واشنگٹن (نیوزڈیسک) امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا ہے کہ پاک بھارت تنازعہ ان کا مسئلہ نہیں ، وہ اس جنگ کے بیچ میں نہیں پڑیں گے۔امریکی نائب صدر نے آج ایک انٹرویو میں کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ بنیادی طور پر ہمارا مسئلہ نہیں ہے”، حالانکہ وہ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ممالک کو کشیدگی کم کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

وینس نے فاکس نیوز کو بتایا انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا جس کا پاکستان جواب دے رہا ہے۔ ہم جو کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو تھوڑا سا کشیدگی کم کرنے کی ترغیب دینے کی کوشش کریں، لیکن ہم ایسی جنگ کے بیچ میں ملوث نہیں ہوں گے جو بنیادی طور پر ہمارا مسئلہ نہیں ہے اور جس کا امریکہ کی اسے کنٹرول کرنے کی صلاحیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

امریکی نائب صدر کا مزید کہنا تھا ” آپ جانتے ہیں، امریکہ بھارتیوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔ ہم پاکستانیوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے نہیں کہہ سکتے۔ اور اس لیے، ہم اس معاملے کو سفارتی ذرائع سے آگے بڑھاتے رہیں گے۔”

وینس نے مزید کہا “ہماری امید اور توقع یہ ہے کہ یہ ایک وسیع علاقائی جنگ یا خدانخواستہ، ایک جوہری تنازعہ میں نہیں بدلے گا۔ فی الحال، ہمیں نہیں لگتا کہ ایسا ہونے والا ہے۔”

پاک ،بھارت فضائیہ کے درمیان حالیہ تاریخ کی طویل ترین لڑائی ،دنیا بھر کی افواج کیلئے مثال بن گئی

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مسئلہ نہیں

پڑھیں:

سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے

واشنگٹن (نیوز ڈیسک )عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا ہے کہ خاندان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ڈک چینی پیر کی رات نمونیا اور دل و خون کی نالیوں کی بیماریوں کے باعث پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے سبب وفات پا گئے۔ریپبلکن رہنما — جو وائیومنگ کے سابق کانگریس مین اور وزیرِ دفاع رہ چکے تھے — اس وقت پہلے ہی واشنگٹن کی طاقتور شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے جب اُس وقت کے ٹیکساس کے گورنر جارج ڈبلیو بش نے انہیں 2000 کی صدارتی انتخابی مہم میں اپنا ساتھی اُمیدوار (رننگ میٹ) منتخب کیا تھا، جس میں بش کامیاب ہوئے تھے۔

2001 سے 2009 تک نائب صدر کی حیثیت سے، چینی نے صدارتی اختیارات کے دائرہ کار کو وسعت دینے کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ ان کا خیال تھا کہ واٹرگیٹ اسکینڈل کے بعد، جس کی وجہ سے ان کے سابق باس رچرڈ نکسن اقتدار سے محروم ہوگئے تھے، صدر کے اختیارات کمزور ہو گئے تھے۔

انہوں نےایک قومی سلامتی کی ٹیم تشکیل دے کر جو اکثر انتظامیہ کے اندر خود ایک علیحدہ طاقت کا مرکز بن جاتی تھی، نائب صدر کے دفتر کے اثر و رسوخ کو بھی بڑھایا۔

چینی 2003 میں عراق پر حملے کے پُرزور حامی تھے اور وہ بش انتظامیہ کے ان نمایاں اہلکاروں میں شامل تھے جنہوں نے عراق کے مبینہ تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ذخیرے سے لاحق خطرے کے بارے میں سخت ترین انتباہات دیے۔ تاہم، ایسے کوئی ہتھیار کبھی نہیں ملے۔

انہوں نے بش انتظامیہ کے کئی اعلیٰ عہدیداروں سے اختلافات بھی کیے، جن میں وزیرِ خارجہ کولن پاول اور کونڈولیزا رائس شامل تھے۔ ڈک چینی نے دہشت گردی کے مشتبہ افراد سے تفتیش کے لیے “بہتر یا سخت تفتیشی طریقے” — جیسے پانی میں ڈبونا (واٹر بورڈنگ) اور نیند سے محرومی — کا دفاع کیا۔

دوسری جانب، امریکی سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے انسداد دہشت گردی و انسانی حقوق سمیت کئی اداروں نے ان طریقوں کو “تشدد” قرار دیا۔

ان کی بیٹی، لِز چینی، بھی ایک بااثر ریپبلکن رکنِ پارلیمنٹ بنیں، جو ایوان نمائندگان (ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوز) کی رکن رہیں۔ تاہم، انہوں نے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالفت اور 6 جنوری 2021 کو ٹرمپ کے حامیوں کے کیپٹل پر حملے کے بعد اُن کے مواخذے کے حق میں ووٹ دینے پر اپنی نشست کھو دی۔

ان کے والد نے بھی لز کے مؤقف سے اتفاق کیا اور اعلان کیا کہ وہ 2024 کے انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کو ووٹ دیں گے۔

