سٹی42:  بھارت دن رات کے کسی بھی وقت کوئی بھی جارحیت کرے گا تو پاکستان اسے بروقت اور  مناسب ترین قوت کے ساتھ جواب دے گا۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لئے کمانڈ اینڈ کنٹرول سے متعلق ضروری امور کو آج طے کر لیا گیا۔

ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ یہ بات  پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان طے ہو چکی ہے کہ بھارت کی کسی بھی جارحیت کا پاکستان فوری جواب دے  گا اور اس جواب دینے کے لئے پاکستان کی فوجی قیادت  مکمل اختیار کے ساتھ کارروائی کرے گی۔

میچ کے دوران بولر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا

آج اسلام آباد میں اندیا کی جارحیت کی تیاریوں کے جائزہ  کے بعد سیاسی قیادت  نے فوجی قیادت کو  بھارت کی کسی بھی جارحیت کا بروقت  جواب کو یقینی بنانے کے لئے مکمل اختیار دے دیا ہے۔

ذمہ دار ذرائع نے بتایا کہ آج منگل کے روز اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف، وزیر دفاع خواجہ آصف علی اور شہباز شریف کے دیگر معاون وزرا کی ملٹری تاپ براس کے ساتھ ایک اور ضروری مشاورت آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز میں ہوئی۔ اس مشاورت کے دوران یہ نوٹ کیا گیا کہ بھارت بظاہر فوجی مشقوں اور دوسری تیاریوں مین مشغول دکھائی دے رہا ہے لیکن اس کی طرف سے کسی بھی وقت کوئی جارحیت کی جا سکتی ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے اور پاکستان کے دفاع کو ہر طرح سے یقینی بنانے کے لئے پاکستان کے وزیراعظم نے ہدایت کی کہ ملٹری ٹاپ براس دن رات کے کسی بھی وقت  کسی بھی جارحیت کا فوری اور  ضروری جواب دینے کے لئے بلا تامل کارروائی کرے۔ 

سندرفائرنگ؛ 2 افراد زخمی

Waseem Azmet.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: بھی جارحیت جارحیت کا کسی بھی کے لئے

پڑھیں:

بھارتی جارحیت پر جنرل عاصم منیر کی قیادت میں مثال قائم کی گئی: امریکی اخبار کا اعتراف

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرلیا۔نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پہلگام حملے کے بعد بھارتی جارحیت سامنے آنے پر جنرل عاصم منیر کی قیادت میں مثال قائم کی گئی، جنگی مشقوں میں جنرل عاصم نے ٹینک پر چڑھ کر فورسز سے خطاب کیا۔امریکی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی طاقتور ترین شخصیت بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے سائے سے باہر نکل آئی.عام طور پر پردے کے پیچھے کام کرنے والے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سخت بیانات سے کشمیر کے بحران میں ’پاکستان کا لہجہ‘ تشکیل دے رہے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کے سب سے طاقتور شخص نے پردے کے پیچھے رہنے کو ترجیح دی، اپنے عوامی پروفائل کو سختی سے کنٹرول کیا، اور بیانات کو زیادہ تر فوجی تقریبات میں کوریوگرافڈ خطابات تک محدود رکھا۔لیکن تقریباً دو ہفتے قبل بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مہلک دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے مرکز میں قدم رکھ دیا ہے۔پہلگام قصبے کے قریب دو درجن سے زائد ہندو سیاحوں کی ہلاکت کے بعد جب بھارت میں زبردست ردعمل کے لیے دباؤ بڑھ گیا ہے تو جنرل منیر نے اپنی سخت گفتگو سے پاکستان کے لہجے کو مزید تبدیل کر دیا ہے۔گزشتہ جمعرات کو فوجی مشق کے دوران ایک ٹینک کے اوپر کھڑے ہو کر جنرل عاصم منیر نے میدان میں موجود فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے. بھارت کی جانب سے کسی بھی فوجی مہم جوئی کا فوری، پرعزم اور بھرپور جواب دیا جائے گا۔نیو یارک ٹائمز کے مطابق یہ پاکستان کے اس عزم کا حوالہ تھا کہ وہ کسی بھی بھارتی حملے کا مقابلہ کرے گا یا اس سے آگے بڑھ کر جواب دے گا۔پاکستان کے آرمی چیف کا جواب سیاسی حساب کتاب سے بڑھ کر معلوم ہوتا ہے۔تجزیہ کار انہیں بھارت کے بارے میں سخت گیر شخص قرار دیتے ہیں، ان کے خیالات پاکستان کی 2 اہم ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی قیادت کے دوران اور ان کے اس یقین کی بنیاد پر تشکیل پائے ہیں کہ بھارت کے ساتھ طویل عرصے سے جاری تنازع ایک ’مذہبی تنازع‘ ہے۔بھارت میں بہت سے لوگوں نے جنرل عاصم منیر کے اس بیان پر اعتراض کیا، جو انہوں نے دہشت گرد حملے سے 6 دن پہلے دیا تھا، دارالحکومت اسلام آباد میں سمندر پار پاکستانیوں کے سامنے انہوں نے کشمیر کو ملک کی ’شہ رگ‘ قرار دیا، جو پاکستان اور بھارت کے درمیان منقسم ہے۔یہ فقرہ، جو ملک کے قوم پرست الفاظ میں گہرائی سے جڑا ہوا ہے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس طرح پاکستان کشمیر کو اپنی قومی شناخت کے لیے اہم سمجھتا ہے۔بھارتی وزارت خارجہ نے اس بیان کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ حصہ قرار دیا تھا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ بحران مزید بڑھتا ہے، یا تحمل کی راہ ہموار کرتا ہے، اس کا انحصار بین الاقوامی سفارت کاری پر بھی اتنا ہی ہوگا جتنا قومی سیاست پر ہوگا۔امریکا اور اقوام متحدہ نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لانے کے لیے کام کریں، علاوہ ازیں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم احمد نے جمعے کے روز کہا تھا کہ پاکستانی سفارتکاروں اور حکومتی وزرا نے اپنے چینی ہم منصبوں سے بھارت کے ساتھ کشیدگی پر بات کی ہے، چین پاکستان کا اتحادی ہے اور وہاں اس کے معاشی مفادات ہیں۔لیکن بحران کے حل کے لیے سفارت کاری کافی نہیں، کیوں کہ بھارت کے طاقتور وزیر اعظم نریندر مودی (جن کا ہندو قوم پرستی کا برانڈ مسلمانوں کو ایک خطرے کے طور پر پیش کرتا ہے) نے وعدہ کیا ہے کہ بھارت ’ہر دہشت گرد اور ان کے حامیوں کا زمین کے آخری سرے تک تعاقب کرے گا‘۔

