چینی صدر کی سوویت یونین کی عظیم حب الوطنی کی جنگ کی کامیابی کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ تقریبات میں شرکت
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
ماسکو:روس نے سوویت یونین کی عظیم حب الوطنی کی جنگ کی فتح کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر شاندار تقریبات کا انعقاد کیا۔چینی صدر شی جن پھنگ اور دنیا کے 20 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے رہنماوں نے دعوت پر تقریبات میں شرکت کی۔جمعہ کے روز چینی میڈ یا نے بتا یا کہ روس کی وزارت دفاع کی دعوت پر چین کی پیپلز لیبریشن آرمی کے گارڈ آف آنر کے 119 اہلکاروں نے ماسکو میں سوویت یونین کی عظیم حب الوطنی کی جنگ کی فتح کی 80ویں سالگرہ کی پریڈ میں شرکت کی۔ پریڈ میں شریک پیپلز لیبریشن آرمی کے گارڈ آف آنر کے اہلکار جب ریڈ اسکوائر سے گزرے تو چینی صدر شی جن پھنگ نے اٹھ کر انہیں سلام کیا۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
حوزہ علمیہ قم کی دوبارہ تاسیس کے 100 سال مکمل ہونے پر منعقدہ سیمینار کے نام رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام
مسئولین حوزہ کے نام پیغام میں رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ موجودہ رائج تمدن، جس کی بنیاد ہی کج رکھی گئی تھی، کامل شکل اور آشکارا نمونے مغربی ممالک اور ان کی پیروی کرنے والے ملکوں میں ہم دیکھ رہے ہیں، بھوک اور افلاس کی کھائیوں کے ساتھ دولت و ثروت کے پہاڑ۔ طاقت کے پجاریوں کی، جس پر بھی ان کا زور چل جائے، زور زبردستی، علم سے لوگوں کے قتل عام کے لئے کام لیا جانا، جنسی بے راہ روی کو گھرانوں میں داخل کر دینا، حتی بچوں اور نونہالوں تک پہنچا دینا، بے مثال ظلم اور سنگدلی، جس کے نمونے غزہ اور فلسطین میں نظرآ رہے ہیں، دوسروں کے امور میں مداخلت کے لئے جنگ کی دھمکی، حالیہ ادوار میں امریکی حکام کے کردار اس کے نمونے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ باطل تمدن ختم ہونے والا ہے اور مٹ کے رہے گا۔ یہ خلقت کی سنت ہے۔ اِنَّ الباطِلَ كانَ زَھوقاً»۔ (سورہ اسرا آیت نمبر 81 ) فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذھبُ جُفاءً» (سورہ رعد آیت نمبر 17) آج ہمارا فریضہ سب سے پہلے اس باطل کے ابطال میں مدد کرنا ہے اور دوسرے اپنی توانائی بھر اس کی جگہ نطریاتی اور عملی طور پر نیا تمدن پیش کرنا ہے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ "دوسرے نہیں کر سکے تو ہم بھی نہیں کر سکیں گے" مغالطہ ہے۔ دوسرے جہاں بھی حساب کتاب سے، ایمان اور استقامت کے آگے بڑھے، اپنا کام کر گئے اور کامیاب رہے۔ اس کا واضح نمونہ جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ حوزہ علمیہ قم کے 100 سالہ یوم تاسیس اور آیت اللہ العظمی الحاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی رحمت اللہ علیہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقدہ سیمینار کے نام پیغام میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے عظیم الشان دینی درسگاہ کی خدمات اور ضروری تبدیلیوں سے متعلق کلیدی نکات بیان فرمائے۔ رہبر انقلاب اسلامی کا یہ پیغام 7 مئی 2025 کو قم میں منعقدہ سیمینار میں پڑھا گيا۔
بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للّہ ربّ العالمین و افضل الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد المصطفی و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی العالمین.
ہولناک حوادث کے درمیان حوزہ علمیہ قم کا قیام ایک بے نظیر واقعہ تھا، چودہویں صدی ہجری شمسی کے آغاز میں قم کے مبارک حوزہ علمیہ کا قیام جو ایسے ہولناک بڑے حوادث کے درمیان منصہ شہود میں آیا کہ جنہوں نے مغربی ایشیا کی فضا تیرہ و تار اور اقوام کی زندگی آشفتہ حالی اور تباہی کے حوالے کر دی تھی۔ گزشتہ صدی سے اس خطے ميں سامراجی حکومتیں ان وسیع اور نہ ختم ہونے والی سختیوں کا سبب اور پہلی جنگ عظیم کے فاتحین کی مداخلت تھی کہ جنہوں نے معدنی ذخائر سے مالا مال اس اہم جغرافیائی خطے پر قبضہ کرنے اور اپنا تسلط جمانے کے لئے فوجی طاقت، سیاسی منصوبہ بندی، رشوت، اندرونی خیانت کاروں کی خرید، نیز تشہیراتی و ثقافتی حربوں سے کام لے کر اپنے اہداف پورے کئے۔
عراق میں انگریز حکومت اس کے بعد پٹھو بادشاہت قائم کی۔ بلاد شام میں، ایک طرف برطانیہ نے اور دوسری طرف فرانس نے اپنے زیر قبضہ علاقوں کے ایک حصے میں قبائلی نظام اور دوسرے میں برطانیہ کی تابع فرمان حکومت قائم کی اور اس پورے خطے میں، عوام بالخصوص مسلمانوں اور علمائے دین پر دباؤ اور گھٹن کی فضا چھا گئی۔ ایران میں ایک بے رحم، لالچی اور فرومایہ قزّاق کو تدریجی طور پر اوپر لایا گیا اور وزارت عظمی اور اس کے بعد بادشاہت تک پہنچا دیا گیا۔ فلسطین میں، صیہونی عناصر کی تدریجی مہاجرت اور پھر انہیں مسلح کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور قلب عالم اسلام میں سرطانی پھوڑا وجود میں لانے کے لئے زمین ہموار کی گئی۔
ہر جگہ چاہے وہ عراق ہو، شام ہو، فلسطین ہو یا ایران، ان کے سازشی منصوبوں کے راستے میں کوئی بھی مزاحمت ہوئی، اس کو کچل دیا گیا اور بعض شہروں جیسے نجف میں علمائے کرام کی اجتماعی گرفتاری اور میرزائے نائینی، سید ابوالحسن اصفہانی اور شیخ مہدی خالصی جیسے بزرگ مراجع کرام کو توہین آمیز طریقے سے جلاوطن کیا گیا اور مجاہدین کی گرفتاری کے لئے، گھر گھر تلاشی شروع لی گئی۔ اقوام وحشت زدہ اور سرگرداں ہو گئیں اور مستقبل تاریک اور مایوس کن نظر آنے لگا اور امور کی باگ ڈور خیانت کارانہ معاہدے کرنے والوں کے ہاتھ میں دے دی گئی۔
ناسازگار حالات کی سنگلاخ زمین میں ایک مبارک پودا
ان تلخ حوادث اور تاریک راتوں میں ستارہ قم طلوع ہوا۔ دست قدرت الہی نے ایک عظیم، پرہیزگار اور مجرّب فقیہ کو اٹھایا کہ وہ ہجرت کرکے قم آئے اور فرسودہ اور بند پڑے ہوئے حوزہ علمیہ میں دوبارہ جان ڈالی اور اس ناسازگار دور کی سنگلاخ زمین میں، روضہ دختر حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کے پاس، ایک نیا اور مبارک پودا لگایا۔ آیت اللہ حائری کی آمد کے وقت قم، بزرگ علما سے خالی نہیں تھا، آیت اللہ میرزا محمد ارباب اور آیت اللہ شیخ ابوالقاسم کبیر جیسی عظیم ہستیاں اور دیگر علمائے کرام اس شہر میں موجود تھے لیکن حوزہ علمیہ یعنی علم، عالم اور دین و دیندار کی پرورشگاہ کی، اس کی سبھی نزاکتوں کے ساتھ، تاسیس صرف آیت اللہ حائری (اعلی اللہ مقامہ فی الجنان) جیسی مویّد ہستی کے ہاتھوں ہی ممکن تھی۔ شہر اراک میں حوزہ علمیہ کی تاسیس اور طلبا سے بھرے ہوئے اس حوزہ علمیہ کو آٹھ سال تک چلانے کا تجربہ، اس سے برسوں قبل، سامرا میں میرزائے شیرازی جیسے عظیم شیعہ رہبر کے ساتھ قریبی تعلق اور اس شہر میں حوزہ علمیہ کی تاسیس نیز اس کو چلانے کی تدابیر کا مشاہدہ، ان کی رہنمائی کر رہا تھا، اور ان کے اندر موجود درایت، شجاعت، جذبہ اور امید انہیں اس راہ میں آگے بڑھا رہی تھی۔
آیت اللہ حائری کی پائیداری اور توکل
حوزہ علمیہ اپنے ابتدائی برسوں میں، خدا پر ان کے (آیت اللہ حائری کے) توکل اور مخلصانہ پائیداری کے نتیجے میں، رضا خانی شمشیر سے، جو دین کی نشانیوں اور ستوںوں کو مٹانے میں چھوٹے بڑے پر بھی رحم نہیں کرتی تھی، محفوظ نکل گیا۔ خبیث ستمگر مٹ گیا اور وہ حوزہ علمیہ جو برسوں شدید ترین دباؤ میں رہا، باقی رہا اور اس نے ترقی کی اور اس سے حضرت روح اللہ جیسا خورشید طلوع ہوا۔ وہ حوزہ علمیہ کہ کسی زمانے میں اس کے طلبا اپنی جان بچانے کے لئے، صبح سے ہی، مختلف طریقوں سے شہر سے باہر پناہ لیا کرتے تھے، وہاں درس و مباحثہ کیا کرتے تھے اور رات کی تاریکی میں، مدرسوں کے حجروں میں واپس آیا کرتے تھے، اس کے بعد چار عشروں کے دوران ایسے مرکز میں تبدیل ہو گیا کہ جو، پورے ملک میں ناامیدی میں مبتلا اور افسردہ دلوں میں رضا خان کی خبیث نسل کے خلاف مجاہدت کے شعلے بھڑکا رہا تھا اور گوشہ نشین نوجوانوں کو میدان میں لا رہا تھا۔
حوزہ علمیہ کی برکات
اور یہی حوزہ علمیہ تھا کہ جو اپنے بانی کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد، مرجع عظیم الشان، آیت اللہ بروجردی کے قدموں کی برکت سے پوری دنیا میں تشیع کی تبلیغی، تحقیقاتی اور علمی چوٹی ميں تبدیل ہو گیا اور یہی حوزہ علمیہ تھا کہ جس نے چھے عشرے سے کم مدت میں اپنی روحانی طاقت اور عوامی پہلو کو اس منزل تک پہنچا دیا کہ عوام کے ہاتھوں خائن، بدعنوان اور فاسق بادشاہت کو اکھاڑ پھینکا اور صدیوں بعد ایک بڑے متمدن اور ہر طرح کی صلاحیتوں کے مالک عظیم ملک میں اسلام کو اس کی سیاسی حکمرانی کی جگہ پر پہنچا دیا۔ اسی بابرکت حوزہ علمیہ سے اٹھنے والی ہستی تھی کہ جس نے ایران کو عالم اسلام میں اسلام پسندی کا مثالی نمونہ، بلکہ پوری دنیا میں دینداری کا پیش قدم ملک بنا دیا۔ اس کے عظیم خطاب سے شمشیر پر خون کو فتح حاصل ہوئی۔ اس کی تدبیر سے اسلامی جمہوریہ وجود میں آئی۔ اس کی شجاعت اور توکل سے ملت ایران خطرات کے مقابلے میں سینہ سپر اور اس گروہ کثیر پر غالب آئی اور آج اسی ہستی کے دیے ہوئے درس اور ورثے کے نتیجے میں ملک زندگی کے سبھی میدانوں میں رکاوٹیں ہٹا کر آگے بڑھ رہا ہے۔ اس بابرکت و باعظمت حوزہ علمیہ اور پر ثمر شجرہ طیبہ کے بانی، بلند مرتبہ، دانا اور مبارک انسان، عالم دین اور اس سکون سے آراستہ ہستی جو یقین سے حاصل ہوتا ہے، آیت اللہ العظمی حاج شیخ عبدالکریم حائری پر رحمت و رضوان الہی قائم و دائم رہے۔
ممتاز حوزہ علمیہ
اب ضروری ہے کہ ان چند موضوعات کے بارے میں جن کے لئے خیال کیا جاتا ہے کہ حوزہ علمیہ کے حال اور مستقبل کے لئے کارآمد ہو سکتے ہیں، کچھ بات کی جائے۔ امید ہے کہ اس سے موجودہ کامیاب حوزہ علمیہ کے پیش قدم اور نمایاں حوزہ علمیہ کی منزل تک پہنچنے میں مدد ملے گی۔ حوزہ علمیہ کو تشکیل دینے والے عناصر اور اس کی کارکردگی کے حوالے سے پہلا موضوع حوزہ علمیہ کا عنوان اور اس کا گہرا مفہوم ہے۔ اس سلسلے میں رائج تعریف ناقص اور غیر واضح ہے۔ اس تعریف کے برخلاف حوزہ علمیہ صرف پڑھنے اور پڑھانے کا ادارہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا مجموعہ ہے جس میں علم، تربیت اور سیاسی و سماجی کارکردگی سبھی کچھ پایا جاتا ہے۔ معنی و مفاہیم سے مملو اس اصطلاح کو بالترتیب اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
1۔ معینہ تخصّص (اسپیشلائزیشن) کا حامل ایک علمی مرکز۔
2۔ معاشرے کی دینی اور اخلاقی ہدایت کے لئے پاکیزگی نفس کی مالک کارآمد افرادی قوت کی تربیت کا مرکز۔
3۔ مختلف میدانوں میں دشمنوں کے خطرات کا مقابلہ کرنے والے محاذ کی اگلی صف۔
4۔ سیاسی نظام، اس ڈھانچے اور مندرجات سے لے کر امور مملکت چلانے کے نظام اور ذاتی روابط اور خاندانی نظام تک پر مشتمل، سبھی سماجی اور اجتماعی نظاموں کے بارے میں فقہ، فلسفے اور اسلامی اقدار کی اساس پر اسلامی افکار کی تخلیق اور بیان کا مرکز۔
5۔ اسلام کے عالمی پیغام کے دائرے میں لازمی دور اندیشی اور تہذیب و تمدن کے نئے گوشوں کی ایجاد اور فروغ کا مرکز۔
یہ وہ عناوین ہیں کہ جن کے ذریعے حوزہ علمیہ کی اصطلاح کی تعریف کی جا سکتی ہے اور اس کو تشکیل دینے والے عناصر اور دوسرے لفظوں میں، اس سے وابستہ "توقعات" کی نشاندہی کی جا سکتی ہے اور یہی وہ عناصر ہیں کہ جن کی تقویت اور فروغ کی کوشش حوزہ علمیہ کو حقیقی معنی میں "پیش قدم اور ممتاز" بنا سکتی ہے اور درپیش چیلنجوں نیز ممکنہ خطرات کو برطرف کرسکتی ہے۔ حوزہ علمیہ، مختلف علوم میں علمائے دین کے سرمایہ کا وارث ہے۔
ان تمام عناوین کے بارے میں حقائق اور نظریات پائے جاتے ہیں جنہیں اجمالی طور پر اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
اول: علمی مرکز ہونا
حوزہ علمیہ قم، عظیم شیعہ علمی سرمایہ کا وارث ہے۔ یہ سرمایہ اپنی نوعیت میں بے نظیر اور فقہ و کلام اور فلسفہ، تفسیر نیز حدیث جیسے علوم میں ہزاروں علمائے دین کی ایک ہزار سالہ فکری و تحقیقاتی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ حالیہ صدیوں میں نیچرل سائنسز کے انکشاف سے پہلے تک، شیعہ حوزہ علمیہ میں دیگر علوم پر بھی کام ہوتا تھا، لیکن سبھی ادوار میں حوزہ ہائے علمیہ میں بحث اور تحقیق کا اصلی موضوع فقہ اور اس کے بعد کلام، فلسفہ اور حدیث کا ہوا کرتا تھا۔ اس طولانی دور میں، شیخ طوسی سے لے کر محقق حلی تک اور ان سے لے کر شہید اول تک اور ان کے دور سے لے کر محقق اردبیلی تک اور ان سے شیخ انصاری نیز موجودہ دور تک علم فقہ کی تدریجی پیشرفت نمایاں رہی ہے۔ فقہ کی پیشرفت میں معیار، قابل فخر علمی ذخائر میں اضافہ، علمی سطح کی بلندی اور جدید تحقیقات رہی ہیں. لیکن آج معاصر ادوار بالخصوص حالیہ صدی میں تیز رفتار علمی و فکری تغیرات کے پیش نظر، حوزہ علمیہ میں علمی پیشرفت پر اس سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
پہلی چیز یہ کہ فقہ، درحقیقت دین کا عملی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی تقاضوں کے جواب دینے کا نام ہے۔ لیکن جب سے عقلی سوچ نے ترقی کی ہے اور نسلوں کا فکری ارتقاء ہوا ہے، اب ان جوابات کا مضبوط علمی اور فکری بنیادوں پر استوار ہونا نہایت ضروری ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ جوابات عام فہم اور قابل قبول ہوں۔ دوسری بات یہ ہے یہ جو آج لوگوں کی زندگی میں بے شمار پیچیدہ واقعات اور سوالات سامنے آتے ہیں، فقہ معاصر کو ان سب کا جواب دینے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ اسلام کے سیاسی نظام کی تشکیل کے بعد اصلی سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی پہلووں نیز ان کے بنیادی اصولوں کے بارے میں شارع کا عظیم نقطہ نگاہ کیا ہے۔ انسان، انسانی حیثیت، اس کی زندگی کے اہداف سے لے کر، انسانی معاشرے کی مطلوبہ شکل، سیاست، اقتدار، سماجی وخاندانی روابط، جنسی امور، عدل وانصاف اور زندگی کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں اس کا جامع نظریہ کیا ہے۔ ہر مسئلے میں فقیہ کے فتوے کو اسی بڑے نظریے کا عکاس ہونا چاہئے۔
ان خصوصیات کے لئے ضروری ہے کہ فقیہ دینی علوم اور ان کے سبھی پہلوؤں سے واقف ہو، دوسرے اس کو علوم انسانی اور ان دیگر تمام علوم سے بھی واقف ہونا چاہئے جو انسان کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ حوزہ علمیہ کے علمی ذخائر میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ طلبہ کو علمی توانائیوں کی اس سطح تک پہنچا سکے مگر شرط یہ ہے کہ موجودہ طریقہ کار میں بعض نکات کی کھلی آنکھوں اور توانا ہاتھوں سے اصلاح کی جائے۔
۔ ایک نکتہ تعلیمی دورانیہ کا طولانی ہونا ہے۔ طلبہ کے متون پڑھنے کا دورانیہ، اس طرح گزرتا ہے کہ بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ طالب علم کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ ایک بڑے عالم دین کی ضخیم تحقیقی کتاب کو نصاب کی کتاب کے عنوان سے پڑھے۔ یہ کتاب درحقیقت اجتہادی تحقیق کے مرحلے میں داخل ہونے کے وقت سے تعلق رکھتی ہے اور اس مرحلے سے پہلے اس کو ختم کرنے کا اثر صرف یہ ہوتا ہے کہ متن پڑھنے کا دورانیہ طولانی ہو جاتا ہے۔ نصاب کی کتاب مرحلہ تحقیق میں پہنچنے سے پہلے کے محدود دورانیہ میں طلبہ کے لئے مناسب زبان میں بیان کئے گئے، مطالب پر مشتمل ہونی چاہئے۔ قوانین، رسائل، فصول، کفایہ دررالفوائد اور خلاصۃ الفصول، جیسی کتابوں کو تبدیل کرنے کے لئے، آخوند خراسانی، حاج شیخ عبدالکریم حائری اور حاج سید صدر الدین صدر جیسے بزرگوں کی کامیاب یا نتیجے تک نہ پہنچنے والی کوششیں، اسی ضرورت کے تحت اہم تھیں۔ اگرچہ جس دور ميں وہ زندگی گزار رہے تھے، اس میں طلبہ پر آج کی طرح، اتنے زیادہ ذہنی اور علمی کاموں کا بوجھ نہیں تھا۔
۔ ایک اور نکتہ فقہی ترجیحات کا مسئلہ ہے۔ آج اسلامی نظام کی تشکیل اور اسلامی طریقے سے حکمرانی کا مسئلہ اٹھنے کے بعد، فقہ کی ترجیحات میں ایسے موضوعات داخل ہو گئے ہیں جو ماضی میں نہیں تھے۔ جیسے عوام سے اور دیگر اقوام اور حکومتوں سے حکومت کے روابط کا مسئلہ ہے، نفی راہ کا موضوع ہے، اقتصادی نظام اور اس کے بنیادی اصولوں کا مسئلہ ہے، اسلامی نظام کے بنیادی ستون، اسلامی نقطہ نگاہ سے حکمرانی کا سرچشمہ، اس میں عوام کا کردار، اہم امور اور تسلط پسند نظام کے مقابلے میں موقف،عدل و انصاف کا مفہوم اور دسیوں دیگر بنیادی اور حیاتی اہمیت کے موضوعات ہیں جو ملک کے حال اور مستقبل کے لئے ترجیح رکھتے ہیں اور ان کے فقہی جواب کی ضرورت ہے۔ (ان ميں سے بعض کلامی پہلو کے حامل بھی ہیں جن پر اپنے طور پر بحث ہونی چاہئے۔)
