Daily Ausaf:
2025-07-28@02:00:01 GMT

دو ہمسائے، دو راستے، امن یا تصادم

اشاعت کی تاریخ: 7th, May 2025 GMT

جنوبی ایشیاء کے دو اہم ممالک، پاکستان اور بھارت، اپنے قیام سے ہی باہمی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ ان کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی نہ صرف ان دو ممالک کے عوام کی ترقی میں رکاوٹ بنی ہے بلکہ پورے خطے کے امن، استحکام اور اقتصادی خوشحالی کے لیے بھی ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ قیامِ پاکستان سے لےکرموجودہ دور تک، دونوں ممالک کے تعلقات میں کئی بار بہتری کی امید پیدا ہوئی، لیکن ہربار یہ امیدیں یا تو جنگ کی دھول میں گم ہو گئیں یا سفارتی تنازعات میں تحلیل ہو گئیں۔پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی پیچیدگیوں کی جڑیں 1947ء کی تقسیم ہند میں پیوست ہیں۔ تقسیم کے بعد پہلا بڑا تنازعہ کشمیر کے مسئلے پر سامنے آیا۔ 1948ء، 1965ء، اور 1999ء میں دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں۔ 1971ء کی جنگ نے تو پاکستان کے ایک بازو کو علیحدہ کر کے بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر نیاملک بنوا دیا۔کشمیر کا مسئلہ آج بھی دونوں ممالک کے درمیان بنیادی تنازعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت کا موقف ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، جبکہ پاکستان کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے، جس کی بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادیں ہیں۔ اس تنازعے نے دونوں ممالک کے درمیان مسلسل دشمنی، فوجی دوڑ، اور سفارتی محاذ آرائی کو جنم دیا ہے۔
سفارتی تعلقات اور سرحدی جھڑپیں پاکستان اوربھارت کے درمیان کشیدگی صرف میدانِ جنگ یا سرحدی جھڑپوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ سفارتی سطح پر بھی یہ تعلقات اکثر نچلی سطح پر آجاتے ہیں۔ سفیروں کی ملک بدری، مذاکرات کی معطلی اور بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنا معمول بن چکا ہے۔پلوامہ حملے (فروری 2019ء) کے بعد بھارت نے بالاکوٹ میں فضائی حملےکیے، جس کے جواب میں پاکستان نے بھی بھارتی طیارہ مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو حراست میں لےکر بعد میں خیرسگالی کے طور پر واپس کر دیا۔ یہ واقعہ نہ صرف جنگ کے خطرے کو ہوا دے رہا تھا بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی تصادم کے امکانات کو بھی بڑھا رہا تھا۔پاکستان اور بھارت کے میڈیا نے اکثر کشیدگی کو کم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کیا ہے۔ جذباتی اور جانبدار رپورٹنگ نے عوام میں نفرت کو ہوا دی اور سیاسی مقاصد کے لیےمخالف ملک کو دشمن بنا کر پیش کیا گیا۔ دونوں ممالک کےٹی وی چینلز اور اخبارات اکثر حب الوطنی کے نام پر پروپیگنڈہ کرتے ہیں، جس سے عوامی شعور متاثر ہوتا ہے اور تنازعے کےحل کی راہ مزیددشوار ہو جاتی ہے۔اس کشیدگی کا سب سے بڑا نقصان دونوں ممالک کے عوام کو پہنچا ہے۔ اگر ہم دفاعی اخراجات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک اپنی آمدنی کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی خریداری اور دفاعی تیاریوں پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ وسائل اگر تعلیم، صحت، اور بنیادی ڈھانچے پر خرچ کئے جائیں تو کروڑوں لوگوں کی زندگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔کشیدگی کی وجہ سے باہمی تجارت بھی محدود ہوچکی ہےحالانکہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کی بے پناہ گنجائش موجود ہے۔ مشترکہ منصوبے، تجارتی راستے، اور سیاحتی ترقی پورے خطے کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔کشمیر کا تنازعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو آرٹیکل 370 کو منسوخ کر کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی،جس پر پاکستان نےشدید ردعمل دیا۔ اس اقدام کےبعد سے دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے اور لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں معمول بن گئیں۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے اس تنازعے کےحل کے لیے کئی بار اپیل کر چکے ہیں لیکن دونوں ممالک کی پالیسیوں میں لچک نہ ہونےکیوجہ سے بات چیت آگے نہیں بڑھ سکی۔2025 ء میں بھی پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں نمایاں بہتری نظر نہیں آ رہی۔ اگرچہ کچھ مواقع پر خفیہ سفارت کاری یا بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے حالات میں نرمی پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن یہ طویل مدتی حل فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ سرحدوں پر کبھی سکون ہوتا ہے تو کبھی اچانک فائرنگ یا حملوں کی خبریں آ جاتی ہیں۔ کشمیر میں بھارتی اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پاکستان کی آواز بلند رہتی ہے جبکہ بھارت اسے اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔پاکستان اور بھارت کے لیے اب وقت آ چکا ہے کہ وہ کشیدگی اور دشمنی کے اس چکر سےباہرنکل کر امن، ترقی، اورباہمی احترام کی راہ اپنائیں۔ جنگ کسی مسئلے کاحل نہیں اور دونوں ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی ہر کشیدگی کو عالمی خطرہ بناتی ہے۔دونوں ممالک کو کشمیر سمیت تمام متنازعہ مسائل پر سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔ویزہ پالیسی میں نرمی، ثقافتی تبادلے اور عوامی سطح پر روابط بڑھانے سے ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کر کے مشترکہ اقتصادی منصوبے دونوں ممالک کو قریب لا سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو اس معاملے میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ دونوں ممالک پر دباؤ ہو کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔
پاکستان اور بھارت کی کشیدگی ایک پیچیدہ اورحساس معاملہ ہے، لیکن اس کا حل ممکن ہے اگر دونوں ممالک صبر، برداشت اور عقل مندی کا مظاہرہ کریں ۔ دشمنی سے حاصل کچھ نہیں ہوتا، جبکہ امن کی راہ پر چل کر دونوں ممالک نہ صرف اپنے عوام کو خوشحال بنا سکتے ہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیاء کو ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ جذباتی ردعمل کے بجائےدانشمندی سےکام لیں اور باہمی احترام کو فروغ دیں ۔ اگر دونوں ممالک اپنے عوام کے بہتر مستقبل کو مقدم رکھیں تو دشمنی کے بجائے دوستی کا راستہ اپنایاجاسکتا ہے اور میڈیا اور سیاسی رہنمائوں کو بھی چاہیے کہ وہ نفرت انگیز بیانات سے گریز کریں اور امن کے فروغ میں مثبت کردار ادا کریں اور ایسے حالات میں میڈیا کو جنگی جنون کے بجائے امن کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان پاکستان اور بھارت کے کہ دونوں ممالک کے تعلقات سکتے ہیں کی راہ کے لیے

