کچے کے ڈاکو! پکے ہو گئے
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251031-03-5
راشد منان
کیونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن کے ہمارے ملک کے جاگیر داروں اور وڈیروں سے تعلقات ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کی رسائی اپنے اپنے علاقوں کی پولیس، اسپیشل پولیس سادہ یا باوردی عام کانسٹیبل سے لیکر تھانوں کے اعلیٰ افسران اور ایس ایچ اوز تک بلا کسی روک ٹوک اور بہت حد تک دوستانہ بلکہ ہم پیالہ و ہم نوالہ قائم ہیں اور ہماری سیکورٹی کے یہی لوگ ان ڈاکوئوں کے مخبر اور سہولت کار بھی ہیں اور یہ بے تکلف دوستانہ ہی ان ڈاکوئوں کی بقاء کا راز بھی ہے کیونکہ کسی بھی ایکشن سے پہلے ہی ان ڈاکوئوں تک وہ خبر پہنچا دی جاتی ہے جس کے باعث آج تک ان کا قلع قمع نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی آئندہ ایسی کوئی توقع ہے کیونکہ ان کے تعلقات ہماری سیکورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ ہمارے ایوان زیریں اور بالا دونوں کے ارکان سے بھی خاص نوعیت کے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ یہ یا ان کی اولادیں خود بھی ہمارے ایوانوں میں بہ نفس نفیس موجود ہیں۔ ڈاکے تو کچے میں موجود ان کے اہلکار مارتے ہیں اور پیچھے کلف زدہ کپڑوں، ویسٹ کوٹ، دستار اور ٹوپیوں میں ملبوس معززین شہر، سردار اور وڈیروں کی ایک بڑی تعداد ان کی پشتیبانی اور مدد کے لیے موجود رہتی ہے یہی لوگ ان کے محافظ بھی ہیں اندرون سندھ اور پنجاب میں پھیلے پیری مریدی کے وسیع سلسلے سے بھی یہ ڈاکو خوب فیض اٹھاتے ہیں۔ ان جعلی سیدوں، پیروں، معززین شہر، اعلیٰ سرکاری افسران اور کوتوال کے توسط سے کچھ اغوا کنندگان تاوان کے بعد رہا ہو جاتے ہیں جبکہ ہمارے ملک کا غریب طبقہ گاؤں دیہات اور قصبوں میں بسنے والوں کی ایک بڑی تعداد پھر بھی بغیر اغوا ہوئے ان کو تاوان ادا کرنے کے پابند ہیں بصورت دیگر وہ اور ان کی نسلوں کو تا زندگی ان کی غلامی کرنا پڑتی ہے ان ڈاکوئوں کے اپنے قوانین اور اپنے ضابطے ہیں اور ان کی نجی جیلیں بھی ہیں جن میں ان کے ظلم تشدد اور بے رحمی کی ایک بڑی داستان زبان زد عام ہے۔
کیا یہ عجیب بات میری دلیل نہیں کہ گزشتہ، حالیہ اور ہمیشہ کے شدید مون سون بارشوں کے نتیجے میں آئے سیلاب کی وجہ سے کچے کے سارے علاقے تو ڈوب جاتے ہیں علاقے کے غریب کسان ہاری اور دیگر مظلوم طبقہ نقل مکانی پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں پھر بھی محفوظ رہتی ہیں کیونکہ اصل میں یہ ڈاکو ان علاقوں کی مکین اور رہائشی سرے سے ہیں ہی نہیں وہ ہر وقت ہمارے آس پاس اور ہمارے ہی علاقوں میں رہائش پذیر رہتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ شعلے فلم کا گبر سنگھ اور پاکستانی فلموں کا سلطانہ ڈاکو کسی جنگل کی کھو یا غار میں رہتے ہوں۔ ان کی کوٹھیاں ہمارے پوش علاقوں میں موجود ہیں اور گھوڑوں کی جگہ یہ لوگ آج کل ویگو ڈالا استعمال کرتے ہیں۔
عام اصطلاح میں کچے کے ڈاکو سندھ اور پنجاب کے دریائی پٹی میں سرگرم ایک مجرم گروہ ہے وہ اغوا، بھتا خوری اور قتل سمیت اپنی پرتشدد سرگرمیوں کے لیے مشہور ہیں کچھ عرصہ پہلے تک تو ان ڈاکوئوں کی کارروائیاں کافی حد تک مخفی رہتی تھیں لیکن اب یہ ڈاکو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی خوب مارکیٹنگ کرتے ہیں اغوا شدہ شخص کو رسیوں اور آہنی زنجیروں میں جکڑ کر اور ان پر براہ راست تشدد کی لائیو کوریج کر کے وہ اپنے سہولت کاروں کے ذریعے اپنا پورا حصہ وصول کر لیتے ہیں اور بہتے خون اور پر تشدد کارروائی پر مبنی آمدنی سے ہر دو جانب پانچوں انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں غوطہ زن رہتی ہیں۔
یہی نہیں اب تو ان کی شورشیں اس حد تک بڑھ گئیں ہیں کہ گزشتہ کئی ماہ سے ان کی لوٹ مار کے پیش نظر سکھر ملتان موٹر وے کو رات میں نو گو ایریا قرار دیتے ہوئے گاڑیوں کو ہائی وے پولیس سیکورٹی کے ساتھ آگے روانہ کیا جاتا ہے اور بقول ہائی وے پولیس M 5 پر تقریباً 25 کلو میٹر علاقے کو غیر محفوظ قرار دے دیا گیا ہے ان بڑھتی وارداتوں کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ستمبر کی پانچ کو صادق آباد کی تحصیل نواز آباد میں تنویر اندھر گروہ نے M 5 پر متعدد گاڑیاں روک کر دس افراد کو اغوا کر لیا اور جن کی رہائی کے لیے تاوان کی خطیر رقم کا مطالبہ کیا معاملات کس طرح اور کتنی رقم کے عوض حل ہوئے راقم کو اس کا کوئی علم نہیں لیکن یہ میری کہی تمام باتوں کی سچائی کا ثبوت ہے کے کچے کے ڈاکو! اب کچے نہیں پکے ہوگئے ہیں ان کی طاقت اور تکنیک میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے جو ظاہر ہے کے ان کے پشتیبانوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
گزشتہ منگل یعنی اکیس اکتوبر 25 کو محکمہ داخلہ نے لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں ان ڈاکوئوں کو سر نگوں کرنے کے بجائے خود کو ان ڈاکوئوں کے آگے سرینڈر کرنے کی پالیسی اپناتے ہوئے یہ بیان دیا کے سندھ حکومت کی اس پالیسی کی بناء پر ان علاقوں میں ڈاکے اور اغوا برائے تاوان اور لاقانونیت کی بڑھتی وارداتوں میں کمی آئیگی محکمہ داخلہ کا ماننا ہے کہ ان کی اس پالیسی سے بہت سارے ڈاکو ہتھیار ڈال کر سماجی دھارے میں شامل ہو جائیں گے اور اچھے بچے بن کر اپنی بقیہ زندگی گزاریں گے، اس اعلان کے فوراً بعد ہی شکار پور پولیس لائنز میں 70 سے 72 کے قریب ان افراد کو جن کا دور دور تک ان واقعات سے کوئی تعلق تھا یا نہیں بھی تھا ڈاکو بنا کر سماج کے سامنے پیش کر دیا گیا کیونکہ اس طرح کے تمام کام ہمارے زندہ باد پاکستان میں بالکل ممکن ہیں۔
تصویر کے اس رُخ کے بعد دیکھیے اب تصویر کا دوسرا رُخ ہمارے یہی سیکورٹی ادارے اپنا مطلب حاصل کرنے میں کس قدر ماہر ہیں کہ جب ان کا دل کرے ملزم مجرم بن کر حوالہ زندان اور مجرم معصوم بن کر اپنی زہر آلود مسکراہٹ کے ساتھ معاشرے کا ایک معزز شخص بن جاتا ہے۔ دہائیوں سے کراچی کے سپر ہائی وے پر موجود افغان بستی جو اس شہر میں بدامنی چوری چکاری اور لوٹ مار کا سبب تھی اور عوام کے بار بار مطالبے کے باوجود اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا سکی تھی جب حکم ہوا گھنٹوں میں خالی کرا لی گئی اس لیے کے یہاں کے مکین ابھی اپنی وارداتوں میں کچے کے ڈاکوئوں کی طرح پکے نہیں ہوئے تھے یا پھر ان کے پیچھے ان کے وہ پشتیبانی موجود نہیں تھی جو کچے کے ڈاکوئوں کو حاصل ہے۔
