امریکہ اور برطانیہ کا تاریخی تجارتی معاہدہ! کس کو کتنا فائدہ ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کے ساتھ ایک ’’تاریخی‘‘ تجارتی معاہدے کا اعلان کیا ہے، جو ان کی جانب سے دنیا بھر میں عائد کردہ نئے ٹیرف کے بعد کسی ملک سے پہلا معاہدہ ہے۔
اس معاہدے کے تحت امریکی گوشت، اسٹیل، ایلومینیم اور زرعی مصنوعات کو برطانیہ کی منڈیوں تک وسیع تر رسائی حاصل ہو گی، جبکہ برطانوی کاروں پر کچھ امریکی ٹیرف کم کیے جائیں گے۔
ٹرمپ نے برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر سے ٹیلیفون پر گفتگو کے دوران اس معاہدے کا اعلان کیا۔ اسٹارمر نے بھی اسے "تاریخی دن" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ اتحادی افواج کی نازی جرمنی پر فتح کے 80 ویں دن کی مناسبت سے ایک یادگار موقع پر ہوا۔
معاہدے کی مکمل تفصیلات تاحال سامنے نہیں آئیں، اور دونوں فریقین نے کہا ہے کہ مزید بات چیت جاری رہے گی۔ تاہم، امریکہ کی جانب سے برطانیہ پر 10 فیصد کا عمومی ٹیرف بدستور برقرار رہے گا۔
ٹرمپ نے اس موقع پر امید ظاہر کی کہ جلد ہی چین اور یورپی یونین کے ساتھ بھی مثبت پیش رفت ممکن ہو گی۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کشمیر کو 1400 سال پرانا ایشو قرار دینے والے ٹرمپ بگرام ائیربیس کے حوالے سے توہمات کا شکار
بگرام کی تاریخ بالکل مختلف ہے، یہ اڈہ 1950 کی دہائی میں سابق سوویت یونین نے بنایا تھا، اور سوویت یونین کے انخلاء کے بعد، امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج نے صرف اس کی تزئین و آرائش کی۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بگرام اڈے کو امریکی ساختہ کہا ہے، حالانکہ یہ 1950 کی دہائی میں سوویت یونین نے تعمیر کیا تھا اور امریکہ نے صرف اس کی تزئین و آرائش کی تھی۔ ماہرین ان بیانات کو صدر ٹرمپ کی جہالت اور ملکیت کے فریب کی ایک مثال قرار دے رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایکس نیٹ ورک پر اپنے تازہ ترین ریمارکس میں خبردار کیا ہے کہ اگر افغانستان نے بگرام ایئر بیس کو تعمیر کرنے والوں یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو واپس نہ کیا تو بہت برا ہوگا۔ تاہم، بگرام کی تاریخ بالکل مختلف ہے، یہ اڈہ 1950 کی دہائی میں سابق سوویت یونین نے بنایا تھا۔
سوویت یونین کے انخلاء کے بعد، امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج نے صرف اس کی تزئین و آرائش کی۔ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اس طرح کے دعوے ٹرمپ کے یک طرفہ نقطہ نظر کی عکاسی کرتے ہیں اور امریکہ کے نام پر سب کچھ ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مبصرین نے اس طرح کے بیانات کو تاریخی جہالت اور ملکیت کا وہم قرار دیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے خطے کے حقائق اور افغانستان کی تاریخ کا واضح ادراک نہیں ہے۔ جیسا کہ کشمیر کو انہوں نے چودہ سو سالہ ایشو قرار دیا تھا۔ طالبان نے کہا ہے کہ افغان سرزمین پر کوئی بھی غیر ملکی فوجی اڈہ قابل قبول نہیں ہے اور غیر ملکی افواج کی موجودگی کو ملک کی قومی خودمختاری کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔
کابل کے شمال میں واقع بگرام ایئر بیس 2021 میں غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان کے قبضے میں آنے تک افغانستان میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ تھا۔ یہ اڈہ سوویت یونین نے 1950 کی دہائی میں بنایا تھا اور امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی کے دوران اس کے بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈیشن کی گی تھی، لیکن ٹرمپ نے اپنے حالیہ بیانات میں اس تاریخی حقیقت کو مؤثر طریقے سے نظر انداز کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بگرام پر دوبارہ قبضہ کرنا امریکا کے لیے عملی طور پر مشکل ہے اور اس کے لیے بڑی فوجی موجودگی کی ضرورت ہوگی، جو کہ طالبان کی موجودہ پالیسی اور بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہے۔ چین اور روس نے بھی بارہا افغانستان کی خودمختاری کے احترام اور غیر فوجی مداخلت پر زور دیا ہے۔