی ہیں جبکہ کمزور اور رذیل قومیں اپنے ماضی کے کارناموں کو بھلا دیتی ہیں اور تاریخ کے میدان میں نمایاں کردار ادا نہیں کرپاتی ہیں۔
ابن خلدون جیسے عظیم مورخ نے اصول تاریخ کی بنیاد رکھی۔اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ یہ ابتدا سے آج تک مکمل اور مستند حالت میں محفوظ ہے۔ اس حقیقت سے انکار کیا نہیں جا سکتا کہ تاریخ کا مطالعہ ہمیں اس قابل بناتا ہے کہ ہم دنیا کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ لیکن جب تاریخ پر لکھی گئی کتابوں میں قدیم و جدید اور نادر نقشے بھی شامل ہوں تو اس کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ ایسی کتاب کو ’’ اٹلس ‘‘ کہا جاتا ہے۔ کتب تاریخ میں ایک انتہائی اہم نام ’’ اٹلس فتوحات اسلامیہ ‘‘ کا ہے۔ اٹلس کا مطلب ہے ایسا مجموعہ جس میں کسی ملک یا شہر کے جغرافیائی حدود ، مقامات اور دیگر خصوصیات کو خطوط اور علامات کے ذریعے دکھایا گیا ہو۔
دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ ’’ دارالسلام انٹرنیشنل ‘‘ کی شائع کردہ کتاب ’’ اٹلس فتوحات اسلامیہ ‘‘ایک ایسی ہے شاندار ، لاجواب اور بے مثال کتاب ہے جو خلافت صدیقی سے خلافت عثمانیہ کے عروج تک وسط ایشیا سے مراکش اور وسط یورپ تک پھیلی ہوئی اسلامی فتوحات کی عہد بہ عہد ولولہ انگیز ، ایمان افروز اور سبق آموز سنہری داستان بیان کرتی ہے۔ ’’ اٹلس فتوحات اسلامیہ ‘‘ دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ دارالسلام انٹر نیشنل نے نہایت ہی تزک واہتمام سے شائع کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک ایسا قیمتی اور نادر ونایاب تحفہ ہے جس کا مطالعہ ہر مسلمان بالخصوص نوجوان نسل کے لیے بے حد ضروری ہے کہ شائد اس کتاب کے مطالعہ سے آج کا نوجوان مہ کامل بن جائے اور امت مسلمہ کی تقدیر جاگ اٹھے۔
یہ کتاب ظاہری اعتبار سے جتنی خوبصورت ہے معنوی اور مضامین کے اعتبار سے کہیں زیادہ خوبصورت اور جاذب نظر ہے۔ مختلف تصاویر سے مزین کتاب کا سرورق نہایت ہی خوبصورت اور دلکش ہے جبکہ آرٹ پیپر پر طبع شدہ اندرونی و ظاہری زیبائش ، کاغذ ، طباعت ، چہار رنگ تصاویر ، نقشے اور ان کی صحت مندی کا حسن ، اہم حاشیہ بردار پیراگراف ، خلافت عثمانیہ کے عروج تک کا حصہ اور بعد ازاں وسط ایشیا سے مراکش و اندلس اور وسط یورپ تک کی تقسیم ابواب کی صورت واقعات و حقائق کو عمدگی سے بیان کرتی چلی جاتی ہے۔ ترتیب عنوانات اکتیس صفحات پر مشتمل حصہ ہے جس پر ابواب کی ہر تفصیل قاری کے لیے بہترین رہنمائی مہیا کرتی ہے۔