2016 اور 2019 میں کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے بعد بھارت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے کیمپوں کو نشانہ بنایا تھا۔دہلی سے تعلق رکھنے والے ایک مصنف اور صحافی آدتیہ سنہا نے کہا کہ اس بار ایک سیاحتی مقام پر حملہ آوروں کے ہاتھوں 26 بے گناہ افراد کی ہلاکت کے ساتھ (جو دہائیوں میں اس خطے میں اس طرح کا سب سے مہلک حملہ ہے) فرضی کیمپوں پر صرف سرحد پار فضائی حملہ دائیں بازو کے حامیوں کے خون کی ہوس کو پورا کرنے والا نہیں ہے۔جنرل منیر نے پہلگام حملے کے بعد واضح طور پر نظریاتی الفاظ میں بات کی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ بھارت کے ساتھ طویل المدتی امن ممکن ہے۔ 26 اپریل کو انہوں نے ملک کی سب سے بڑی ملٹری اکیڈمی کی گریجویشن تقریب میں کیڈٹس سے خطاب میں 1947 میں پاکستان کے قیام کے پیچھے ’دو قومی نظریہ‘ کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندو اور مسلمان الگ الگ قومیں ہیں اور انہیں الگ الگ وطن کی ضرورت ہے۔یہ نظریہ طویل عرصے سے پاکستان کی قومی شناخت اور خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھتا رہا ہے.ماضی میں پاکستان کے جرنیلوں نے بھارت کے ساتھ کشیدگی کے لمحات میں اس نظریاتی بیان بازی کو اپنایا اور جب سفارت کاری کا اشارہ ملا تو اسے واپس لے لیا گیا۔جنرل عاصم منیر کے نظریہ کی بحالی اور دیگر تبصروں کو بہت سے بھارتیوں نے بھارت کے بارے میں پاکستان کے موقف میں واضح تبدیلی کے طور پر بیان کیا ہے۔کشمیر کو پاکستان کی ’شہ رگ‘ کے طور پر پیش کرنے سے خاص طور پر بھارت میں اعصاب کو دھچکا لگا ہے. اسی تقریر میں جنرل عاصم منیر نے کہا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کو ان کی جرات مندانہ جدوجہد میں نہیں چھوڑیں گے، جو وہ بھارتی قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔بھارتی آن لائن اخبار ’دی پرنٹ‘ کے ایڈیٹر انچیف شیکھر گپتا کا کہنا ہے کہ ان تبصروں کے وقت کو نظر انداز کرنا بھارت کے لیے مشکل ہوگا۔شیکھر گپتا نے کہا کہ ’پاکستانی آرمی یچف کی تقریر کے فوراً بعد پہلگام میں حملہ ہوا.  بھارت کو اس میں تعلق نہ بنانے کے لیے بے حد لاپرواہی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب انہوں نے ہندوؤں کے خلاف دشمنی کا اظہار کیا تھا‘، جو کسی بھی پاکستانی رہنما (چاہے وہ سول ہو یا فوجی) نے طویل عرصے سے نہیں کیا تھا۔پاکستانی حکام نے جنرل عاصم منیر کے بیان اور کشمیر میں حملے کے درمیان کسی بھی طرح کے تعلق کو مسترد کیا ہے، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کے بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی ’بنیادی وجہ‘ کشمیر پر حل طلب تنازع ہے۔یہ خطہ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد سے بھارت اور پاکستان کی دشمنی کا مرکز رہا ہے.جس نے دونوں ممالک کو برطانوی ہندوستان سے الگ کر دیا تھا۔

کشمیر میں جنگیں، شورشیں اور طویل عرصے تک فوجی تعیناتیاں دیکھنے میں آئی ہیں، جس کی وجہ سے یہ دنیا کے سب سے غیر مستحکم فلیش پوائنٹس میں سے ایک بن گیا ہے۔ جنرل عاصم منیر اپنے عوامی امیج کو کنٹرول کرنے کے لیے کام کرتے ہیں، لہٰذا وہ غیر تحریرشدہ تبصروں سے گریز کرتے ہیں، ان کی تقاریر زبردست اور ابہام سے پاک ہوتی ہیں، اور اکثر مذہبی موضوعات پر مبنی ہوتی ہیں۔امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کا کہنا ہے کہ جنرل عاصم منیر ’مذہبی‘ ہیں، اور یہ رنگ بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ان کے خیالات میں جھلکتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ تناؤ پر قابو پانے کی کوشش کریں گے، اور زیادہ سے زیادہ پوائنٹس حاصل کریں گے۔حسین حقانی کا کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ وہ پسند کیے جانے سے زیادہ کنٹرول میں رہنا چاہتے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ داخلی سیاست میں یہ ان کا نقطہ نظر رہا ہے اور یہی بھارت کے ساتھ معاملات میں ان کا ممکنہ نقطہ نظر ہوگا۔بھارت کے ساتھ تعلقات میں فوج مضبوط ہاتھ لیتی دکھائی دے رہی ہے، اور مستقبل میں ہونے والے کسی بھی مذاکرات پر ادارہ جاتی کنٹرول کو مستحکم کرنے کے لیے ملک کے خفیہ ادارے کے سربراہ کو قومی سلامتی کا مشیر مقرر کر رہی ہے، یہ کردار تاریخی طور پر ریٹائرڈ جرنیلوں اور سویلینز کے پاس رہا ہے۔فی الحال دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات منجمد ہیں، خاموش سفارت کاری کے بجائے جارحانہ عوامی پیغام رسانی مواصلات کا بنیادی ذریعہ بن چکی ہے. ایسے ماحول میں، غلط اندازہ لگانے کا خطرہ شدید ہے۔اسلام آباد کے ایک سیاسی اور سیکیورٹی تجزیہ کار زاہد حسین کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے فوجی حملے کیے تو پاکستان جواب دینے پر مجبور ہو جائے گا۔انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا مسٹر مودی اس مقام پر رکنے کا انتخاب کرسکتے ہیں؟ یہاں تک کہ محدود بھارتی حملے بھی ایک وسیع تر تنازع کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ اکتوبر 2024 میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے جریدے ’یونی پاتھ‘ نے پاک فوج کے سپہ سالار جنرل عاصم منیر کی پیشہ ورانہ اور قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں انتہا پسندی کے خلاف توانا آواز اور پاکستان کی سلامتی، استحکام اور خوشحالی کے لیے پر عزم قرار دیتے ہوئے دہشتگردی کے خاتمے کی کاوشوں، علاقائی و ملکی استحکام کے لیے کردار اور سماجی و اقتصادی اقدامات پر زبردست خراج تحسین پیش کیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • ‏وزیراعظم شہباز شریف نے آج صبح 10 بجے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا
  • بھارت کی آبی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا،وزیر ریلوے حنیف عباسی
  •  عالمی برادری فوری طور پر بھارت کو جارحیت سے روکے ، پاکستان نے اقوام متحدہ کی ثالثی کی حمایت کردی
  • بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، وزیر خارجہ اسحاق ڈار
  • بھارتی جارحیت پر جنرل عاصم منیر کی قیادت میں مثال قائم کی گئی: امریکی اخبار کا اعتراف
  • پاکستان کا ’فتح‘ سیریز میزائل کا کامیاب تجربہ، دشمن کی جارحیت کا ہر قیمت پر جواب دیا جائے گا، آئی ایس پی آر
  • پاکستان کسی صورت پہلا قدم نہیں اٹھائےگا لیکن جارحیت کا پوری طاقت سے جواب دیں گے: نائب وزیراعظم
  • ہم الرٹ ہیں، بھارت نے جارحیت کی تو بھرپور جواب دیں گے، نائب وزیراعظم
  • پاکستان کا بھارتی جارحیت اور اشتعال انگیزی پر سلامتی کونسل کا فوری اجلاس بلانے کا فیصلہ