ڈک چینی، جو طویل عرصے سے بائیں بازو کے سخت ناقد رہے، نے کہا تھا: “ہماری قوم کی 248 سالہ تاریخ میں، کوئی بھی شخص ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ ہماری جمہوریت کے لیے خطرہ نہیں رہا۔”

چینی اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں دل کی بیماریوں میں مبتلا رہے۔ 37 سال کی عمر میں انہیں پہلا دل کا دورہ پڑا، اور 2012 میں ان کا دل کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔

عراق پر حملے کے پرزور حامی
چینی اور اُس وقت کے وزیرِ دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ — جو نِکسن وائٹ ہاؤس میں اُن کے ساتھی رہ چکے تھے — مارچ 2003 میں عراق پر حملے کے لیے دباؤ ڈالنے والی مرکزی آوازوں میں شامل تھے۔

جنگ کے آغاز سے پہلے کے عرصے میں، ڈک چینی نے یہ عندیہ دیا تھا کہ ممکن ہے عراق کا تعلق القاعدہ اور 11 ستمبر 2001 کو امریکا پر ہونے والے حملوں سے ہو۔ تاہم، 9/11 حملوں کی تحقیقاتی کمیشن نے بعد میں اس نظریے کو بے بنیاد قرار دیا۔

ڈک چینی نے پیش گوئی کی تھی کہ امریکی افواج کو عراق میں “آزادی دلانے والوں” کے طور پر خوش آمدید کہا جائے گا، اور ان کے مطابق فوجی کارروائی “نسبتاً تیزی سے” مکمل ہو جائے گی — “ہفتوں میں، مہینوں میں نہیں”۔

اگرچہ تباہی پھیلانے والے کوئی ہتھیار نہیں ملے، مگر بعد کے برسوں میں ڈک چینی اس موقف پر قائم رہے کہ اُس وقت دستیاب خفیہ معلومات کی بنیاد پر اور عراقی صدر صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے، حملہ درست فیصلہ تھا۔

ایک دہائی سے زیادہ قبل، صدر جارج ایچ ڈبلیو بش کے دور میں وزیرِ دفاع کی حیثیت سے، چینی نے پہلی خلیجی جنگ میں کویت سے عراقی فوج کو نکالنے کے لیے امریکی فوجی کارروائی کی قیادت کی تھی۔

انہوں نے اُس وقت کے صدر بش سینئر پر زور دیا کہ وہ عراق کے خلاف سخت مؤقف اپنائیں، جب صدام حسین نے اگست 1990 میں کویت پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم، اُس وقت چینی عراق پر حملے کے حامی نہیں تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر امریکا ایسا کرتا ہے تو اُسے اکیلے کارروائی کرنا پڑے گی، اور یہ صورتحال ایک طویل دلدل بن جائے گی۔

چینی کے بش خاندان کے ساتھ طویل تعلقات اور حکومتی تجربے کی بنا پر، جارج ڈبلیو بش نے 2000 میں انہیں نائب صدر کے امیدوار کی تلاش کی سربراہی کے لیے منتخب کیا۔ لیکن بعد میں بش نے فیصلہ کیا کہ تلاش کرنے والا ہی اس منصب کے لیے بہترین امیدوار ہے۔

سیاست میں دوبارہ واپسی پر، ڈک چینی کو تیل کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ہیلیبرٹن سے 35 ملین ڈالر کا ریٹائرمنٹ پیکج ملا، جس کے وہ 1995 سے 2000 تک سربراہ رہے تھے۔

عراق جنگ کے دوران ہیلیبرٹن حکومت کے بڑے ٹھیکیداروں میں شامل ہو گئی، اور چینی کے تیل کی صنعت سے تعلقات جنگ کے مخالفین کی جانب سے بار بار تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں فٹبال فروغ کیلئے تعاون کرینگے، نائب صدر فیفا
  • مس میکسیکو کی حمایت میں دیگر حسیناؤں کا احتجاجاً واک آؤٹ، مس یونیورس میں کونسا تنازعہ کھڑا ہوگیا؟
  • پاک بھارت جنگ کے دوران آٹھ طیارے مار گرائے گئے، امریکی صدر ٹرمپ کا دعویٰ
  • پاکستان کے جرنیلوں نے امریکہ کے لیے فوج کو اپنی ہی قوم کے خلاف کھڑا کردیا
  • بیرونی مداخلت اور سازشوں کے خلاف ٹھوس موقف
  • امریکہ میں پروازوں کی بندش کا خطرہ بڑھ گیا
  • امریکہ کا داعش کی سازش ناکام بنانے کا دعویٰ
  • اگر امریکہ میں ہائر ایکٹ حقیقت بن گیا تو یہ ہندوستانی معیشت کو آگ لگا دیگا، کانگریس
  • سابق امریکی نائب صدر ڈک چینی 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
  • لبنان کیلئے نیتن یاہو کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا