یورپی یونین نے امریکی مصنوعات بشمول کاروں اور ہوائی جہازوں پر اضافی ٹیکس عائد کرنے کی دھمکی دے دی۔

یہ بھی پڑھیں: یورپی یونین بلبلا اٹھی، کیا ٹرمپ ٹیرف امریکا کے گلے پڑجائیگا؟

فرانسیسی اخبار لی مونڈے کے مطابق دھمکی دیتے وقت یورپی یونین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کی ترجیح اس اتحاد کو توڑے بغیر آگے بڑھنا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے امریکی محصولات کے تناظر میں یورپی بڑی احتیاط اور بنیادی توجہ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور اہم اقتصادی اور سلامتی کے مفادات کو داؤ پر رکھتے ہوئے اپنے کمزور اتحاد کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

اس تناظر میں، انہوں نے، اس لمحے کے لیے، ، جب کہ امریکا نے پہلے ہی اسٹیل، ایلومینیم، اور درآمد شدہ کاروں پر 25 فیصد اور دیگر متعدد مصنوعات پر 10 فیصد اضافی چارجز عائد کیے ہیں لیکن یورپی یونین نے اس پر اب تک کوئی جوابی قدم نہیں اٹھایا ہے۔

مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے یورپی کمیشن، جو تجارتی معاملات کا ذمہ دار ہے، غیر فعال نہیں رہا۔

ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بات چیت میں ممکنہ ناکامی کی تیاری کرتے ہوئے واشنگٹن کے ساتھ طاقت کا توازن قائم کرنے کے لیے وہ اپنا ردعمل تیار کر رہا ہے۔

مزید پڑھیے: ٹرمپ ٹیرف وار: کینیڈا نے امریکی گاڑیوں پر 25 فیصد ٹیرف لگادیا

جمعرات کو یورپی یونین نے امریکی سامان کی دوسری فہرست جاری کی جن پر برسلز واشنگٹن کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے میں ناکام ہونے کی صورت میں اضافی چارجز لگا دیے جائیں گے۔

اس فہرست میں زرعی مصنوعات، کیمیکل اور پلاسٹک، ایرو اسپیس، آٹوموبائل، الیکٹرانک آلات، اور مشینی اوزار شامل ہیں۔ یورپی یونین ممالک میں سنہ 2024 میں یہ اشیا 95 بلین یورو میں فروخت ہوئیں۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف: چین کا امریکا کے خوشامدی ممالک کو سزا دینے کا اعلان

یورپی کمیشن کاکہنا ہے کہ رکن ممالک کو اب اپنی رائے دینی ہوگی تاکہ 27 رکن ممالک پر مبنی یورپی یونین جون کے آخر یا جولائی کے اوائل تک کوئی فیصلہ کرسکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکی مصنوعات ٹرمپ ٹیرف یورپی یونین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکی مصنوعات ٹرمپ ٹیرف یورپی یونین یورپی یونین نے ٹرمپ ٹیرف کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

بھارت اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر تناﺅ‘دہلی کو چین کے قریب لے جاسکتا ہے .ماہرین

پیرس(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 اگست ۔2025 )بھارت اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر تعلقات میں تناﺅ بڑھ رہا ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے صدر ٹرمپ کی مسلسل دباﺅ بڑھانے کی پالیسی سے دہلی چین کے قریب جاسکتا ہے فرانسیسی نشریاتی ادارے نے بیجنگ میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہوانگ ہوا کے حوالے سے بتایا کہ ٹیرف حملہ دور اندیشی نہیں ہے اس سے صرف انڈیا کو ہی نقصان نہیں ہو گا بلکہ امریکہ کو زیادہ نقصان ہو گا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی انڈیا کی تیئں غلط سمت میں جا رہی ہے.

(جاری ہے)

پروفیسرہوانگ کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں انڈیا چین کے قریب آسکتا ہے ہوانگ ایک ایسا مستقبل دیکھ رہے ہیں جہاں چین اور انڈیا امریکی دباﺅ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہوں گے ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کانفرنس میں شرکت کے لیے چین جا سکتے ہیں جو ایک بڑی پیش رفت ہوگی. انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں مودی کا شی جن پنگ کے ساتھ سٹیج شیئر کرنا ایک پیغام ہوگا کہ دونوں بڑے ملک امریکی دباﺅ کے سامنے نہیں جھک سکتے فیڈریشن آف انڈین ایکسپورٹ آرگنائزیشنز کا خیال ہے کہ ٹیرف کے فیصلے سے امریکہ کو انڈیا کی کل برآمدات کا نصف سے زیادہ متاثر ہوگا دلی میں قائم تھنک ٹینک گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیٹو (جی ٹی آر آئی) کا اندازہ ہے کہ امریکہ کو انڈیا کی برآمدات میں 40 سے 50 فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے.