شنید ہے کے مذکورہ افغان بستیوں میں سندھ کے متاثرہ سیلاب زدگان کو آباد کیا جائے گا جس کی کچھ خبریں سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہیں یہ بات اہلیان کراچی کو پھر سے کسی بے چینی اور بدامنی میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے لہٰذا اہلیان کراچی کا شد و مد کے ساتھ یہ مطالبہ ہے کہ ان خالی بستیوں کی دوبارہ آباد کاری سے اجتناب برتا جائے اور یہ بستیاں کسی بھی بلڈرز مافیا کے حوالے کرنے کے بجائے ان زمینوں کو اہلیان کراچی کے لیے سیر و تفریح کے پارک سرکاری فارم ہائوسز اور کھیل کے میدانوں اور قبرستانوں کے لیے مختص کیا جائے پچھلے کئی دہائیوں سے کراچی کی آبادی میں جس قدر اِضافہ ہوا ہے اس تناسب سے نئے گورستان اہلیان کراچی کی ضرورت ہیں کیونکہ شہر بھر میں موجود قبرستانوں میں اپنے مردوں کے دفن کے لیے منہ مانگی قیمت کی ادائیگی پر راضی لوگوں کو بھی کوئی جگہ نہیں ملتی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کچے کے ڈاکو ان ڈاکوئوں کے ساتھ کرنے کے ہیں اور کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
سب انسپکٹر کی ڈاکو کے ساتھ مل کر ڈکیتی کی واردات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی
لاہور:پولیس نے ڈاکو علی رضا کو گرفتار کر کے اس سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر سب انسپکٹر عمار کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔
دونوں ملزمان نے مل کر شاہدرہ کے علاقے میں ڈکیتی کی واردات کی تھی جس کی تفتیش کے دوران پولیس نے اہم شواہد حاصل کیے۔
پولیس ٹیم نے ڈکیتی کی واردات کے حوالے سے تحقیقات شروع کیں اور 8 کلومیٹر کے علاقے میں 2500 کیمروں کو چیک کیا۔
کیمروں کی چیکنگ کے بعد پولیس کو شاہدرہ کے علاقے لاجپت روڈ پر پہنچ کر ڈاکو علی رضا کی شناخت ہوئی، جس کے بعد اسے گرفتار کیا گیا۔
دوران تفتیش علی رضا نے انکشاف کیا کہ اس کے ساتھ واردات کرنے والا دوسرا ملزم سب انسپکٹر عمار ہے جو پولیس میں ملازمت کے دوران ڈاکوؤں کے ساتھ مل کر وارداتوں میں ملوث تھا۔
علی رضا نے پولیس کو بتایا کہ عمار نے اسے کراچی اور پھر عراق جانے کا مشورہ دیا تھا اور اپنے موبائل نمبر اور سم کو تبدیل کرنے کی ہدایت بھی کی تھی۔
پولیس افسران نے علی رضا کی عمار کو کی گئی کال کو سن لیا، جس میں علی رضا نے عمار کو ڈکیتی کے حوالے سے مزید معلومات لینے کے لیے تھانہ شاہدرہ آنے کا کہا۔ اس کال کے بعد پولیس نے فوری طور پر عمار کو گرفتار کر لیا۔
دونوں ملزمان کو سی سی ڈی (کریم انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ) کے حوالے کر دیا گیا ہے اور ان سے مزید تفتیش جاری ہے۔
 پی آئی اے کا برطانیہ کے لیے فضائی آپریشن 5 سال بعد بحال، مانچسٹر کے لیے پہلی پرواز روانہ
پی آئی اے کا برطانیہ کے لیے فضائی آپریشن 5 سال بعد بحال، مانچسٹر کے لیے پہلی پرواز روانہ