UrduPoint:
2025-06-23@03:18:21 GMT

امارات گروپ کو مسلسل تیسرے سال بھی ریکارڈ منافع

اشاعت کی تاریخ: 8th, May 2025 GMT

امارات گروپ کو مسلسل تیسرے سال بھی ریکارڈ منافع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 مئی 2025ء) دبئی کے امارات گروپ نے اعلان کیا ہے کہ اسے مسلسل تیسرے سال ریکارڈ کاروباری منافع ہوا ہے۔ امارات گروپ کے چیئرمین شیخ احمد بن سعید آل مکتوم نے جمعرات آٹھ مئی کے روز ایک بیان میں کہا، ''ایمریٹس گروپ نے منافع، آمدنی اور نقد اثاثوں کے حوالے سے نئے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے معیار مزید بلند کر دیا ہے۔

‘‘

اس بیان کے مطابق امارات گروپ نے طیاروں، انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی میں 3.

8 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تاکہ وہ ترقی اور کامیابی کے راستوں پر گامزن رہے۔

اسی دوران اس بزنس گروپ کے ملازمین کی تعداد نو فیصد اضافے کے ساتھ اب ایک لاکھ اکیس ہزار سے زائد ہو گئی ہے، جو کہ اس کی تاریخ کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

(جاری ہے)

نئے جہازوں کا انتظار ہے، امارات گروپ

امارات گروپ کی دیگر کاروباری شاخوں کے علاوہ ایمریٹس ایئرلائنز نے 5.8 بلین ڈالر قبل از ٹیکس منافع کمایا، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 20 فیصد زیادہ ہے۔

اب اس گروپ کی آمدنی چھ فیصد اضافے کے ساتھ 34.9 بلین ڈالر تک جا پہنچی ہے۔

متحدہ عرب امارات میں ریاستی ملکیت میں کام کرنے والی امارات ایئر لائن دنیا کی بہترین ہوائی کمپنیوں میں شمار کی جاتی ہے۔

امارات گروپ کے بیان کے مطابق وہ اپنے لیے 314 نئے مسافر طیاروں کی ڈیلیوری کا منتظر ہے، جن میں اکسٹھ A350 اور دو سو پانچ بوئنگ 777 بھی شامل ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ یہ بزنس گروپ پانچ بلین ڈالر کی لاگت سے 219 طیاروں کی ریٹروفٹنگ (انہیں جدید ترین سہولیات سے آراستہ کرنے) کا کام بھی کر رہا ہے تاکہ نئے طیاروں کی آمد تک اس گروپ کے کاروبار اور خدمات کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھا جا سکے۔

ادارت: مقبول ملک

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امارات گروپ بلین ڈالر گروپ کے

پڑھیں:

چینی کا بحران: سیاسی منافع خوروں کا کھیل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان میں چینی کا بحران کوئی نئی بات نہیں۔ ہر چند ماہ بعد قیمتوں میں اچانک اضافہ، قلت کا شور، اور پھر امپورٹ کے اعلانات کا سلسلہ، یہ سب ایک پرانے اسکرپٹ کا حصہ لگتا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف مخصوص گروہوں کو فائدہ پہنچانا ہے، جبکہ اس کا خمیازہ عام شہری بھگتتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں چینی کی قیمت رمضان کے دوران 140 روپے فی کلو سے بڑھتے بڑھتے 180 روپے تک جا پہنچی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران چینی کی اوسط قیمت میں 3 روپے 77 پیسے فی کلو کا اضافہ ہوا، ملک میں چینی کی اوسط قیمت 180 روپے 93 پیسے فی کلو ہے اورگزشتہ ہفتے تک چینی کی اوسط قیمت 177 روپے 16 پیسے فی کلو تھی، ایک سال قبل ملک میں چینی کی اوسط قیمت 143 روپے 38 پیسے فی کلو تھی۔ اس بحران کو قابو میں لانے کے لیے حکومت نے 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو وقتی ریلیف ضرور ہو سکتا ہے، لیکن بحران کی جڑیں کہیں گہری اور منظم ہیں۔ پاکستان میں اس وقت 80 شوگر ملیں موجود ہیں، جن میں سے تقریباً 50 فی صد پنجاب، 11 فی صد سندھ اور 9 فی صد خیبر پختون خوا میں واقع ہیں۔ ان ملوں کی مجموعی سالانہ پیداواری استعداد 67 ملین ٹن ہے۔ اتنی بڑی صنعت کے باوجود پاکستان آج بھی چینی کی طلب و رسد کے بحران سے دوچار ہے، جو کہ نہ صرف اقتصادی ناکامی کی علامت ہے بلکہ ایک مافیا کی موجودگی کا پتا بھی دیتا ہے جو ملکی معیشت اور عوامی مفاد کو یرغمال بنائے بیٹھا ہے۔ ماضی میں 2009، 2017 اور 2020 جیسے برسوں میں بھی چینی کے مصنوعی بحران سامنے آ چکے ہیں۔ 2020 کی شوگر انکوائری کمیشن رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا کہ قیمتوں میں ہوشربا اضافے، ذخیرہ اندوزی، سٹہ بازی اور سبسڈی کے ناجائز استعمال کے پیچھے وہی طاقتور افراد ہیں جو ملک کی سیاست، صنعت اور معیشت پر بیک وقت قابض ہیں۔ سندھ اور پنجاب کی شوگر ملز کا اگر تفصیلی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں اکثریت ان خاندانوں کی ہے جن کے نمائندے حکومتوں میں شامل رہے ہیں یا آج بھی بااثر سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب حکومت نے چینی کے ذخیرہ اندوزوں اور سٹہ بازوں کے خلاف ملک گیر کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے، جو ایک خوش آئند اور عوامی توقعات سے ہم آہنگ قدم ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر ایف آئی اے، آئی بی، ایف بی آر، اسٹیٹ بینک اور دیگر اداروں کو مکمل اختیارات دیے جا چکے ہیں۔ وزیراعظم نے بلاتفریق کارروائی کی ہدایت کی ہے تاکہ ان عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے جو مصنوعی مہنگائی کے ذمے دار ہیں۔ آئندہ دنوں میں چھاپے، گرفتاریاں اور سخت اقدامات متوقع ہیں۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا یہ کریک ڈاؤن وقتی دباؤ کے تحت ہے یا واقعی کسی دیرپا پالیسی کا حصہ؟ کیونکہ اگر ماضی کی طرح یہ کارروائیاں بھی سیاسی مصلحتوں کی نذر ہو گئیں، یا صرف چھوٹے مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا گیا تو بحران کی جڑیں مزید مضبوط ہو جائیں گی۔ چینی جیسے بنیادی غذائی آئٹم کی قیمت کو صرف ’’مارکیٹ فورسز‘‘ کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ریاستی کمزوری کی علامت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت چینی کی پیداوار، تقسیم، قیمتوں اور برآمدات پر مکمل اور مؤثر نگرانی کا نظام قائم کرے۔ شوگر ملز کی ملکیت، منافع اور اسٹاک کا ریگولر آڈٹ ہو، اور قیمتوں کا تعین کسی خودکار اور شفاف نظام کے تحت ہو۔ یہ بحران محض چینی کا نہیں، ریاستی بحران کی ایک علامت ہے۔ حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ عوام کے ساتھ کھڑی ہے یا منافع خوروں کے ساتھ۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے صرف پالیسیاں کافی نہیں، بلکہ نیت، شفافیت اور جرأت مندانہ فیصلے درکار ہیں۔ اگر اس بار حکومت نے یہ موقع ضائع کر دیا تو نہ صرف چینی کی قیمتیں مزید بڑھیں گی، بلکہ عوام کا نظام پر اعتماد بھی مزید کمزور ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • چینی کا بحران: سیاسی منافع خوروں کا کھیل
  • 80 سالہ شخص کی ایک ہفتے کی کمائی 40 بلین ڈالر، دولت مندوں میں دوسرے نمبر پر
  • اماراتی صدر کا کینیڈین وزیراعظم کے نام تحریری پیغام‘ مضبوط تعلقات پرزور
  • انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ریکارڈ
  • وزیراعظم محمد شہبازشریف کی پی این ایس سی کے بیڑے میں اضافے کے لیے لیزپربحری جہازلینے کی ہدایت
  • فلسطین حمایتی گروپ کے کارکن برطانوی ائیر فورس کے اڈے میں داخل، طیاروں کو نقصان پہنچایا
  • وزیراعظم کی پی این ایس سی کے بیڑے میں اضافے کیلئے لیز پر بحری جہاز لینے کی ہدایت
  • وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی پی این ایس سی کے بیڑے میں اضافے کے لیے لیز پر بحری جہاز لینے کی ہدایت
  • وزیراعظم کی پی این ایس سی کے بیڑے میں اضافے کیلیے بحری جہاز لینے کی ہدایت
  • وزیراعظم نے قومی خزانے پر سالانہ 4 بلین ڈالر بوجھ کے خاتمے کا جامع منصوبہ طلب کرلیا