اسلام آباد:

معروف مزاح نگار اور دانشور انور مقصود نے کہا کہ مشکل حالات میں معلوم ہوتا ہے کہ فوج کیوں ضروری ہے، ہمیں اس راہ پر چلنا چاہیے جہاں ہماری حکومت اور فوج چاہتی ہے۔

آرٹس کونسل کراچی میں کابینہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انور مقصود نے کہا کہ آج پچیس کروڑ لوگ سپاہی بن گئے ہیں، میرے پاس ہتھیار نہیں قلم کی طاقت ہے، میں اپنے پرچم کی اس طرح عزت کرتا ہوں جس طرح ہندوستان کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک آبادی اور رقبے سے پہچانے نہیں جاتے، میرے لیے پاکستان اتنا ہی بڑا ہے جتنا ایک بھارتی باشندے کے لیے بھارت ہے۔

 انہوں نے کہاکہ جنگ شروع کرنا آسان ہے مگر ختم کرنا مشکل ہے ، ہم نے پانچ جہاز گرائے اس کی خوشی کم ہے مگر معصوم بچوں کی جانوں کے ضیاع پر افسوس ہے، بھارت کا میڈیا کبھی نہیں بدل سکتا۔

انور مقصود نے کہا کہ مودی ووٹوں سے جیتے ہیں مگر شاید اس حادثے کے بعد ان کو عقل آجائے کہ میں مسلمانوں کے ساتھ ٹھیک نہیں کررہا، زمانہ بدل گیا جنگ کوئی نہیں چاہتا، ہم سب چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کریں، ہمیں اس راہ پر چلنا چاہیے جہاں ہماری حکومت اور فوج چاہتی ہے۔

معروف شاعر افتخار عارف نے وڈیو لنک پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ انسانی جانیں جہاں بھی ضائع ہوتی ہیں ہم اس کے خلاف ہیں، پہلگام میں جو بھی ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں، ہم شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ پہلگام واقعے کی تحقیقات کرائی جائیں، ابھی واقع ختم بھی نہیں ہوتا بھارت پاکستان پر الزام لگا دیتا ہے، ہم اپنی خود مختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نے کہا کہ

پڑھیں:

عالمی شہرت یافتہ ایرانی مصوری استاد محمود فرشچیان انتقال کر گئے

ایرانی شہر اصفہان میں 1930 میں پیدا ہونے والے عالمی شہرت یافتہ مصور اور نقش و نگار کے استاد محمود فرشچیان کا انتقال نیو جرسی، امریکا میں ہوا۔ ان کی عمر قریباً 95 برس تھی۔ فرشچیان کو جدید ایرانی مصوری میں انقلاب لانے والا فنکار سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے فارسی منی ایچر آرٹ کو ایک نئی روح اور جدید رنگ و روپ دے کر عالمی سطح پر ایران کی ثقافتی شناخت کو مستحکم کیا۔

فرشچیان کا بچپن اصفہان کے شاہی مسجد کے قریب گزرا، جہاں صفوی دور کی شاہکار عمارتوں نے ان کے جمالیاتی ذوق کو پروان چڑھایا۔ ان کے گھر میں درخت، چشمے، تالاب اور ڈربہ تھا، جہاں وہ مرغیاں، کوے، کبوتر اور چڑیاں پال کر ان کی خوبصورتی، رنگوں اور حرکات کو قریب سے سمجھتے تھے، جو ان کے فن پاروں میں باریکی سے جھلکتا ہے۔

ان کے والد غلام رضا قالین فروش تھے، جن کے گھر میں قدیم فرنیچر، قالین اور مذہبی پردوں کا حسن نمایاں تھا۔ والدین کی مذہبی عقیدت، خاص طور پر والدہ زہرہ کا امام زادہ اسماعیل کے مزار کی زیارت کے دوران کربلا اور عاشورہ کے مناظر کے خاکے تیار کرنا، فرشچیان کی روحانی اور فنی تربیت کا اہم جزو تھا۔ 1940 کی دہائی میں کربلا کی زیارت نے ان پر گہرا اثر چھوڑا، جس کا عکس ان کے بعد کے شاہکاروں، خاص طور پر امام حسین کے مزار کے ڈیزائن میں نمایاں ہے۔

لوحة «عصر عاشوراء» للأستاذ محمود فرشتشيان،
الرسّام الإيراني البارز، الذي رحل عن عالمنا صباح اليوم

كلّما تأملتُ لوحة السيد فرشتشيان، التي أهداني إياها قبل أعوام، اغرورقت عيناي بالدموع. فمع كل ما نعرفه من المراثي، يقدّم فرشتشيان مرثية بفرشاته تجعلنا نبكي.
الإمام الخامنئي
1/9/1993 pic.twitter.com/13mYSabwkA

— موقع الإمام الخامنئي (@site_khamenei) August 9, 2025

فرشچیان نے اصفہان کے اسکول آف فائن آرٹس سے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں یورپ کا سفر کیا جہاں مغربی فنون کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہوئے۔ ایران واپسی پر انہوں نے تہران کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ میں کام کیا اور بعد ازاں جامعہ تہران کے شعبہ فنون لطیفہ کے ڈائریکٹر اور پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

فرشچیان کے فن پارے پیچیدہ باریک کاری، روایتی فارسی منی ایچر تکنیک کے ساتھ جدید تخلیقی عناصر کے امتزاج پر مشتمل تھے۔ ان کے کام میں فارسی ادب، مذہبی روایات اور روحانی علامات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان کے شاہکار نہ صرف ایران بلکہ پیرس، نیویارک، شکاگو، ٹوکیو جیسے عالمی شہروں میں نمائش کے لیے پیش کیے گئے اور ایران کی ثقافت کی علامت سمجھے گئے۔

خصوصاً ان کی حسینیت کے موضوعات پر مبنی تخلیقات، جیسے ’دی ایوننگ آف عاشورا‘ اور ’دی اسٹینڈرڈ بیئرر آف ٹروتھ‘، وغیرہ حضرت امام حسین اور ان کے رفقا کی قربانی، درد اور استقامت کی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ فن پارے محض تصویری خاکے نہیں بلکہ ایک مقدس جگہ کی مانند ہیں جہاں غم و امید ایک ساتھ بستے ہیں۔

فرشچیان کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا، جن میں برطانیہ کی 21ویں صدی کے 2000 ممتاز دانشوروں کی فہرست میں ان کا نام شامل ہے۔ ان کی تخلیقات ایران کی قومی لائبریری اور آرکائیوز میں بھی محفوظ ہیں۔ ان کا میوزیم، محمود فرشچیان میوزیم، صدارباد محل میں قائم ہے جہاں 50 سے زائد شاہکار موجود ہیں۔

فرشچیان نے 1955 میں نیادخت قویمی سے شادی کی اور 3 بچے علی مراد، لیلیٰ اور فاطمہ ہیں۔

ان کے انتقال کی خبر نے ایران اور دنیا بھر کے ثقافتی حلقوں میں غم کی لہر دوڑا دی ہے۔ وزارت ثقافت و اسلامی رہنمائی سمیت متعدد اداروں نے ان کی خدمات کو سراہا اور کہا کہ فرشچیان نے ایرانی ثقافت، روحانیت اور فن کو عالمی شناخت دی۔

محمود فرشچیان کا فن اور ورثہ ایران کی تہذیب و ثقافت کا روشن چراغ ہے، جو آنے والی نسلوں کو بھی روشنی دیتا رہے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

Mahmoud Farshchian استاد محمود فرشچیان اصفہان جدید ایرانی مصوری حسینیت کربلا نیو جرسی، امریکا

متعلقہ مضامین

  • ہتھیار ڈالنا ہماری فطرت میں نہیں، ڈاکٹر مسعود پزشکیان
  • باجوہ کو ایکسٹینشن دینا ہماری سب سے بڑی غلطی تھی، قوم سے معافی مانگتے ہیں، اسد قیصر
  • عالمی شہرت یافتہ ایرانی مصوری استاد محمود فرشچیان انتقال کر گئے
  • اگر سیالکوٹ بیوروکریسی کی کرپشن نظر آئی ہے تومنتخب نمائندے کو چاہیے کہ خود تحقیقات کروائے: جاوید لطیف 
  • دھرتی جنگ نہیں امن چاہتی ہے
  • آزادی عنوان ہے
  • حکومت زائرین سے کئے گئے وعدوں پر فوری عملدرآمد کرے، علامہ مقصود ڈومکی
  • بھارت روسی تیل انڈین پیداوار کہہ کر باقی ملکوں کو بیچتا ہے، جنگ بندی کا کریڈٹ کیوں نہیں دیا؟ ٹرمپ مودی حکومت پر غصہ
  • 2018 کی حکومت نہیں لینی چاہیے تھی، غلطی کی، اسد قیصر
  • ویسٹ انڈیز کیخلاف سیریز میں بابراعظم کون سے بڑے ریکارڈز توڑ سکتے ہیں؟