نیشنل سٹیزنز پارٹی کی قیادت میں طلبہ کا احتجاج، عوامی لیگ پر پابندی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
نیشنل سٹیزنز پارٹی (NCP) کے رہنماؤں کی قیادت میں بدھ کی شب طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے چیف ایڈوائزر کی رہائش گاہ ’جمنا‘ کے باہر احتجاجی دھرنا دیا، جس میں عوامی لیگ پر سیاسی پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔
احتجاج کا آغاز رات 10 بجے ہوا، جس کی قیادت NCP کے جنوبی ریجن کے چیف آرگنائزر حسنات عبداللہ نے کی۔ مظاہرین نے عوامی لیگ کے رہنماؤں کے خلاف نعرے بازی کی اور ان کے خلاف عدالتی کارروائی کے مطالبات کیے۔
قبل ازیں، حسنات عبداللہ نے سوشل میڈیا پر اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے اس دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مظاہرین جمنا کے باہر اس وقت تک موجود رہیں گے جب تک عوامی لیگ پر مقدمہ چلانے، پارٹی کی رجسٹریشن منسوخ کرنے، اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی سے متعلق واضح روڈ میپ کا اعلان نہیں کیا جاتا۔
مزید پڑھیں: ڈھاکا یونیورسٹی میں شیخ حسینہ واجد سے ملتا جلتا ’فاشزم کا مجسمہ‘ نذر آتش
دوسری جانب، NCP کے کنوینر ناہید اسلام نے ایک علیحدہ فیس بک پوسٹ میں کہا کہ عوامی لیگ کی قسمت کا فیصلہ آج رات ہو جائے گا۔ انہوں نے حکمراں جماعت کے خلاف عدالتی کارروائی میں تاخیر پر مایوسی کا اظہار کیا اور الزام عائد کیا کہ اس کی رجسٹریشن ختم کرنے اور سیاسی پابندی عائد کرنے کے لیے کوئی فیصلہ کن قدم نہیں اٹھایا گیا۔
ناہید اسلام نے تمام سیاسی قوتوں، شہدا کے خاندانوں اور زخمیوں سے اپیل کی کہ وہ سڑکوں پر آئیں اور اس وقت تک احتجاج جاری رکھیں جب تک انصاف حاصل نہ ہو جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
NCP ڈھاکا ڈھاکا یونیورسٹی شیخ حسینہ عوامی لیگ نیشنل سٹیزنز پارٹی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈھاکا ڈھاکا یونیورسٹی عوامی لیگ نیشنل سٹیزنز پارٹی عوامی لیگ
پڑھیں:
چاہتے ہیں کہ اداروں اور لوگوں کے مابین فاصلے کم ہوں، سپیکر کے پی اسمبلی
بابر سلیم سواتی کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں امن و امان پر دو ماہ تک تفصیلی بحث ہوئی، صوبے میں امن و امان کی صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے، سیاسی قیادت کا واضح موقف آرہا ہے کہ آپریشن نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا حکومت نے 12 نومبر کو امن جرگہ بلانے کا اعلان کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر واضح کیا ہے کہ صوبے میں کسی بھی عسکری کاروائی کی اجازت نہیں دینگے۔ تیسری بار حکومت میں آئے ہیں، جو فیصلہ ہوگا وہ بھی ہماری مرضی سے ہوگا، صوبے کے امن و امان کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ شامل ہیں۔ ان باتوں کا اظہار اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی نے معان خصوصی اطلاعات شفیع جان، صوبائی سیکرٹری علی اصغر، جنرل سیکرٹری پشاور ریجن شیر علی، عرفان سلیم اور کامران بنگش کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اسپیکر اسمبلی بابر سلیم سواتی کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں امن و امان پر دو ماہ تک تفصیلی بحث ہوئی، صوبے میں امن و امان کی صورتحال کچھ اچھی نہیں ہے، سیاسی قیادت کا واضح موقف آرہا ہے کہ آپریشن نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ امن جرگے کے بعد کور کمانڈر کے ساتھ بیٹھیں گے، پارلیمانی سیکورٹی کمیٹی ٹی او آرز تشکیل دیکر وزیراعلیٰ کو پیش کرے گی۔ امن جرگے میں تمام سیاسی پارٹیوں کے نمائندہ افراد کے علاوہ سیاسی شخصیات کو بھی مدعو کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ صوبے میں طویل عرصے سے دہشت گردی کے خلاف آپریشنز ہورہے ہیں۔ صوبے میں ایک لاکھ 23 ہزار پولیس جبکہ وزیرستان میں دو ڈویژن فوج بھی ہے اور ہماری فوج کا دہشتگردی کے خلاف جنگ کا وسیع تجربہ ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ آخر آپریشنز میں ہمارے لوگ کیوں متاثر ہورہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کے دل بھی اس صورتحال پر دکھتے ہیں، یہ بھی اس صوبے کے باشندے ہیں۔تمام سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امن جرگہ میں تمام سیاسی قیادت کی رائے کا احترام کیا جائے گا۔کسی سیاسی شخصیت کے منہ پر ٹیپ نہیں لگائی جاسکتی ہے سب کے سامنے صورتحال رکھیں گے تب ہی وفاقی حکومت کوئی فیصلہ کرسکے گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ اداروں اور لوگوں کے مابین فاصلے کم ہوں۔ وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان کا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج امن و امان کی صورتحال ہے۔ گورنر کے پی کو بھی کمیٹی میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ 12 نومبر کو امن جرگہ میں تمام سیاسی قیادت کو دعوت دی جائے گی، پارلیمانی سیکورٹی کمیٹی خی ٹی او آرز میں تمام سیاسی قیادت کی تجاویز شامل کی جائیں گی۔