دارالسلام انٹرنیشنل کے مینجنگ ڈائریکٹر عبدالمالک مجاہد ’’ عرض ناشر ‘‘ میں لکھتے ہیں۔’’میں دنیا کے مختلف ممالک میں گھومتا رہتا ہوں۔ کاروباری معاملات کے لیے مختلف بک ہا?سز یا مکتبات میں جاتا رہتا ہوں۔ وہاں زیادہ تر کام نادر کتب کی تلاش ہوتا ہے۔ میں دیکھتا رہتا ہوں کہ کونسی نئی کتاب آئی ہے ؟ دارالسلام قاہرہ کے ساتھ میرا تعلق پرانا ہے۔ کیسا خوبصورت اتفاق ہے کہ دونوں اداروں کے ناموں میں مکمل مماثلت پائی جاتی ہے۔ مگر دارالسلام قاہرہ کی تاریخ قد رے پرانی ہے۔ اس کے مالک عبد القادر محمود بکار میرے ذاتی دوست ہیں۔اطلس الفتوحات الاسلامیہ۔ دارالسلام قاہرہ کی شائع کردہ کتاب ہے۔ جب میں نے یہ کتاب دیکھی تو میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ میں نے ایک ہی رات میں یہ کتاب شروع سے آخر تک دیکھ ڈالی۔ مضامین اور واقعات کی مناسبت سے کتاب میں موجود نقشے دیکھتا چلا گیا۔
دراصل بات یہ ہے کہ مجھے تاریخ اسلام سے بے حد محبت ہے۔ میں تصور میں ان مجاہدوں کو دیکھتا ہوں جنھوں نے اسلام کے پرچم کو سربلند کیا اور چہار سو فتح ونصرت کے جھنڈے گاڑے۔ میں چشم تصور میں اسلامی لشکر کو مسلسل آگے بڑھتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ میں ان راہوں کی تلاش میں تھا جہاں سے مجاہدین گزرے۔ یہ کتاب قاری کوعساکر اسلام سے جوڑتی، مسلمانوں کی عظمت رفتہ سے آشنا کرتی اور انہی راہوں پر چلاتی ہے جن راہوں پر عساکر اسلام چلے اور دنیا کے دامن کو امن ومحبت سے بھر دیا۔جرأتوں اور شجاعتوں سے لبریز اسلام کی تاریخ بہت خوبصورت ہے۔
جب میں نے یہ کتاب مکمل کی اسی وقت ارادہ کرلیا کہ اس کتاب کو اردو میں شائع کرنا میرے اوپر قرض ہے۔ میں نوجوان نسل کو اسلاف کی قربانیوں سے آگاہ کرنا چاہتاہوں۔ مجھے معلوم ہے ترجمے کا کام کوئی آسان نہیں یہ بہت محنت طلب ہے۔ دارالسلام قاہرہ کے مالک عبدالقادر محمود بکار کے ساتھ کئی دن تک گفت وشنید ہوتی رہی۔ آخر میں نے انہیں خطیر رقم کی پیشکش کردی تاکہ وہ انکار نہ کرسکیں۔ چنانچہ طویل گفتگو کے بعد ہمارے اور ان کے درمیان کتاب کی اردو میں اشاعت کا معاہدہ طے پا گیا۔
اس کے بعد اگلا مرحلہ تھا اس کے ترجمہ کا۔کتاب کے اردو ترجمہ کے لیے محسن فارانی سے کوئی بھی شخصیت موزوں نہ تھی۔محسن فارانی علوم تاریخ وجغرافیہ کے اور لسانیات کے شناور اور دارالسلام ریسرچ سنٹر لاہور شعبہ سیرت وتاریخ کے انچارج ہیں۔ وہ اس پہلے بھی کئی کتب کا اردو ترجمہ کرچکے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ محسن فارانی نے کتاب کا ترجمہ کرنے کا حق ادا کردیا ہے۔ انھوں نے صرف کتاب کا ترجمہ ہی نہیں بلکہ عربی نقشوں کو اردو میں ڈھالا ہے۔ عربی کتاب کے متن اور نقشوں کی غلطیوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ بہت سے مقامات واعلام اور بعض واقعات کے حوالے سے توضیحی حواشی بھی رقم کیے ہیں۔انھوں نے اطلس الفتوحات الاسلامیہ ( عربی ) کے نقشوں میں پائی جانے والی گیارہ کے قریب متن اور پروف کی اغلاط کی تصحیح بھی کی ہے۔
اماکن واعلام کے ناموں کے تناقضات دور کرنا اور درست ناموں کے اردو مترادفات ڈھونڈنا اور نقشوں میں مقامات کا ٹھیک ٹھیک تعین کرنا کاردارد ہے تاریخوں اور سنین کی غلطیاں اس پر مستزاد تھیں۔ بہر حال محسن فارانی نے بڑی عرق ریزی سے یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔انھوں نے متن کے ساتھ قدیم وجدید تاریخ وجغرافیہ پر مبنی جو تحقیقی وتوضیحی حواشی لکھے ہیں وہ انتہائی مفید ہیں۔ مختصر حواشی زرد رنگ میں دیے گئے ہیں اور طویل حواشی کا رنگ نیلا رکھا گیا ہے ’’ شخصیات ومشاہیر ‘‘ میں انھوں عقبہ بن نافع ، طارق بن زیاد محمد بن قسم کے احوال بھی شامل کیے ہیں۔ بنو عدنان اور بنو قحطان کے شجرے مکمل اور درست کیے ہیں۔ علاوہ ازیں انھوں نے درج ذیل ممالک اور خطے : سعودی عرب۔ عراق۔ شام ولبنان۔ اردون وفلسطین۔ مصر۔ لیبیا۔ تیونس ، الجزائر ، مراکش۔ سندھ ، افغانستان وبدخشاں۔ ترکی۔ براعظم یورپ۔ بوسنیا و ہرز سیگونیا۔ البانیہ۔ استنبول ( شہر ) نقشہ فتح قسطنطینیہ۔ خانیت کریمیا۔ بر اعظم ایشیا ( 1520 (خیرالدین بابروسا کی بحری مہمات۔ محمد بن قاسم کی فوجی مہمات بھی شامل کیے ہیں۔
ان نقشوں سے متعلقہ ممالک کی موجودہ سرحدیں واضح ہوتی ہیں ، مختلف شہروں اور مقامات کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اب کس کس ملک میں واقع ہیں۔ فتح قسطنطینیہ کے حوالے سے دو اضافی نقشے بھی دیے گئے ہیں۔ یوں انھوں نے شہروں ، دریا?ں ، جھیلوں اور دیار وامصار کے قدیم اور جدید نام اور مفید معلومات شامل کرکے اطلس کو ایک جامع انسائیکلو پیڈیا بنا دیا ہے جس سے اس کتاب کی اہمیت وافادیت دوچند ہوگئی ہے۔اسی طرح کتاب میں درج ذیل چار شجرے بھی شامل کیے گئے ہیں ، شجرہ بنو قحطان ، شجرہ بنو عدنان ، آل عثمان کے دو شجرے۔ اس کتاب کی بہت سی نمایاں خصوصیات میں سے ایک خصوصیت اس کے تفصیلی نقشہ جات کی ہے جو اس میں دی گئی تفصیلات کو عملی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ حقیقتاََ یہ کتاب گیارہ صدیوں کی فتوحات کا وہ عظیم الشان بیانیہ ہے جو اس درجہ دلچسپ انداز میں لکھا گیا ہے کہ پڑھ کر روح تازہ ہو جاتی ہے۔ ہمارے اسلاف کے جنگی کارنامے یوں بھی بہت سنسنی خیز اور ولولہ انگیز ہیں۔
ان واقعات کی تفصیلات ایسی رومان بھری دلچسپی کی حامل ہیں کہ پڑھتے ہوئے جسم کا ہر ہر موشوق و اضطراب کا مظہر بن جاتا ہے۔ اس کی زبان سے لفظ ’’ کاش ‘‘ کا اظہار ہوتا ہے کہ ’’کاش ‘‘ میں بھی ان جنگوں کا حصہ ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ ا س کتاب کو ، اس کے ،مولف احمد عادل کمال کو ، مترجم محسن فارانی اور ناشر عبدالمالک مجاہد کو جتنا بھی خراج تحسین کیا جائے کم ہے۔ یہ محسن فارانی کی عظیم کاوش ہے کہ ا نہوں نے احمد عادل کمال کے جانفشانی اور عرق ریزی سے منتخب کردہ مواد کو ترتیب دیتے ہوئے تحقیق کی کسوٹی پر گزارے گئے اثاثے کو اپنی زبان کا پیر ہن پہناتے ہوئے اسے مزید صحت مندی کی سند اور علم و آگہی کے مزید خوبصورت جامہ میں ملبوس کیا۔ ان کی اس کاوش نے اردو ادب کا دامن موتیوں سے بھر کر اسے دنیا کی معتبر ترین زبانوں میں شامل کردینے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔
ان کا یہ کارنامہ بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے اس کا ترجمہ شاندار اور حقائق کی سچائی سے لبریز واقعات کی ہر انداز میں صحت کی ضمانت کا خیال رکھتے ہوئے کیا ، بلکہ ان شہروں ، راستوں ، ملکوں ، دریا?ں ، سمندروں اور فاتحین کے مختصر تعارفی خدوخال اور ان کے قدیم و جدید تاریخ کا حوالوں اور مقامات کے نقشوں اور تصاویر کے ساتھ پیش کیا۔ کتاب پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔ حصہ اول میں فتوحات اسلامیہ کا طائرانہ سا جائزہ ہے جس میں در حقیقت فتوحات کے سلسلے میں اٹھنے والے سوالات کیوں اور کس لیے کے جواب عمدگی سے مختصر دینے کی کوشش ہے۔
حصہ دوم میں خلافت راشدہ کے عہد کی نمائندگی ہے۔ چھ جواب پر مشتمل یہ حصہ جس میں قادسیہ اور مدائن کے معرکوں سے فتح مصر تک کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے بے حد دلچسپ ہے۔ تصاویر اور نقشوں نے اس کے مطالعہ کو مزید دلکش بنا دیا ہے۔ حصہ سوم : ابواب امیہ اور عباسی عہد کا نمائندہ ہے۔ حصہ چہارم سلطنت عثمانیہ پر مشتمل ہے آپ نے اگر ترکی دیکھا ہوا ہے اور آپ ترکوں کی تاریخ سے کچھ واقف ہیں تو یہ حصہ آپ پر معلومات اور حیرت کے بہت سے دروازے کھولتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی تفصیلات خوبصورت ،تصاویر اور نقشے دیکھ کر انسان حیرتوں کے جہان میں گم ہوتا چلا جاتا ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ یہ کتاب مسلمانوں کی عظمت رفتہ کا باب اور مسلمان اقوام وملل کے روز شب کی آئینہ دار ہے۔ تاریخ اسلام نہ صرف ملت اسلامیہ کی چودہ صدیوں کا آئینہ ہے بلکہ یہ روئے زمین پر بہترین انسانی تہذیب کی عکاسی بھی کرتی ہے لہذا نئی نسلوں کو امت مسلمہ کے عظیم فکری وسیاسی قائدین اور نامور شخصیات کے ساتھ ساتھ ایسے رجال کار اور مردان شجاع کے کارناموں سے آگاہ کرنا اشد ضروری ہے جنھوں نے اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے باطل قوتوں کو جنگی میدانوں میں شکست فاش دی اور ان سرزمینوں میں فروغ اسلام کی راہ ہموار کی جہاں کفر وجہالت کی گھٹاٹوپ تاریکیاں مسلط تھیں۔
اٹلس فتوحات اسلامیہ کو انہی اعلیٰ مقاصد کے لیے تیار کیا گیا ہے اس میں امیر المومنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد سے لے کر عثمانی خلیفہ مراد ثالث کے عہد تک بیشتر اسلامی فتوحات کے روز بہ روز ماہ بہ ماہ اور سال بہ سال پیش آمدہ واقعات چہار رنگ نقشوں اور اچھوتی تصاویر کے ساتھ اس طرح بیان کئے گئے ہیں کہ قاری ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔اس کے سامنے جابجا حیرتوں کے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس پر نئے نئے راز منکشف ہوتے ہیں۔ اطلس فتوحات اسلامیہ کا مطالعہ خود کریں اور اپنے بچوں عزیز واقارب اور احباب کو اس کی ترغیب دیں۔ معنوی اور صوری حسن کی حامل یہ لاجواب کتاب تاریخ وتحقیق کا شاہکار ہے اور اردو خواں شائقین کے لیے عمدہ سوغات ہے۔
باتاں ملاقاتاں
مصنف: مستنصر حسین تارڑ
ناشر: سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، سنِ اشاعت: 2024