۔ حوزہ علمیہ کے موجودہ طریقہ کار میں فقہی شعبے میں ان ترجیحات پر زیادہ توجہ نظر نہیں آتی۔ یہ نظر آتا ہے کہ بعض علمی مہارتیں، جو عام طور پر حکم شرع تک پہنچنے کے تمہیدی پہلو کی حامل ہوتی ہیں یا بعض فقہ اور اصول فقہ کے موضوعات، ترجیحات سے ہٹ کر، اپنی دلکشی کے باعث فقیہ اور محقق کو اس طرح خود میں جذب کر لیتے ہیں کہ اس کے ذہن کو ان بنیادی اور ترجیح رکھنے والے مسائل سے منصرف کر دیتے ہیں اور ایسے مواقع جو پھر ہاتھ آنے والے نہیں ہوتے، اور انسانی و مالی سرمائے کو صرف کر دیتے ہیں، بغیر اس کے کہ ہجوم کفر کی نفسا نفسی کے عالم میں، اسلامی طرز زندگی کی تشریح اور معاشرے کی ہدایت میں اس سے کوئی مدد ملتی ہو۔ اگر علمی کام کا مقصد اظہار فضل اور علمی شہرت نیز فاضل نما بننے کی رقابت ہو تو وہ دنیا پرستی اور مادی فعل کا مصداق ہے اور "اتّخذ الھہ ھواہ"(1) کا اطلاق ہو جائے گا۔ (سورہ فرقان آیت نمبر 43)
دوم: پاگیزگی نفس کی مالک کارآمد افرادی قوت کی تربیت کا ادارہ
حوزہ علمیہ ایسا ادارہ ہے جس کی نگاہیں بیرونی دنیا پر ہوتی ہیں۔ حوزہ علمیہ کے کام ہر سطح پر، انسانوں اور معاشرے کی فکر و ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں۔ حوزہ علمیہ پر بلاغ مبین کی ذمہ داری ہے۔ اس بلاغ کا دائرہ بہت وسیع ہے جو اعلی توحیدی علوم سے لے کر ذاتی اور انفرادی شرعی ذمہ داریوں تک پر محیط ہے۔ نظام اسلام، اس کے خد و خال اور فرائض سے لے کر، طرز زندگی، ماحول حیات اور فطرت، حیوانات نیز حیات بشری کے دیگر بہت سے شعبوں اور پہلوؤں تک، سب کا احاطہ کرتا ہے۔ حوزہ ہائے علمیہ نے ہمیشہ اپنے یہ سنگین فرائض ادا کئے ہیں اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے بہت سے لوگ مختلف علمی سطح پر، تبلیغ دین کے گوناگوں راستوں پر چلے اور اسی راہ میں عمر گزار دی۔ انقلاب کے بعد حوزہ علمیہ میں اس تبلیغی تحریک کو زیادہ محکم اور منظم کرنے کی غرض سے بعض ادارے قائم ہوئے۔ تبلیغ دین میں ان کی اہم خدمات اور اس پیشے (تبلیغ) سے وابستہ دیگر افراد کی خدمات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ جو چیز اہم ہے، وہ معاشرے کی ثقافت اور فکری ماحول سے واقفیت اور عوام بالخصوص نوجوانوں کے درمیان، فکری اور ثقافتی حقائق سے تبلیغی امور میں مطابقت لانا ہے۔ اس شعبے میں، حوزہ علمیہ مشکل سے دوچار ہے۔ یہ سیکڑوں مقالات اور جرائد، مجالس اور اجتماعات میں کی جانے والی تقاریر اور ٹیلیویژن پر کی جانے والی گفتگو وغیرہ، ذہنوں میں پیدا کئے جانے والے مغالطوں کے سیلاب کے مقابلے میں بلاغ مبین کے فریضے کو شایان شان طریقے سے ادا نہیں کر سکتے۔
تبلیغ کے لئے حوزہ علمیہ میں دو کلیدی عناصر کی ضرورت ہے۔ "تعلیم" اور "نفس کی پاکیزگی"۔
1) تعلیم: اس پیغام کو پہنچانے کے لئے جو وقت کے مطابق ہو، خلا کو پر کرے اور دین کے ہدف کو پورا کرے، تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔ کوئی ادارہ ہونا چاہئے جو یہ کام سنبھالے، طلبہ ميں مطمئن کرنے کی صلاحیت پیدا کرے، انہیں طریقہ گفتگو اور عوام سے ارتباط نیز ابلاغیاتی وسائل اور سوشل میڈیا سے استفادہ کا سلیقہ اور مخالفین سے پیش آنے کے اصول و ضوابط سکھائے اور ایک محدود دورانیے میں انہیں اس کی مشق کرائے اور اس میدان میں اترنے کے لئے تیار کرے۔ دوسری طرف، جدید تکنیکی وسائل سے کام لے کر ذہنوں میں پیدا کی جانے والی جدید ترین اور رائج ترین باتوں اور فکری و اخلاقی انحرافات سے واقفیت کے ساتھ وقت اور زمانے کی مناسبت سے، ان کا بہترین اور قوی ترین جواب فراہم کرے اور اسی کے ساتھ نوجوان نسل اور خاندانوں کی سوچ اور ثقافت کے تناسب سے ضروری ترین دینی معلومات کا ایک پیکج تیار کرے۔ یہ اس شعبے میں تعلیم کا اہم ترین موضوع ہے۔
ثقافتی مجاہدین کی تربیت ایک اہم امر ہے۔ تبلیغ کے کام میں مثبت اور حتی کہ جارحانہ طریقہ دفاعی موقف سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ذہنوں میں ڈالی جانے والی باتوں اور شبہات کو دور کرنے کے تعلق سے جو کچھ کہا گیا ہے وہ تبلیغی ادارے کو دنیا اور شاید ہمارے اپنے ملک میں رائج انحرافی ثقافت کے مسلمات پر حملے کی طرف سے غافل نہ کر دے۔ رائج اور مسلط کی گئی مغربی ثقافت روز افزوں سرعت کے ساتھ کجروی اور انحطاط کی طرف جا رہی ہے۔ فلاسفروں اور متکلمین کا حلقہ شبہات کے دفاع پر ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس گمراہی اور کجروی پر فکری مسائل اٹھاتا ہے اور گمراہ کرنے والوں کو جواب دہی پر مجبور کرتا ہے۔ اس تربیتی ادارے کی تشکیل حوزہ علمیہ کی ترجیحات میں ہے۔ یہ ثقافتی مجاہدین کی تربیت کا معاملہ ہے. دشمنان دین کے اقدامات کے پیش نظر جو اپنی قوتیں آمادہ کرنے میں پوری تندہی کے ساتھ مصروف ہیں، مناسب ہے کہ اس کام کو سنجیدگی اور تیز رفتاری کے ساتھ انجام دیا جائے۔
2) تزکیہ: تزکیہ یعنی نفس کی پاکیزگی بھی تعلیم کے ساتھ ضروری ہے۔ تزکیہ کا مطلب گوشہ نشین بنانا نہیں ہے۔ ثقافتی مجاہد کی وسیع سرگرمیوں کا اہم حصہ تہذیب نفس اور اخلاق اسلامی کی دعوت پر مشتمل ہے اور اگر دعوت دینے والا خود ان سے عاری ہو تو اس کا کام بے برکت اور بے اثر ہوگا۔ اخلاقی سفارشات کی تاکید کے حوالے سے حوزہ علمیہ کو ماضی سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اخلاص اور سختیوں کا تحمل عزم و ارادے کے استحکام کا عامل ہے۔ آپ نوجوان طلاب اور افاضل آلودگی سے پاک دل اور سچی زبان کی مدد سے آج کی نوجوان نسل کی تہذیب اخلاق کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ اس کام کا آغاز اپنی ذات سے کریں۔ عمل میں اخلاص اور دولت، نام و نمود اور مقام ومرتبے کے وسوسے کا راستہ بند کر دینا، معنویت وحقیقت کی دلنواز فضا میں قدم رکھنے کی کلید ہے اور اس صورت میں ثقافتی مجاہدت کا سخت کام ایک موثر اقدام اور شیریں فریضے میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس صورت میں طالب علمی کے دور کی سختیاں، تبلیغ کے مجاہدانہ طرزعمل میں رکاوٹ بننے کے بجائے، ارادہ محکم اور عزم راسخ کے وسیلے میں تبدیل ہو جائيں گي۔ میری تاکید ہے کہ تبلیغ کے میدان کو رقیب سے خالی میدان ہرگز نہ سمجھا جائے اور ان شبہات اور مغالطوں کو جو پے در پے پیدا کئے جاتے ہیں، دور کرنے کی طرف سے ایک لمحے کی بھی غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ اس حصے میں، بلاغ مبین کے لئے افرادی قوت کی تربیت کے ساتھ نظام اور امور مملکت چلانے میں خاص فرائض کے لئے بھی افرادی قوت کی تیاری اور اسی طرح خود حوزہ علمیہ کے اندر نظم و ضبط اور فرائض کی انجام دہی پر بھی توجہ دی جائے جس کے لئے علیحدہ بحث کی ضرروت ہے۔
سوم: مختلف میدانوں میں دشمن کے خطرات کے مقابلے کی فرنٹ لائن
یہ حوزہ علمیہ اور علمائے دین کی کارکردگی کا ناشناختہ ترین پہلو ہے۔ حالیہ ڈیڑھ سو برس میں ایران اور عراق میں کوئی بھی اصلاحی اور انقلابی تحریک ایسی نہیں ملے گی جس کی قیادت علمائے دین نے نہ کی ہو یا وہ آگے آگے نہ رہے ہوں۔ یہ حوزہ علمیہ کی ماہیت کی اہم نشانی ہے۔ اس پورے دور میں استعمار اور استبداد کی تسلط پسندی کے سبھی معاملات میں صرف علمائے دین تھے جو سب سے پہلے میدان میں آئے اور بہت سے معاملات میں عوام کی حمایت کی برکت سے دشمن کو ناکامی سے دوچار کیا۔ ان کے علاوہ اور کسی میں بھی دم مارنے کی بھی جرات نہیں تھی یا کوئی اور مسئلے کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پا رہا تھا اور علمائے کرام کی آواز بلند ہونے کے بعد دوسرے بھی آواز بلند کرتے تھے۔ کسروی جو علمائے دین کے سخت ترین دشمنوں میں شمار ہوتا ہے، اعتراف کرتا ہے کہ آئینی حکومت کی تحریک دو ہستیوں، سید بہبہانی اور سید طباطبائی کی دانشمندانہ ہمراہی سے وجود میں آئی۔ جی ہاں! ان دنوں استبداد جھنڈے گاڑ چکا تھا۔ ان حالات میں علما و مراجع کرام کے علاوہ کسی میں بھی دم مارنے کی جرائت نہیں تھی۔
اس دور میں، شرمناک معاہدے علمائے کرام کی مخالفت اور ممانعت کی وجہ سے ختم ہوئے۔ رویٹر معاہدہ، تہران کے بڑے عالم دین، الحاج ملا علی کنی اور تنباکو کا معاہدہ مرجع اعلی میرزائے شیرازی کے فتوے نیز ایران کے بزرگ علمائے دین کی جانب سے اس فتوے کی حمایت کے نتیجے میں ختم ہوا۔ وثوق الدولہ معاہدہ، مدرس کی جانب سے بے نقاب کئے جانے پر ختم ہوا اور غیر ملکی کپڑوں کے خلاف تحریک آقا نجفی اصفہانی نے شروع کی اور علمائے اصفہان نے ان کا ساتھ دیا اور علمائے نجف نے حمایت کی اور دیگر معاملات بھی اسی طرح۔ حوزہ علمیہ قم کی تاسیس سے ملحقہ برسوں میں عراق کے کچھ حصے اور ایران کے سرحدی علاقے نجف اور کربلا کی مرکزیت کے ساتھ، غاصب انگریزوں کے خلاف علمائے کرام کی مسلحانہ جنگ کا میدان بن گئے تھے۔ صرف طلاب اور مدرسین ہی نہیں بلکہ بعض مشہور علما جیسے سید مصطفی کاشانی اور بعض مراجع کرام کے بیٹے بھی اس لڑائی میں شریک تھے۔ ان میں سے کچھ شہید ہوئے اور بہت سے، دور دراز کی برطانوی نوآبادیات میں جلاوطن کر دیے گئے۔
فلسطین کے مسئلے میں بھی اس صدی کے اوائل میں بھی جس میں صیہونیوں کو لاکے سرزمین فلسطین میں بسایا جا رہا تھا اور انہیں مسلح کیا جا رہا تھا اور اس کے تیسرے عشرے میں بھی کہ جب فلسطین کا بڑا حصہ باضابطہ صیہونیوں کے حوالے کر دیا گیا اور جعلی صیہونی حکومت کا اعلان کیا گیا، مراجع کرام کی فعالیت، حوزہ ہائے علمیہ کے قابل فخر کارناموں میں ہے۔ اس بارے میں ان کے خطوط اور بیانات، اہم ترین تاریخی دستاویزات شمار ہوتے ہیں۔ اسلامی تحریک شروع کرنے اور انقلاب بپا کرنے نیز رائے عامہ کو سمجھانے اور عوام الناس کو میدان میں لانے میں بھی حوزہ علمیہ قم اور اس کے بعد ایران کے دیگر حوزہ ہائے علمیہ کا بے نظیر کردار، حوزہ ہائے علمیہ کے جہادی تشخص کی نشانی ہے۔ حوزہ علمیہ کے فارغ التحصیل حضرات، اپنے فعال ذہن اور زبان گویا کے ساتھ ان پہلے لوگوں میں تھے جنہوں نے امام مجاہد کی دشمن شکن فریاد پر لبیک کہا اور بہت تیزی اور سنجیدگی کے ساتھ اور سختیاں برداشت کرکے، میدان میں آئے اور انقلابی مفاہیم کی تبلیغ نیز رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام شروع کیا۔
ان حقائق سے آگاہی کے ساتھ امام رضوان اللہ علیہ نے حوزہ ہائے علمیہ کے نام اپنے اہم پیغام (صحیفہ امام، ج 21 ص 273، علما، مراجع، مدرسین، طلاب اور ائمہ جمعہ جماعات کے نام پیغام 14-3-1988) میں علمائے کرام کو سبھی عوامی اور اسلامی انقلابات کے سر فہرست کے شہدا میں شمار کیا اور اسی طرح کے شہیدوں کی راہ اور کام فقہ کے امور کی حقیقت تک پہنچنا قرار دیا۔ دوسرے لفظوں میں آپ نے علما کو میدان جہاد اور وطن نیز مظلومین کی حمایت کا پیشرو قرار دیا۔ آپ نے حوزہ علمیہ کے مستقبل کے حوالے سے طلاب اور افاضل سے زیادہ امیدیں وابستہ کی ہیں کہ جن کے اندر تحریک، مجاہدت اور انقلاب کی فکر نے جوش و لولہ پیدا کیا اور جو لوگ ان حیاتی اہمیت کے مسائل سے دور رہتے ہوئے، صرف کتاب اور درس پر اکتفا کر رہے تھے ان سے گلہ مندی ظاہر کی ہے۔ اس پیغام میں بارہا، تحجّر میں مبتلا لوگوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دشمن کے ان کی غفلت سے فائدہ اٹھانے کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے اور دین فروشی کے تغیریافتہ طریقوں کی طرف سے خطرے کا اعلان کیا گیا ہے۔
امام بزرگوار کی صائب رائے کے مطابق پوری دنیا میں سامراجی شکارچی، سیاست سے واقف شیر دل علمائے کرام کی گھات میں بیٹھے ہیں اور علمائے کرام کے عوامی اثرورسوخ نیز ان کی عظمت وبزرگی کے خلاف جنگ کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ تحجّر اور سیاست میں عدم مداخلت کی بابت تشویش کا اظہار بھی شامل ہے۔ اس دانشمندانہ متن میں جو عرفان اور عاشقانہ جذبات کے ساتھ لکھا گیا ہے، امام کے قلب کی یہ بے چینی ہویدا ہے کہ تحجّر اور تقدس مآبی کی روش کہیں حوزہ ہائے علمیہ میں یہ وسوسہ نہ پیدا کر دے کہ دین سیاست سے الگ ہے، اور پھر سماجی سرگرمیوں نیز پیشرفت کا صحیح راستہ بند کر دے۔ یہ فکر مندی اس خطرناک تحریک کی ترویج کا نتیجہ ہے جس میں لوگوں کے بنیادی مسائل اور حوزہ علمیہ کی مداخلت اور اس کے سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں شامل ہونے نیز ظلم و بدعنوانی کے خلاف مجاہدت کو دین اور معنوی حدود کے تقدس کے منافی ظاہر کیا جاتا ہے اور علمائے کرام سے صلح کل بننے اور سیاست میں قدم رکھنے کے خطرات سے دوری کی سفارش کی جاتی ہے۔