جی ٹی آر آئی کے سربراہ اجے سریواستو کا کہنا ہے کہ انڈیا کو پرسکون رہنا چاہیے اسے سمجھنا چاہیے کہ خطرے یا عدم اعتماد کی صورت حال میں بامعنی بات چیت نہیں ہو سکتی کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کا غصہ نہ صرف انڈیا کی طرف سے روسی تیل نہ خریدنا ہے بلکہ یوکرین میں جنگ بندی کرانے میں ناکامی کی وجہ سے بھی ہے. رپورٹ میں کہا گیا ہے برکس کے رکن برازیل کے بعد انڈیا کو بھی کل 50 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے انڈیا بھی برکس اتحاد کا رکن ہے قبل ازیں وائٹ ہاﺅس نے اضافی ٹیرف کی وجہ انڈیا کی طرف سے روسی تیل کی مسلسل درآمد بتائی تھی صدرٹرمپ کا کہنا تھا کہ انڈیا کی طرف سے روسی تیل کی مسلسل درآمد سے روس کو تنہا کرنے کی امریکہ کی کوششیں کمزور پڑ رہی ہیں.

پروفیسر ہوانگ ہوا کا خیال ہے کہ یہ ٹیرف پالیسی امریکہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی انہوں نے چین اور انڈیا کے درمیان مضبوط تعلقات پر زور دیا تاکہ وہ ٹرمپ جیسے دباﺅ سے نمٹنے کے قابل ہوں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی کا ممکنہ دورہ چین اس سلسلہ میں انتہائی اہم ہوسکتا ہے . بھارت کے سابق سفارت کار سبھروال کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہوگا کہ آیا ٹرمپ واقعی انڈیا پر 50 فیصد ٹیرف لگاتے ہیں یہ اضافی 25 فیصد ٹیرف 27 اگست سے نافذ العمل ہوگا جبکہ دونوں ممالک کے درمیان اگلی تجارتی بات چیت اس سے چند روز قبل ہونے والی ہے ان کا کہنا ہے ابھی بات چیت کی گنجائش باقی ہے اور دلی کے پاس آپشنز موجود ہیں ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت اب تک اپنے ردعمل میں کافی محتاط رہی ہے تاہم انڈیا کی ترجیحات واضح ہیں انڈین حکومت کہہ ہے کہ وہ اپنے قومی مفادات اور توانائی کی سلامتی کا تحفظ کرے گی انہوں نے کہا کہ جب تک بات چیت جاری ہے اس وقت تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جانی چاہیے.

دوسری جانب یورپی ماہرین کا خیال ہے کہ روس کے توسط سے بھارت اور چین کے درمیان کافی عرصے سے بیک چینل رابطے جاری ہیں چونکہ بھارت‘روس ‘چین او ربرازیل برکس اتحاد کے بانی رکن ممالک میں سے ہیں ”برکس“کا تصور ایک ایسے اتحاد کے طور پر پیش کیا گیا تھا جس کے رکن ممالک ایک مشترکہ معاشی نظام‘برکس بینکنگ سسٹم‘تجارتی تعلقات سمیت دیگر معاشی معاملات میں تعاون قائم کریں گے امریکا اور یورپی یونین”برکس“کو ایک نئے عالمی مالیاتی نظام کے طور پر دیکھتے ہیں جو مستقل میں پوری دنیا کا معاشی منظرنامہ بدل سکتا ہے جس سے امریکا اور یورپ کی دنیا کے معاشی اور بنکاری نظام پر اجارہ داری ختم ہوجائے گی. 

متعلقہ مضامین

  • یوکرین علاقہ چھوڑے تو اسےنیٹو رکن بنانےکا وعدہ کیاجائے، یورپی ممالک کی امریکا کو تجویز
  • **امریکی ٹیرف کے بعد مودی کا پیوٹن سے رابطہ، شراکت داری مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
  • بھارت کیساتھ ٹریڈ ڈیل نہیں ہوگی، ٹرمپ نے صاف انکار کردیا
  • بھارت کے ساتھ ’ٹریڈ ڈیل‘ نہیں ہوگی؛ ٹرمپ نے صاف انکار کردیا
  • بھارت کا امریکی اسلحہ خریداری مؤخر کرنے کی خبر کی تردید
  • بھارت اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر تناﺅ‘دہلی کو چین کے قریب لے جاسکتا ہے .ماہرین
  • ٹرمپ کے 50فیصد ٹیرف نے بھارتی اسٹاک مارکیٹ کو ہلا دیا، سرمایہ کاروں کے 50ارب ڈالر ڈوب گئے
  • ٹرمپ کے 50 فیصد ٹیرف نے بھارتی اسٹاک مارکیٹ کو ہلا دیا، سرمایہ کاروں کے 50 ارب ڈالر ڈوب گئے
  • پیوٹن کی بھارتی سیکیورٹی چیف سے ملاقات، امریکی ٹیرف اضافے کے اگلے دن اہم پیشرفت
  • امریکی ٹیرف کے بھارتی معیشت پر ممکنہ اثرات