اردو نثر میں خودنوشت اور یادداشت نگاری کا جو تازہ رجحان ابھرا ہے، وہ محض ذاتی واقعات کے بیان تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس نے ادب، تہذیب اور تاریخ کے مابین ایک ایسا بین المتونی مکالمہ قائم کر دیا ہے جو قاری کو محض فرد کی نہیں بلکہ عہد کی بازآفرینی کے عمل میں شریک کر لیتا ہے۔ اسی تناظر میں مستنصر حسین تارڑ کی تازہ تصنیف باتاں ملاقاتاں ایک ایسا متنی تجربہ ہے جو محض خاکہ یا خودنوشت نہیں، بلکہ ایک تہذیبی کْل ہے جس میں وقت، یاد اور شخصیت ایک دوسرے میں تحلیل ہو کر زندہ تحریر بن جاتے ہیں۔یہ کتاب اْن یادگار ملاقاتوں کی روداد ہے جہاں ادب، فن اور ثقافت کی نابغہ? روزگار شخصیات تارڑ صاحب کے تجربہ و احساس کے آئینے میں جھلملاتی ہیں۔ صادقین، منٹو، انتظار حسین، عبداللہ حسین اور نور جہاں—یہ پانچ چہرے دراصل پانچ جہان ہیں جن میں نہ صرف فرد کی تخلیقی پرتیں، بلکہ پورے عہد کی روح سانس لیتی ہے۔ تارڑ صاحب کی نثر کی نمایاں خوبی اس کی فطری روانی، لطیف طنز، اور وہ جذباتی صداقت ہے جو قاری کو یکلخت اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ ان کی تحریر نہ تو محض جذبات کی رو ہے، نہ ہی محض تجزیاتی جمود، بلکہ ایک ایسا تخلیقی توازن ہے جہاں محبت اور معروضیت دونوں ہم آغوش نظر آتے ہیں۔ باتاں ملاقاتاں میں یہ اسلوب اپنے عروج پر دکھائی دیتا ہے—نہایت سادہ مگر تہہ دار، دل سے نکلنے والی مگر عقل کو جھنجھوڑ دینے والی۔
ہر شخصیت کا بیان ایک مکمل منظرنامہ ہے، جہاں فرد کا نفسیاتی، فکری اور تہذیبی تناظر قاری پر منکشف ہوتا ہے۔ منٹو کی خودفراموشی ہو یا صادقین کی تخلیقی جنونیت، انتظار حسین کی رمزیت ہو یا عبداللہ حسین کی تنہائی، تارڑ صاحب ان سب کو ایک ایسے تخلیقی لب و لہجے میں رقم کرتے ہیں جو سادہ ہونے کے باوجود تہذیبی پیچیدگی سے خالی نہیں۔ نور جہاں کے باب میں تو گویا تحریر ایک نوحہ بھی ہے، اور ایک تہنیت نامہ بھی—جہاں گلوکاری محض فن نہیں بلکہ ایک نسائی تجربے کی پیچیدہ صورت بن کر ابھرتی ہے۔
تاہم، کچھ پہلو ایسے ہیں جو ایک سنجیدہ قاری کو توقف پر مجبور کرتے ہیں۔ کئی واقعات اور تاثرات، خاص طور پر صادقین یا انتظار حسین کے حوالے سے، تارڑ صاحب کی سابقہ تصانیف یا انٹرویوز میں بھی وارد ہو چکے ہیں۔ یہ تکرار بعض جگہوں پر قاری کے لیے ایک طے شدہ زمین کا احساس پیدا کرتی ہے، جس سے کتاب کے تجدیدی حسن کو کسی قدر آنچ پہنچتی ہے۔ اسی طرح جذباتی وابستگی بعض ابواب میں اس قدر غالب آ جاتی ہے کہ تجزیاتی توازن مجروح ہونے لگتا ہے۔ منٹو اور نور جہاں کے باب خاص طور پر اس جذبانی کثافت کا مظہر ہیں جہاں شخصیت تجزیہ نہیں، تقدیس بن جاتی ہے۔ نسائی نمائندگی کا فقدان بھی ایک تنقیدی سوال کو جنم دیتا ہے۔ نور جہاں کے سوا کوئی نمایاں خاتون شخصیت اس کتاب کا حصہ نہیں، اور اْن کا تذکرہ بھی زیادہ تر گلیمر اور رومانی حوالے سے کیا گیا ہے، نہ کہ فکری یا وجودی پہلو سے۔ یہ ایک ایسا خلاء ہے جو نہ صرف باتاں ملاقاتاں بلکہ تارڑ صاحب کی عمومی تخلیقی دنیا میں بھی محسوس کیا جا سکتا ہے، اور جو آج کے فکری و تنقیدی شعور میں بہ آسانی نظرانداز نہیں ہوتا۔ اس سب کے باوجود، یہ کتاب اردو نثر میں ایک خوشگوار اضافہ ہے۔ اسے محض ملاقاتوں کا سلسلہ کہنا، اس کے تخلیقی حجم اور معنوی وسعت کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ باتاں ملاقاتاں دراصل یادداشت کی ایک ایسی جمالیاتی تنظیم ہے جہاں ماضی محض یاد نہیں بلکہ ایک زندہ مکالمہ بن جاتا ہے۔یہ کتاب خودنوشت، تاثراتی خاکے اور تہذیبی تجزیے کے سنگم پر کھڑی ہے—ایسی تخلیق جو ادب کی سرحدوں کو وسعت دیتی ہے اور قاری کو محض پڑھنے والا نہیں بلکہ سوچنے والا بھی بنا دیتی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کی یہ تصنیف دراصل ایک ایسے ذہن کی بازگشت ہے جو نہ صرف اپنی یادوں کو زندہ رکھنا چاہتا ہے بلکہ اْن سے قاری کو بھی معنوی طور پر ہم سفر بنا لیتا ہے۔ یہ کتاب اپنے اسلوب، مواد اور ادبی کیفیت کے اعتبار سے اردو خودنوشت نگاری کی معاصر روایت میں ایک نمایاں مقام کی مستحق ہے۔
(تبصرہ نگار: قرۃ العین حیدر)
راہ کامرانی
مصنفہ: فائزہ قمر، صفحات: 240،
طابع: قلمکار کلب، بھایانی شاپنگ سینٹر ، بلاک ایم، نارتھ ناظم آباد ، کراچی
قیمت، پاکستان: 1000 روپے، قیمت بیرون ملک: 5 امریکی ڈالر
رابطہ: 2221689-0333
کون ہے جو کامرانی نہیں چاہتا ؟، یہ الگ بات کہ "کامرانی" کا مفہوم اور تصور مختلف افراد کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ اچھے گھر، عمدہ لباس، پرتکلف کھانوں، شان دار گاڑی اور بے پناہ دولت کے حصول ہی کو کامرانی سمجھتے ہیں۔ لیکن انسانوں کا خالق اپنی مخلوق سے بہت اچھی طرح واقف ہے۔ اس نے اپنے بندوں کو کامرانی کا جو راستہ دکھایا ہے، اس پر چل کر انسان نہ صرف دنیا میں کامرانی حاصل کرسکتا ہے بلکہ اگلے جہان میں نہ ختم ہونے والی کامرانی کا حق دار بھی بن سکتا ہے۔ خالق کے بتائے ہوئے اسی راستے کو فائزہ قمر صاحبہ نے اپنی کتاب "راہِ کامرانی" میں رواں، سہل اور دلچسپ ادبی اسلوب میں بیان کیا ہے۔ یہ کتاب دورِ حاضر میں ، بالخصوص غیر مسلم معاشرے میں راہ راست پر قائم رہنے کے طریقے بتاتی ہے۔ یہ طریقے دنیا میں کہیں بھی اردو پڑھنے والے مسلمانوں کے لیے نہایت مفید ہیں۔مصنفہ ایک مخلص، محنتی اور باعمل خاتون ہیں۔ امریکا جیسے آزاد معاشرے میں اصلاح کی جدو جہد برس ہا برس سے کررہی ہیں۔ انہوں نے معاشرے کے بگاڑ کا اصل منبع تلاش کرلیا ہے اور "گھر" کی اصلاح کو بنیادی اہمیت دی ہے، جس کی بنیادی اکائی شوہر اور بیوی ہیں۔ آزاد روی اور مخلوط معاشرے کی کشش والے ماحول میں وہ نہ صرف پاکیزہ زندگی کی دعوت دیتی ہیں بلکہ اس آزاد معاشرے میں بہت کچھ کھو بیٹھنے والی خواتین اور نوجوانوں کو سہارا بھی دیتی ہیں ، خیر کے راستے پر چلنا بھی سکھاتی ہیں۔ فائزہ قمر نے یہ کتاب خلوصِ بے پایاں اور کرب کے گہرے احساس کے ساتھ تحریر کی ہے۔ ان کے الفاظ دلوں کو کسی ہمدرد غم گسار کی طرح تسلی دیتے ہیں اور اپنے مہربان رب سے جوڑ دیتے ہیں۔
(تبصرہ نگار: کلیم چغتائی )