’ہم نے اسٹار بنایا اور یہ انڈیا کے ساتھ کھڑے ہیں‘، نادیہ خان پاکستانی اسٹارز پر برس پڑیں
اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT
اداکارہ و ٹی وی میزبان نادیہ خان پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے وقت پاکستانی اسٹارز کی خاموشی پر برہم ہو گئیں اور ان کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔
نادیہ خان نے پاکستانی شوبز شخصیات اور معروف یوٹیوبرز کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ بھارت ہمارے ملک پر حملے کر رہا ہے لیکن ان بے شرم لوگوں کو اپنے فالوورز کی پڑی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شوبز شخصیات کو فکر ہو رہی ہے کہ ان کے ڈرامے بھارت میں بند کردیے جائیں گے ان کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہماری افواج سرحدوں پر ہماری حفاظت کے لیے مامور ہے وہ ہماری آنے والی نسلوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور ہم ان کے ہی خلاف بولتے ہیں۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ آرٹسٹ اور یوٹیوبرز کی باہر سنی جاتی ہے لیکن وہ خاموش ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان کو اسٹارز بنایا لیکن ان کو اپنی فین فالوونگ کی پڑی ہوئی ہے اور وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں کہ ہمارے ڈرامے بند ہو جائیں گے اور ہمارے ویوز نہیں آئیں گے۔
انہوں نے ٹک ٹاکر جنت مرزا کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ جب صحافی نے ان سے پاکستان اور انڈیا کی کشیدہ صورتحال پر سوال کیا تو ان کے لیے دو لفنظ بولنا بھی بھاری تھا اور کہہ رہی تھیں کہ میں کچھ نہیں بول سکتی۔ نادیہ خان نے کہا کہ ایسے لوگوں کو ان فالو کر دینا چاہیے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی نادیہ خان نے فواد خان، ہانیہ عامر اور دیگر اداکاروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی شوبز شخصیات نے پہلگام میں ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہیں لیکن کبھی انہوں نے فلسطین کے لیے آواز نہیں اٹھائی اور نہ ہی بھارتی حکومت کی جارحیت پر بولتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک بھارت جنگ پہلگام حملہ فواد خان نادیہ خان ہانیہ عامر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک بھارت جنگ پہلگام حملہ فواد خان نادیہ خان ہانیہ عامر نادیہ خان کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
عطیہ زُہیر نے اپنا کپڑوں کا آن لائن اسٹور کیسے بنایا؟
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 جون2025ء) یہ کسی دکان یا فوٹو شوٹ سے شروع نہیں ہوا۔ یہ کوئی تفصیلی مارکیٹنگ مہم بھی نہیں تھی۔ بس خاندانی ورثہ رکھنے والی ایک نوجوان عورت ، ایک اسمارٹ فون، اور تعمیر نو کا عزم۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں اسکرینز کے استعمال کا غلبہ بڑھ رہا ہے، عطیہ زہیر نے اپنی دکان کسی ہائی اسٹریٹ پر نہیں، بلکہ ٹک ٹاک پر تلاش کی۔کچے دھاگے"، جو کبھی ملبوسات کے لیے اُن کا خاندانی برانڈ تھا، وقت گزرنےکے ساتھ خاموشی سے ماند پڑ گیا تھا۔ لیکن عطیہ نے اسے ترک کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ روایتی طریقوں مثلاً ویب سائٹس یا بوتیکس کے ذریعے دوبارہ متعارف کرانے کے بجائے، انہوں نے ایک زیادہ فوری اور موثر راستہ اپنایا: مختصر کہانی سنانے کا فن۔