پڑھیں:

ویڈیو: گوگل میپ کے دکھائے راستے پر جانے والی گاڑی نالے میں جاگری

بھارت کے شہر ممبئی میں گوگل میپ کی غلط رہنمائی کے باعث ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا، جہاں ایک خاتون ڈرائیور اپنی گاڑی سمیت نالے میں جاگری۔ خوش قسمتی سے خاتون کو محفوظ طریقے سے ریسکیو کرلیا گیا۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ واقعہ بیلاپور کے علاقے میں پیش آیا، جب متاثرہ خاتون نے گوگل میپ پر انحصار کرتے ہوئے راستہ منتخب کیا۔ نقشے نے بے بریج (Bay Bridge) کے نیچے کا راستہ دکھایا، جبکہ اصل راستہ پل کے اوپر سے جاتا تھا۔ غلط رہنمائی کے نتیجے میں گاڑی نالے میں جاگری۔

یہ بھی پڑھیے گوگل میپ نے پھر دھوکا دیدیا، نیپال جانے والے سائیکلسٹ بھارت میں بھٹک گئے

عینی شاہدین کے مطابق، حادثے کے فوری بعد وہاں موجود شہریوں اور ریسکیو ٹیم نے فوری کارروائی کرتے ہوئے خاتون کو نالے سے بحفاظت نکالا، جس کے بعد کرین کی مدد سے گاڑی کو بھی باہر نکال لیا گیا۔

#FLASH: Around 1 AM, a woman’s car plunged into a creek after Google Maps directed her to a dead-end near Belapur.

Nearby coastal security personnel rushed to rescue the woman from the submerged vehicle.

@MumbaiPolice @MahaCyber1 @road_lovers @IndAutoJourno @googlemaps… pic.twitter.com/yjnQCimliO

— The New Indian (@TheNewIndian_in) July 26, 2025

گوگل میپ پر اندھا اعتماد خطرناک ثابت ہو رہا ہے

یہ واقعہ گوگل میپ پر اندھا اعتماد کرنے سے پیش آنے والے خطرات کا ایک اور افسوسناک ثبوت ہے۔ اس سے قبل بھی بھارت میں کئی شہری ایسے حادثات کا شکار ہوچکے ہیں۔

نومبر 2023 میں بھی اسی نوعیت کا ایک ہولناک واقعہ پیش آیا تھا، جب ایک گاڑی گوگل میپ کے بتائے گئے راستے پر سفر کرتے ہوئے ایک زیر تعمیر پل سے نیچے جاگری، جس کے نتیجے میں 3 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

یہ بھی پڑھیے بھارت میں گوگل میپ نے 3 افراد کی جان لے لی

ماہرین اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے ایک بار پھر گوگل میپ پر اندھا اعتماد نہ کرنے، خاص طور پر اجنبی یا پیچیدہ علاقوں میں، مقامی نشان دہی اور ہوشیاری کے ساتھ سفر کرنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت حادثہ گوگل میپ ممبئی

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور اماارات کے درمیان سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ پر ویزا چھوٹ پر اتفاق؛ اسحاق ڈار
  • چین اور امریکا دونوں میں سے کسی کے بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہتے، اسحاق ڈار
  • تھائی لینڈ اور کمبوڈیاجنگ میں چینی کردار
  • تھائی لینڈ-کمبوڈیا جنگ نے پاک بھارت کشیدگی یاد دلا دی، امریکی صدر ٹرمپ 
  • ویڈیو: گوگل میپ کے دکھائے راستے پر جانے والی گاڑی نالے میں جاگری
  • ایشیا کپ کے شیڈول کا اعلان، ہائی وولٹیج پاک بھارت ٹاکراکب ہوگا؟
  • سعودی سفیر کی ملاقات، باہمی تعلقات کو وسعت دینا دونوں ممالک کیلئے مفید: صدر 
  • جنگ بندی کیسے ہوئی؟ کس نے پہل کی؟مودی سرکار کی پارلیمنٹ میں آئیں بائیں شائیں
  • اسحاق ڈار اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے درمیان اہم ملاقات، دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال
  • پاکستان نے افغان طالبان کو تسلیم کرنے کی خبروں کو قیاس آرائی قرار دے کر مسترد کر دیا