اس باطل توہّم کی ترویج سامراج اور استکبار کے عوامل کے لئے سب سے بڑا تحفہ ہے کہ جنہیں ہمیشہ ان کے خلاف جدوجہد کے معرکے میں علمائے کرام کی موجودگی سے نقصان پہنچا ہے اور متعدد مواقع پر شکست ہوئی ہے اور فاسق، پٹھو اور بد عنوان نظام کے عوامل کے لئے بھی سب سے بڑا تحفہ ہے جو ایک مرجع تقلید کی قیادت میں ملت ایران کی تحریک سے جڑ سے اکھڑ گیا اور ختم ہو گیا۔ دین کا تقدس، ہر جگہ سے زیادہ، فکری، سیاسی اور فوجی جہاد کے میدانوں میں ظاہر ہوتا ہے اور حاملین علوم دین کے جہاد و فداکاری اور ان کے پاکیزہ خون سے محکم ہوتا ہے۔ دین کا تقدس پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی سیرت میں دیکھنا چاہئے کہ یثرب پہنچنے کے بعد آپ کا پہلا اقدام مسجد میں، حکومت کی تشکیل، فوجی قوت کی تنظیم اور عبادت و سیاست میں یک جہتی پیدا کرنا تھا۔ حوزہ علمیہ کو اپنے معنوی اعتبار اور فلسفہ وجودی سے وفاداری کے لئے عوام، معاشرے اور اس کے بنیادی مسائل سے ہرگز الگ نہیں ہونا چاہئے اور ضرورت پڑنے پر جہاد کی ہر قسم کو اپنا یقینی فریضہ سمجھنا چاہئے۔ یہ وہی اہم بات ہے جو امام بزرگوار نے حوزہ علمیہ، اس کے عمائدین، بزرگوں اور بالخصوص نوجوان طلاب و افاضل سے بارہا کہی ہے اور اس کی تاکید کی ہے۔
چہارم: سماجی نظاموں کی تشکیل اور اس کی وضاحت کا مرکز
ممالک اور انسانی معاشرے اپنی سبھی اجتماعی حیثیتوں میں معینہ نظاموں کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ حکومت کی شکل اور طریقہ حکمرانی (استبداد، مشورت وغیرہ) عدالتی سسٹم اور تنازعات، خلاف ورزیوں، نیز قانونی و تعزیراتی معاملات میں فیصلے کا نظام اقتصادی، مالی اور کرنسی کا سسٹم، دفتری نظام، کام کاج اور خاندان اور دیگر بہت سے امور کے نظام، یہ سبھی ملک کی سماجی حیثیتوں میں شامل ہیں اور عالمی معاشروں میں ان کے امور گوناگوں طریقوں اور مختلف نظاموں کے تحت چلائے جاتے ہیں۔ بیشک ان میں سے ہر نظام فکری بنیادوں پر قائم ہوتا ہے چاہے مفکرین اور صاحب الرائے حضرات کے ذہن کی پیداوار ہو یا مقامی رسم و رواج اور روایات کی دین اور موروثی ہو۔ اسلامی حکومت میں یہ مبنیٰ اور قاعدہ فطری طور پر اسلام اور اس کے معتبر متون کے مطابق اور معاشرہ چلانے کے نظاموں کو بھی انہیں سے ماخوذ ہونا چاہئے۔ فقہ شیعہ میں اگرچہ، بعض معاملات جیسے عدالت کے باب کو چھوڑ کر، ان امور پر کافی توجہ نہیں دی گئی۔
کتاب و سنت سے فقہی امور اخذ کرنے کے وسیع قواعد کی برکت اور ثانوی عناوین کی مدد سے اس کے اندر معاشرہ چلانے کے گوناگوں نظام تیار کرنے کی ضروری صلاحیت موجود ہے۔ نجف اشرف میں جلاوطنی کے زمانے میں، ولایت فقیہ کے مباحث میں، امام رحمت اللہ علیہ کا ممتاز کام حکومت کی بنیاد اور اصول کے باب میں ایک مبارک آغاز تھا جس نے حوزہ علمیہ سے تعلق رکھنے والے افاضل کے سامنے تحقیق کا راستہ کھولا اور اسلامی جمہوریہ کی تشکیل کے بعد، اس کے گوناگوں پہلوؤں کی نظری اور عملی تکمیل ہوئی۔ لیکن یہ کام ملک کے بہت سے اجتماعی نظاموں کی طرح نا مکمل اور بے سروسامانی کی حالت میں باقی رہ گیا۔ یہ خلا حوزہ علمیہ کو پر کرنا چاہئے۔ یہ حوزہ علمیہ کے حتمی فرائض میں شامل ہے۔ آج اسلامی نظام اور حکمرانی کے قیام سے فقیہ اور فقاہت کا فریضہ سنگین ہو گیا ہے۔ آج جیسا کہ امام (رحمت اللہ علیہ) نے فرمایا ہے، نادانوں کی طرح انفرادی اور عبادتی احکام میں غرق ہو جانے کو فقاہت نہیں سمجھا جا سکتا۔ امت کی تشکیل کرنے والی فقہ انفرادی فرائض اور عبادتی احکام تک محدود نہیں ہے۔
جدید ریسرچ سے استفادہ اور یونیورسٹیی دانشوروں کا تعاون ضرروی ہے۔ سماجی نظاموں کی تشکیل اور تنظیم کے لئے ضروری ہے کہ حوزہ علمیہ ان ںظاموں کے بارے میں آج کی دنیا میں جو کام ہوئے ہیں ان سے ضروری حد تک واقف ہو۔ یہ واقفیت فقیہ کو اس بات پر قادر بنا دے گی کہ ان کاموں ميں کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے اس کو سمجھ کے، کتاب و سنت کے اشاروں اور تصریحات سے استفادے کے لئے اس کے اندر ضروری حضور ذہن پیدا ہو اور وہ اسلامی افکار کی بنیاد پر جامع اور مکمل طور پر امور معاشرہ چلانے کے نظاموں کا ڈھانچہ تیار کرے۔ حوزہ علمیہ کے ساتھ ہی ملک کی یونیورسٹیاں بھی اس سلسلے میں توانائی بھی رکھتی ہیں اور فریضہ بھی۔ یہ حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کے تعاون کا موضوع ہو سکتا ہے۔ یونیورسٹی کا بڑا کام یہ ہے کہ عوامی اور حکومتی نظاموں سے متعلق علم بشریات میں ناقدانہ اور محققانہ مدد کے ذریعے، دانش عالم میں رائج نظریات میں کیا صحیح ہے اور کیا غلط، اس بات کا تعین کرے اور حوزہ علمیہ کے تعاون سے دینی افکار کو مناسب شکل میں پیش کرے۔
پنجم: اسلام کا عالمی پیغام اور تمدنی اختراعات
یہ حوزہ علمیہ سے نمایاں ترین توقع ہے۔ شاید اس کو ایک بڑی آرزو اور بلند پروازی قرار دیا جائے۔ 1963 میں مدرسہ فیضیہ پر حملے کے بعد اس تاریخی رات میں، جب امام طاب ثراہ نے اپنے گھر کے اندر نماز عشا کے بعد تھوڑے سے محدود اور مرعوب طلبا سے گفتگو کی تو آپ کے یہ جملے کہ "یہ چلے جائيں گے اور آپ باقی رہیں گے" بعض لوگوں کی نگاہ میں ایک آرزو اور بلند پروازی سے تعبیر کئے گئے ہوں، لیکن مرور ایام نے ثابت کر دیا کہ ایمان، صبر اور توکل رکاوٹوں کے پہاڑ کو بھی اکھاڑ پھینکتا ہے اور دشمن کی سازش سنت الہی کے مقابلے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ "اسلامی تمدن کی تشکیل" انقلاب کا برترین دنیاوی ہدف ہے۔ یعنی ایسا تمدن جس میں علم، ٹیکنالوجی، انسانی اور قدرتی ذخائر، سبھی توانائیاں، سبھی انسانی ترقیات، حکومت، سیاست، فوجی طاقت اور جوکچھ انسان کے اختیار میں ہے، سب سماجی انصاف اور عوامی رفاہ کے لئے ہو اور سب سے، طبقاتی فاصلے کم کرنے، معنوی تربیت بڑھانے، علمی بلندی، فطرت کی روز افزوں معرفت اور ایمان کے استحکام کے لئے کام لیا جائے۔
اسلامی تمدن، توحید اور اس کے معنوی، انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں پر مبنی ہے۔ جنس، رنگ، زبان، قومیت اور جغرافیے کے لحاظ سے نہیں بلکہ انسانیت کے نقطہ نگاہ سے، انسان کی تکریم پر مبنی ہے۔عدل و انصاف اس کے مصادیق اور زاویوں پر منحصر ہے۔ مختلف میدانوں میں انسان کی آزادی پر منحصرہے۔ جہاں جہاں بھی جہادی موجودگی کی ضرورت ہو ان سبھی میدانوں میں عام مجاہدت پر منحصر ہے۔ اسلامی تمدن موجودہ مادی تمدن کا نقطہ مقابل ہے۔ مادی تمدنو جو استعمار کے آغاز سے، ملکوں پر قبضے، کمزور اقوام کی تحقیر، مقامی لوگوں کے قتل عام، علم کے دوسروں کی سرکوبی کے لئے استعمال، ظلم، جھوٹ، طبقاتی خلیج اور زور زبرستی سے شروع ہوا اور تدریجی طور پر اخلاقی اصولوں سے انحراف، بدعنوانی اور جنسی تفریق بھی اس میں شامل ہو گئے اور اس نے نمو حاصل کیا۔
موجودہ رائج تمدن، جس کی بنیاد ہی کج رکھی گئی تھی، کامل شکل اور آشکارا نمونے مغربی ممالک اور ان کی پیروی کرنے والے ملکوں میں ہم دیکھ رہے ہیں، بھوک اور افلاس کی کھائیوں کے ساتھ دولت و ثروت کے پہاڑ۔ طاقت کے پجاریوں کی، جس پر بھی ان کا زور چل جائے، زور زبردستی، علم سے لوگوں کے قتل عام کے لئے کام لیا جانا، جنسی بے راہ روی کو گھرانوں میں داخل کر دینا، حتی بچوں اور نونہالوں تک پہنچا دینا، بے مثال ظلم اور سنگدلی، جس کے نمونے غزہ اور فلسطین میں نظرآ رہے ہیں، دوسروں کے امور میں مداخلت کے لئے جنگ کی دھمکی، حالیہ ادوار میں امریکی حکام کے کردار اس کے نمونے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ باطل تمدن ختم ہونے والا ہے اور مٹ کے رہے گا۔ یہ خلقت کی سنت ہے۔ اِنَّ الباطِلَ كانَ زَھوقاً»۔ (سورہ اسرا آیت نمبر 81 ) فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذھبُ جُفاءً» (سورہ رعد آیت نمبر 17) آج ہمارا فریضہ سب سے پہلے اس باطل کے ابطال میں مدد کرنا ہے اور دوسرے اپنی توانائی بھر اس کی جگہ نطریاتی اور عملی طور پر نیا تمدن پیش کرنا ہے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ "دوسرے نہیں کر سکے تو ہم بھی نہیں کر سکیں گے" مغالطہ ہے۔ دوسرے جہاں بھی حساب کتاب سے، ایمان اور استقامت کے آگے بڑھے، اپنا کام کر گئے اور کامیاب رہے۔ اس کا واضح نمونہ جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ہے۔
اس مجاہدت میں، نقصانات، چوٹیں، درد اور مفارقتیں ہیں جنہیں برداشت کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں کامیابی یقینی ہے۔ پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) رات میں، خفیہ طور پر، مکہ سے بت پرستوں کے درمیان سے باہر آئے اور غار میں پنہاں ہو گئے۔ لیکن آٹھ سال بعد طاقت اور شکوہ کے ساتھ مکہ میں قدم رکھا اور کعبہ کو بتوں اور مکہ کو بت پرستوں سے پاک کیا۔ ان آٹھ برسوں میں بے شمار تکالیف اٹھائيں اور حمزہ جیسے اصحاب سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن کامیاب ہوئے۔ ظالم اور جھوٹی عالمی طاقتوں کے اتحاد کے مقابلے میں ہمارا آٹھ سالہ دفاع مقدس اس کا دوسرا نمونہ ہے۔ آج قم کا عظیم اور کارآمد حوزہ علمیہ، جس کو شروع میں مصیبتوں کا سامنا رہا، ہمارے سامنے موجود ایک اور نمونہ ہے۔ اور اس طرح کے بے شمار نمونے مل سکتے ہیں۔ اس میدان میں حوزہ علمیہ کے کندھوں پر سنگین فریضہ ہے اور وہ پہلے درجہ میں، نئے اسلامی تمدن کے بنیادی اور ذیلی خطوط کا تعین اور اس کے بعد اس کا بیان، ترویج اور معاشرے میں اس کی ثقافت تیار کرنا ہے اور یہ بلاغ مبین کے برترین مصادیق میں سے ہے۔ اسلامی تمدن کے خدوخال تیار کرنے کے حوالے سے فقہ اپنے طور پر اور علم معقولات اپنے طور پر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہمارا اسلامی فلسفہ اپنے بنیادی مسائل کے لئے سماجی خطوط تیار کرے اور ہماری فقہ اپنے میدان کو وسیع تر کرکے، استنباط اختراع اور نئے مسائل کے ذریعے اس تمدن کا احصا اور اس کے احکام کا تعین کرے۔
اجتہاد اور موضوع کی صحیح شناخت کے لئے دو عنصر پر توجہ کی تاکید ہے۔ فقاہت (فقہ کے امور) اور اس کی روش کے بارے میں امام بزرگوار کا واضح بیان حوزہ علمیہ کے رہنما دستاویز ہے۔ اس بیان میں روش استنباط، وہی روایتی فقہ کی روش اور آپ کے الفاظ میں اجتہاد جواہری ہے۔ زمان و مکان اجتہاد کے دو فیصلہ کن اور اہم عنصر ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی مسئلے میں ماضی میں کوئی حکم رہا ہو لیکن سیاست، معاشرے اور اقتصاد پر حکم فرما روابط کی تبدیلی کے بعد اب نیا فتوی سامنے آئے۔ یہ فتوے اور حکم کی تبدیلی اس لحاظ سے ہے کہ ممکن ہے کہ بظاہر مسئلہ وہی پہلے والا ہو، لیکن سیاسی و سماجی روابط کے بدل جانے سے صورتحال بدل گئی ہو اور اصل مسئلہ تبدیل ہو گیا ہو، بنابریں نئے حکم کی ضرورت پڑے گی۔ اس کے علاوہ مسلسل رونما ہونے والے عالمی واقعات اور علمی ترقی ماہر فقیہ کو کتاب و سنت کی کسی حجت کے، نئے فہم و ادراک تک پہنچا دے جو شرعی حکم تبدیل کرنے کی حجت بن جائے۔ جیسا کہ اکثر و بیشتر مجتہدین کی رائے بدل جاتی ہے۔ بہرحال فقہ کو فقہ ہی رہنا چاہئے اور نئی سوچ کو شریعت کو ناخلص بنانے پر منتج نہیں ہونا چاہئے۔
حوزہ علمیہ کی تعریف اور تشریح اور اس کے گہرے مفاہیم کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اسی پر اکتفا کروں گا اور حوزہ علمیہ قم کے بارے میں جس کے 100 برس پورے ہو گئے ہیں، اختصار کے ساتھ کچھ عرض کروں گا۔
مختلف میدانوں میں حوزہ علمیہ کی موجودگی اور بالیدگی نمایاں عنصر ہے۔ حوزہ علمیہ قم آج ایک زندہ اور بالیدہ حوزہ علمیہ ہے۔ ہزاروں مدرسین، مولفین، محققین، مصنفین، مقررین، معارف اسلامی کے مفکرین، علمی وتحقیقاتی جریدوں کی نشرواشاعت،عمومی اور مخصوص موضوعات پر لکھے جانے والے مقالات، یہ سب مجموعی طور پر آج کے معاشرے اور ملک و قوم کے مستقبل کے لئے عظیم سرمایہ ہے۔ اخلاقیات اور تفسیر کی کلاسیں، علوم عقلی کے درس اور مراکز ایسے نمایاں اور ممتاز امتیازات ہیں جو اسلامی انقلاب سے پہلے نہیں تھے۔ حوزہ علمیہ قم میں اتنی بڑی تعداد میں طلاب اور صاحب فکر افاضل کبھی نہیں تھے۔ انقلاب کے سبھی میدانوں میں فعال موجودگی حتی فوجی میدان میں فعالیت اور دفاع مقدس کے دوران، اس سے پہلے اور اس کے بعد شہید ہونے والے حوزہ علمیہ کے شہدا کی بڑی تعداد حوزہ کے عظیم افتخارات اور امام راحل کے بے شمار حسنات میں شامل ہے۔ عالمی تبلیغات کے میدان کا راستہ کھولنا اور مختلف اقوام کے ہزاروں طلبا کی تربیت اور حوزہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کی دنیا کے بہت سے ملکوں میں موجودگی حوزہ علمیہ قم کا ایک عظیم، بے نظیر اور قابل تعریف کارنامہ ہے۔ جدید اور معاصر مسائل پر تازہ دم فقہائے کرام کی توجہ اور ان سے متعلق فقہ کی کلاسیں بھی درخشان مستقبل، پیشرفت اور علمی انقلاب کی نوید دے رہی ہیں۔ معتبر اسلامی متون بالخصوص کلام اللہ مجید کے علمی نکات پر نوجوان افاضل کی دقیق توجہ بھی حوزہ علمیہ میں قرآن کریم کے زیادہ مرکز بحث قرار دیے جانے کی بشارت دیتی ہے۔ خواتین کے لئے مخصوص حوزہ ہائے علمیہ کی تشکیل بھی ایک اہم اور موثر کام ہے جس کا دائمی اجر امام راحل کی روح مطہر کو پہنچ رہا ہے۔ حوزہ علمیہ قم اس نقطہ نگاہ سے ایک زندہ و بالیدہ ادارہ ہے جو امیدوں کو زندہ کر رہا ہے۔
مثالی حوزہ علمیہ کے لئے سفارشات:
اس کے باوجود، اس منطقی توقع کی تکمیل کہ حوزہ علمیہ قم ایک پیش قدم اور مثالی حوزہ علمیہ بنے، موجودہ صورتحال میں کافی دور ہے۔
مندرجہ ذیل نکات پر توجہ یہ دوری کم کر سکتی ہے:
1۔ حوزہ علمیہ کو اپ ٹوڈیٹ ہونا چاہئے، مسلسل آگے بڑھنا چاہئے بلکہ زمانے سے آگے رہنا چاہئے۔
2۔ سبھی شعبوں میں افرادی قوت کی تربیت کو اہمیت دی جائے۔ اس قوم کا راستہ اور انقلاب کا مستقبل وہ لوگ طے کریں گے جن کی آج حوزہ علمیہ میں تربیت کی جا رہی ہے۔
3۔ حوزہ علمیہ سے وابستہ افراد عوام سے اپنا رابطہ بڑھائيں۔ عوام کے درمیان افاضل حوزہ کی موجودگی اور ان سے پرخلوص رابطے کی منصوبہ بندی کی جائے۔
4۔ حوزہ علمیہ کے ذمہ داران، مناسب تدبیر سے نوجوان طلبا کے اذہان میں ڈالی جانے والی ان باتوں کو ختم کریں جو ان میں مایوسی پیدا کرتی ہیں۔ آج دنیا میں اسلام، ایران اور تشیع کو جوعزت اور احترام حاصل ہے وہ ماضی میں ہرگز نہیں تھا۔ نوجوان طلبا اس احساس کے ساتھ پڑھائی اور ترقی کریں۔
5۔ معاشرے کی نوجوان نسل کو حسن ظن کے ساتھ دیکھا جائے اور اسی نگاہ سے ان سے بات کی جائے۔ آج نوجوانوں، زیادہ ذہین نوجوانوں کا بڑا حصہ، ذہنوں ميں تخریبی افکار ڈالے جانے کے باوجود دین کا وفادار اور اس کا مدافع ہے اور بہت سے دوسرے نوجوان بھی دین اور انقلاب سے عناد ہرگز نہیں رکھتے۔ دینی ظواہر سے منحرف چھوٹی سی اقلییت، حوزہ علمیہ کو غیر حقیقت پسندانہ تجزیے میں مبتلا نہ کرے۔
6۔ حوزہ کا درسی پروگرام اس طرح ترتیب دیا جائے کہ ایک روشن خیال، حاضر جواب، اور جدید فقہ جو فنی طور پر اجتہادی اصولوں پر مبنی ہو، نیز واضح فلسفے کی حامل ہو اور معاشرتی زندگی کے ڈھانچے میں گہری نظر رکھتی ہو، اس کے ساتھ ساتھ مضبوط، اثر انگیز اور قابل اعتماد علم کلام بھی ماہر اساتذہ کے ذریعے پڑھایا جائے۔ یہ تینوں شعبے قرآن کی سمجھ اور تفسیری درسگاہوں کی روشنی میں نکھریں، جگمگائیں اور گہرائی حاصل کریں۔
7۔ زہد، تقوا، قناعت، غیر خدا سے بے نیازی، توکل، پیشرفت کا جذبہ، مجاہدت کے لئے آمادگی کی سفارش
امام بزرگوار اور بزرگان اخلاق ومعرفت نے نوجوان طلبا سے ہمیشہ شفارش کی ہے اور اس وقت بھی حوزہ علمیہ کے آپ عزیز نوجوان طلبا کو یہی سفارش کی جاتی ہے۔
8۔ حوزہ علمیہ کی تعلیمی اسناد کے بارے میں میری سفارش ہمیشہ یہ رہی ہے اور اب بھی ہے کہ سند حوزہ سے باہر کا کوئی مرکز نہیں بلکہ خود حوزہ علمیہ، طالب علم کو دے۔ البتہ حوزہ علمیہ کے درجوں کو 1، 2، 3، اور 4 کے بجائے ملک کے علمی مراکز اور دنیا میں جو نام رائج ہیں وہ دیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، گریجوئیشن، پوسٹ گریجویشن اور ڈاکٹریٹ وغیرہ۔
میں اپنی بات یہاں ختم کرتا ہوں۔ خداوند عالم سے اسلام کی روز افزوں عزت و شوکت، امت اسلامیہ کی روز افزوں طاقت و استحکام، ملت ایران کی روز افزوں پیشرفت وسعادت، حوزہ ہائے علمیہ کی روز افزوں سربلندی و توانائی، اور دشمنوں، بدخواہوں اور معاندین پر نصرت کی دعا کرتا ہوں۔
حضرت بقیّۃ اللہ (ارواحنا فداہ و عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) پر خدا کا سلام اور روح مطہر امام امت اور شہیدوں کی ارواح پر مخلصانہ درود ہو۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ وبرکاتہ
سید علی خامنہ ای
28/4/2025