(جاری ہے)
عطیہ کہتی ہیں، ”میں نے ہر چیز، اپنی جدوجہد، پردے کے پیچھے کے لمحات، اور روزمرہ کے کام کو دستاویزی شکل دینا شروع کی۔
عطیہ کے لیے، ٹک ٹاک ایک پلیٹ فارم سے بڑھ کر تھا۔ ایک ایسا موقع،اورخاص طور پر، ایک ایسے ملک میں جہاں سماجی روایات خواتین کی عوامی منظرنامے میں موجودگی کو محدود کر سکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ”یہ ایک بہترین موقع ہے، خاص طور پر اُن لڑکیوں کے لیے جو باہر جا کر کام نہیں کر سکتیں۔ میں اُن سے کہتی ہوں کہ اپنا ہنر ضائع نہ کریں، اسے شیئر کریں۔ لوگ توجہ دیں گیں۔“
اور واقعی ایساہی ہوا۔ جب وہ اپنی ایک کلیکشن کے لیے کپڑا خرید رہی تھیں، ایک دکاندار نے گفتگو کے دوران رک کر پوچھا، ”آپ کچے دھاگے سے تعلق رکھتی ہیں نا؟“ وہ یاد کرتی ہیں، ”مجھے یہ سن کرحیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ تب مجھے احساس بھی ہوا کہ یہ پلیٹ فارم کتنا طاقتور ہے—لوگ واقعی دیکھتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں۔“
ایسے لمحات نے ان کے عزم کو مزید مضبوط کیا۔ وہ کہتی ہیں، ”میں نے خود سے وعدہ کیا کہ میں ہار نہیں مانوں گی۔ میں محنت جاری رکھوں گی اور اُن باصلاحیت لڑکیوں کے لیے آگاہی کا باعث بنوں گی جنہیں شاید ایسے مواقع میسر نہ ہو۔“
یہ حکمت عملی محض نظر آنے کے بارے میں نہیں تھی، بلکہ اس نظر آنے کو وفاداری میں بدلنے کے بارے میں تھی۔ عطیہ کہتی ہیں، ”لوگ اکثر میرے پاس آ کر کہتے ہیں، ’میں نے آپ کو ٹک ٹاک پر دیکھا ہے۔‘ یہ میرے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔“ یہ قدرتی تعاملات عام ناظرین کو مستقل گاہکوں میں، اور فالورزکو برانڈ کے حامیوں میں بدلنے میں مددگار ثابت ہوئے۔“
کیمرے کے پیچھے، سب کچھ ہمیشہ آسان نہیں رہا۔ ایک دوبارہ بحال کیے گئے برانڈ کو سنبھالنا، اور ساتھ ہی مارکیٹر، ڈیزائنر، اور کہانی سنانے والے کے کردارکو نبھانا، محنت طلب کام ہے۔ وہ کہتی ہیں، ”سب کچھ سنبھالنا مشکل ہے، لیکن اپنے خاندان کی حمایت سے، میں اسے ممکن بناتی ہوں۔“
”کچے دھاگے“ محض ایک برانڈ نہیں، بلکہ ماضی اور حال کو جوڑنے والا ایک دھاگا ہے۔ عطیہ وضاحت کرتی ہیں، ”یہ میرا خاندانی کاروبار تھا۔ میں نے اسے اپنی بصیرت کے ساتھ دوبارہ زندہ اورروایات کو نئے انداز سے جوڑا ہے۔“ یہ ذاتی وابستگی ہی ہے جو ان کے آڈئینس کے ساتھ گہری ہم آہنگی پیدا کرتی ہے۔“
چھوٹے کاروباری مالکان جو ٹک ٹاک کو ممکنہ چینل کے طور پر دیکھ رہے ہیں، ان کے لیے عطیہ کا مشورہ تجربےپر مبنی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ”اپنی حقیقی کہانی دکھانے سے نہ گھبرائیں۔ ٹک ٹاک صرف تفریح کے لیے نہیں، اگر آپ مخلص اورمحنتی ہیں، تو یہ آپ کے کاروبار کو اگلے درجے تک لے جا سکتا ہے۔“
مستقبل کی جانب دیکھتے ہوئے، عطیہ اس رفتار کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ”میں اپنے کنٹنٹ کو مزید بڑھانا چاہتی ہوں اور کچے دھاگے کو نئی بلندیوں تک لے جانا چاہتی ہوں۔“
ایک جانب ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے اکثر محض تفریحی مشغولیت سمجھا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایک نوجوان کاروباری شخصیت ہے جس نے اسے ایک ورثے میں نئی جان ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ اور ان دونوں کے درمیان کہانیاں، جدوجہد، اور کامیابیاں بُنی گئی ہیں—جو ایک پوسٹ کے ذریعے پروان چڑھیں۔