Daily Ausaf:
2025-05-28@11:42:08 GMT

دو ہمسائے، دو راستے، امن یا تصادم

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

جنوبی ایشیاء کے دو اہم ممالک، پاکستان اور بھارت، اپنے قیام سے ہی باہمی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ ان کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی نہ صرف ان دو ممالک کے عوام کی ترقی میں رکاوٹ بنی ہے بلکہ پورے خطے کے امن، استحکام اور اقتصادی خوشحالی کے لیے بھی ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ قیامِ پاکستان سے لےکرموجودہ دور تک، دونوں ممالک کے تعلقات میں کئی بار بہتری کی امید پیدا ہوئی، لیکن ہربار یہ امیدیں یا تو جنگ کی دھول میں گم ہو گئیں یا سفارتی تنازعات میں تحلیل ہو گئیں۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی پیچیدگیوں کی جڑیں 1947ء کی تقسیم ہند میں پیوست ہیں۔ تقسیم کے بعد پہلا بڑا تنازعہ کشمیر کے مسئلے پر سامنے آیا۔ 1948ء، 1965ء، اور 1999ء میں دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں۔ 1971ء کی جنگ نے تو پاکستان کے ایک بازو کو علیحدہ کر کے بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نیاملک بنوا دیا۔کشمیر کا مسئلہ آج بھی دونوں ممالک کے درمیان بنیادی تنازعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، جبکہ پاکستان کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے، جس کی بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔ اس تنازعے نے دونوں ممالک کے درمیان مسلسل دشمنی، فوجی دوڑ، اور سفارتی محاذ آرائی کو جنم دیا ہے۔
سفارتی تعلقات اور سرحدی جھڑپیں پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی صرف میدانِ جنگ یا سرحدی جھڑپوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ سفارتی سطح پر بھی یہ تعلقات اکثر نچلی سطح پر آجاتے ہیں۔ سفیروں کی ملک بدری، مذاکرات کی معطلی اور بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنا معمول بن چکا ہے۔پلوامہ حملے (فروری 2019ء) کے بعد بھارت نے بالاکوٹ میں فضائی حملےکیے، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارتی طیارہ مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو حراست میں لےکر بعد میں خیرسگالی کے طور پر واپس کر دیا۔ یہ واقعہ نہ صرف جنگ کے خطرے کو ہوا دے رہا تھا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی تصادم کے امکانات کو بھی بڑھا رہا تھا۔پاکستان اور بھارت کے میڈیا نے اکثر کشیدگی کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کیا ہے۔ جذباتی اور جانبدار رپورٹنگ نے عوام میں نفرت کو ہوا دی اور سیاسی مقاصد کے لیےمخالف ملک کو دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔ دونوں ممالک کےٹی وی چینلز اور اخبارات اکثر حب الوطنی کے نام پر پروپیگنڈہ کرتے ہیں، جس سے عوامی شعور متاثر ہوتا ہے اور تنازعے کےحل کی راہ مزیددشوار ہو جاتی ہے۔اس کشیدگی کا سب سے بڑا نقصان دونوں ممالک کے عوام کو پہنچا ہے۔ اگر ہم دفاعی اخراجات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری اور دفاعی تیاریوں پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ وسائل اگر تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے پر خرچ کئے جائیں تو کروڑوں لوگوں کی زندگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔کشیدگی کی وجہ سے باہمی تجارت بھی محدود ہوچکی ہےحالانکہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔ مشترکہ منصوبے، تجارتی راستے، اور سیاحتی ترقی پورے خطے کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔کشمیر کا تنازعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی،جس پر پاکستان نےشدید ردعمل دیا۔ اس اقدام کےبعد سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے اور لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں معمول بن گئیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس تنازعے کےحل کے لیے کئی بار اپیل کر چکے ہیں لیکن دونوں ممالک کی پالیسیوں میں لچک نہ ہونےکیوجہ سے بات چیت آگے نہیں بڑھ سکی۔2025 ء میں بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں نمایاں بہتری نظر نہیں آ رہی۔ اگرچہ کچھ مواقع پر خفیہ سفارت کاری یا بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے حالات میں نرمی پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن یہ طویل مدتی حل فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ سرحدوں پر کبھی سکون ہوتا ہے تو کبھی اچانک فائرنگ یا حملوں کی خبریں آ جاتی ہیں۔ کشمیر میں بھارتی اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پاکستان کی آواز بلند رہتی ہے جبکہ بھارت اسے اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے لیے اب وقت آ چکا ہے کہ وہ کشیدگی اور دشمنی کے اس چکر سےباہرنکل کر امن، ترقی، اورباہمی احترام کی راہ اپنائیں۔ جنگ کسی مسئلے کاحل نہیں اور دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی ہر کشیدگی کو عالمی خطرہ بناتی ہے۔دونوں ممالک کو کشمیر سمیت تمام متنازعہ مسائل پر سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ویزہ پالیسی میں نرمی، ثقافتی تبادلے اور عوامی سطح پر روابط بڑھانے سے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کر کے مشترکہ اقتصادی منصوبے دونوں ممالک کو قریب لا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو اس معاملے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک پر دباؤ ہو کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔
پاکستان اور بھارت کی کشیدگی ایک پیچیدہ اورحساس معاملہ ہے، لیکن اس کا حل ممکن ہے اگر دونوں ممالک صبر، برداشت اور عقل مندی کا مظاہرہ کریں ۔ دشمنی سے حاصل کچھ نہیں ہوتا، جبکہ امن کی راہ پر چل کر دونوں ممالک نہ صرف اپنے عوام کو خوشحال بنا سکتے ہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیاء کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ جذباتی ردعمل کے بجائےدانشمندی سےکام لیں اور باہمی احترام کو فروغ دیں ۔ اگر دونوں ممالک اپنے عوام کے بہتر مستقبل کو مقدم رکھیں تو دشمنی کے بجائے دوستی کا راستہ اپنایاجاسکتا ہے اور میڈیا اور سیاسی رہنمائوں کو بھی چاہیے کہ وہ نفرت انگیز بیانات سے گریز کریں اور امن کے فروغ میں مثبت کردار ادا کریں اور ایسے حالات میں میڈیا کو جنگی جنون کے بجائے امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان پاکستان اور بھارت کے کہ دونوں ممالک کے تعلقات سکتے ہیں کی راہ کے لیے

پڑھیں:

مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو سکتا ہے، صدر آزاد کشمیر

بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے یوم تکبیر کے موقع پر اپنے ایک خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے 28 مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کا توازن برابر ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد جموں و کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے یوم تکبیر کے موقع پر اپنے ایک خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے 28 مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کا توازن برابر ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اس سے قبل بھی مسئلہ کشمیر پر تین جنگیں ہو چکی ہیں جو غیر روایتی تھیں لیکن اگر خدانخواستہ اب جنگ ہوتی ہے تو یہ ایک ایٹمی جنگ ہو گی جو نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہے۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اس وقت کے وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا جبکہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے میزائل ٹیکنالوجی لائی جس کی بدولت آج پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور دونوں کے درمیان کوئی بھی چھوٹا یا بڑا حادثہ ایک بڑی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا جو پوری دنیا کے امن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ لہذا عالمی برادری کو پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرینہ حل طلب مسئلہ کشمیر حل کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے جامع اور پائیدار حل کے لئے ضروری ہے کہ کشمیری عوام کو مذاکرات میں شامل کیا جائے کیونکہ مسئلہ کشمیر کے اصل اور اہم فریق کشمیری عوام ہی ہیں۔انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کا حق خودارادیت دلوائے۔

متعلقہ مضامین

  • جنوبی ایشیا میں کوئی بھی روایتی جنگ، جوہری تصادم میں تبدیل ہو سکتی ہے؛ سردار مسعود خان
  • پاک ، بھارت ایٹمی جنگ ، 2کروڑ سے زائد جانیں جانے کا خطرہ،ماہرین کا انتباہ جاری
  • مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی جنوبی ایشیا میں امن قائم ہو سکتا ہے، صدر آزاد کشمیر
  • بھارت سے کشیدگی میں پاکستان کی حمایت پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کا صدر آذربائیجان الہام علیوف سے اظہارِ تشکر
  • پاکستان اور بھارت کے درمیان خونریزجھڑپوں میں ڈرونز کے استعمال نے خطے میں روایتی جنگ کے تصور کو بدل دیا ہے .ماہرین
  • وزیراعظم نے ایران کے سپریم لیڈر سے ملاقات,پاک بھارت کشیدگی اور مختلف امور پر تبادلہ خیال
  • وزیراعظم کی ایرانی قیادت سے ملاقاتیں، پاک بھارت کشیدگی کے دوران حمایت پر شکریہ ادا کیا
  • بھارتی کشیدگی کے دوران حمایت پر اظہار تشکر کیلیے وزیراعظم آج 4 ممالک کے دورے پر روانہ ہوں گے
  • چین کا پاکستان سے غیر متزلزل اتحاد، بھارت کے خلاف عسکری کشیدگی پر واضح پیغام
  •  استنبول کے محل میں وزیراعظم شہباز شریف کی ترک صدر طیب اردوان سے اہم  ملاقات