اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 06 مئی 2025ء) اقوام متحدہ نے اسرائیل کا اپنی فوج کے زیرانتظام مراکز سے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی کا منصوبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کوئی اقدام ضرورت مند لوگوں کو غیرجانبدرانہ، شفاف اور آزادانہ طور سے مدد پہنچانے کے اصولوں کی خلاف ورزی ہو گا۔

امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر (اوچا) نے کہا ہے کہ بظاہر یہ اسرائیل کی جانب سے امداد کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی دانستہ کوشش ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ نے بہت پہلے خبردار کر دیا تھا۔

ادارے کے ترجمان جینز لائرکے کا کہنا ہے کہ امداد مہیا کرنے میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جانی چاہیے اور اسے انہی لوگوں کو فراہم کیا جانا چاہیے جنہیں اس کی ضرورت ہو۔

(جاری ہے)

Tweet URL

جنیوا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں ںے اسرائیلی حکام کا حوالہ دیا جنہوں نے سوموار کو پیشکش کی تھی کہ ان کا ملک غزہ کی سرحدیں کھولے جانے کے بعد اپنے علاقے میں امدادی مراکز قائم کر کے اپنی فوج کی طے کردہ شرائط کے تحت غزہ میں امداد پہنچائے گا۔

یہ پیشکش اسرائیل کی جانب سے حماس کے خلاف عسکری کارروائیوں کو وسعت دینے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ غزہ پر 'قبضہ' کرنا بھی اس میں شامل ہے جبکہ اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزالیل سموترخ کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی علاقے کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے گا۔

کوڑے کے ڈھیروں پر کھانے کی تلاش

ترجمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کے حکام غزہ میں اقوام متحدہ کے 15 اداروں، 200 این جی اوز اور شراکت داروں کے زیراہتمام چلائے جانے والے موجودہ امدادی نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

اسرائیلی کابینہ نے جنگ میں مزید وسعت اور شدت لانے کا عندیہ دیا ہے اور اس طرح غزہ کی 20 لاکھ سے زیادہ آبادی کو ایک مرتبہ پھر جنوبی علاقے کی جانب منتقل کیا جائے گا جبکہ غزہ کی مکمل ناکہ بندی کے نتیجے میں شہریوں کو بدترین مشکلات کا سامنا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امداد کی فراہمی روکے جانے کے فیصلے کا مقصد حماس پر باقیماندہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔

امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی یہ پالیسی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس سے قحط پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

جینز لائرکے نے غذائی امداد کے شعبے میں کام کرنے والے اقوام متحدہ کے شراکت داروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ان کے پاس لوگوں کو دینے کے لیے مزید خوراک باقی نہیں رہی۔ بھوکے لوگ کوڑاکرکٹ کے ڈھیر سے کھانے کی چیزیں تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزہ کے شہریوں کو کس قدر کڑے، ظالمانہ اور غیرانسانی حالات کا سامنا ہے۔

محاصرہ، غذائی قلت اور بیماریاں

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ رواں سال کے آغاز سے غزہ میں 10 ہزار بچوں کو غذائی قلت کا علاج کرانے کے لیے طبی مراکز میں داخل کرایا گیا ہے۔ ان میں 1,397 بچے شدید درجے کی غذائی قلت کا شکار ہیں۔

ادارے کی ترجمان ڈاکٹر مارگریٹ ہیرس نے خبردار کیا ہے کہ جب کوئی بچہ اس حالت کو پہنچ جائے تو علاج کے بغیر اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

غزہ کے تمام بچوں کو اس علاج کے لیے ہسپتالوں تک رسائی نہیں ہے۔

'ڈبلیو ایچ او' کے مطابق، غزہ میں طبی مراکز میں لائے جانے والے غذائی قلت کا شکار 20 فیصد بچوں کا علاج متواتر نقل مکانی اور ابتر حالات کے باعث مکمل نہیں ہو پاتا۔ پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کا نظام بڑی حد تک غیرفعال ہو جانے کے باعث اسہال کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جلدی بیماریاں بھی عروج پر ہیں کیونکہ لوگوں کے پاس نہانے کے لیے پانی نہیں ہوتا۔

جینز لائرکے نے متحارب فریقین اور اس تنازع میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ بندی اور یرغمالیوں کی فوری اور غیرمشروط رہائی کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو یرغمال بنانا اور انہیں سیاسی سودے بازی کے لیے استعمال کرنا ہولناک جرم ہے لیکن عالمی قانون کے تحت انسانی امداد کو بھی سودے بازی کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ اسرائیل کی غذائی قلت لوگوں کو کی جانب کے لیے اور اس

پڑھیں:

غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے

یروشلم: اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعہ کی شب غزہ سے واپس کیے گئے تین اجسام ان اسرائیلی قیدیوں میں شامل نہیں تھے جو جنگ کے دوران مارے گئے تھے، جبکہ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے نمونے کے تجزیے کے لیے پیشکش مسترد کر دی تھی۔

برطانوی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، اسرائیلی فوج نے بتایا کہ ریڈ کراس کے ذریعے موصول ہونے والی لاشوں کے فرانزک معائنے سے واضح ہوا کہ یہ قیدیوں کی باقیات نہیں ہیں۔

دوسری جانب حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈز نے وضاحت کی کہ انہیں موصول شدہ لاشوں کی مکمل شناخت نہیں ہو سکی تھی، لیکن اسرائیل کے دباؤ پر انہیں حوالے کیا گیا تاکہ کوئی نیا الزام نہ لگے۔

القسام بریگیڈز نے کہا کہ، ’’ہم نے اجسام اس لیے واپس کیے تاکہ دشمن کی طرف سے کسی جھوٹے دعوے کا موقع نہ ملے‘‘۔

یاد رہے کہ 10 اکتوبر سے جاری امریکی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے بعد سے فریقین کے درمیان قیدیوں کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ اب تک 20 زندہ قیدی اور 17 لاشیں واپس کی جا چکی ہیں، جن میں 15 اسرائیلی، ایک تھائی اور ایک نیپالی شہری شامل تھے۔

تاہم اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس لاشوں کی واپسی میں تاخیر کر رہی ہے، جبکہ حماس کا مؤقف ہے کہ غزہ کی تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں لاشوں کی تلاش ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔

اسی دوران حماس کے سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، ہفتے کی صبح اسرائیل نے جنوبی غزہ میں کئی فضائی حملے کیے اور خان یونس کے ساحل کی سمت سے بحری گولہ باری بھی کی۔

غزہ کے شہری دفاعی ادارے کے مطابق، ہفتے کے آغاز میں اسرائیلی فوج کے ایک اہلکار کی ہلاکت کے بعد، اسرائیل نے جنگ بندی کے باوجود اب تک کا سب سے مہلک فضائی حملہ کیا، جس میں 100 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے۔

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ غزہ میں عالمی فوج تعینات کرنے کی منظوری دے، امریکا
  • کشمیر کی صورتِحال پر عالمی خاموشی خطرناک ہے: مشعال ملک
  • غزہ پر اسرائیلی حملے فوری بند کیے جائیں، حماس کنٹرول فلسطینی کمیٹی کے سپرد کرنے کو تیار ہے، ترک وزیرِ خارجہ
  • علامہ صادق جعفری کا سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور لرزہ خیز مظالم پر شدید تشویش کا اظہار
  • غزہ وزارتی کانفرنس: فلسطینیوں کیلئے انسانی امداد فوراً بحال کرنےکامطالبہ
  • حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
  • اسرائیل کی جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف حملے تیز کرنے کی دھمکی
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے