اسرائیل کے خلاف حملے بند نہیں ہوں گے، انصار اللہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
مزاحمتی میڈیا کے مطابق محمد البخیتی نے کہا ہے کہ غزہ کے لیے ہماری حمایت اور مدد کے لئے کارروائیاں جاری رہیں گی، خواہ وہ مقبوضہ فلسطین ہو یا بحیرہ احمر۔ اسلام ٹائمز۔ یمن اسلامی کی انصار اللہ تحریک کے رکن نے صیہونی حکومت کے خلاف یمنی مسلح افواج کی کارروائیوں کو اس وقت تک جاری رکھنے پر کا اعلان کیا ہے جب تک غاصب صیہونی حکومت غزہ کی پٹی پر جارحیت اور اس کا محاصرہ ختم نہیں کر دیتی۔ مزاحمتی میڈیا کے مطابق محمد البخیتی نے کہا ہے کہ غزہ کے لیے ہماری حمایت اور مدد کے لئے کارروائیاں جاری رہیں گی، خواہ وہ مقبوضہ فلسطین ہو یا بحیرہ احمر۔ یمنیوں کی طرف سے امریکی بحری جہازوں کو نشانہ بنانے سے انکار کے بدلے میں امریکہ کو یمن پر حملے روکنے کے لیے یمن کو معاہدہ کرنے پر مجبور کیے جانے کا ذکر کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ معاہدے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے اصول شامل نہیں ہوں گے۔ البخیتی نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اور برطانیہ کو اسرائیلی حکومت پر غزہ کے خلاف جارحیت روکنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
اسرائیل اپنی طاقت کھو چکا ہے
اسلام ٹائمز: اسرائیل عام طور پر جنگوں کی ابتدا میں عالمی ہمدردی اور حمایت حاصل کرتا ہے، لیکن پھر کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جو انسانی حقوق کے مسائل کے سائے تلے دب جاتے ہیں اور انجام کار اسرائیل "بیانیے کی جنگ" میں شکست کھا جاتا ہے۔ اس بار اسرائیل کی ناکامی نے حماس کیلئے ایک ایسا تاریخی موقع پیدا کر دیا ہے، جسکا وہ شاید خواب میں بھی تصور نہ کرسکے۔ غزہ میں انسانی بحران کے سبب اسرائیل کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے، اسے سنبھالنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کمزور ہوچکی ہے اور اب مغربی و عربی حکومتیں اس گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
غزہ میں سات اکتوبر2023ء سے جاری جنگ اور غاصب صہیونی گینگ اسرائیل کی جارحیت کو بائیس ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اسرائیلی گینگ غزہ پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے ساتھ ساتھ اب خود اپنا کنٹرول بھی کھو رہی ہے۔ یہ سب کچھ فلسطینی مزاحمت کے مرہون منت ہے۔ حالانکہ ایک طرف اسرائیل مغربی دنیا کی مدد رکھتا ہے اور دوسری طرف عرب حکمرانوں کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے، لیکن ان سب کے باوجود اسرائیل غزہ میں اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ غاصب صہیونی حکومت اسرائیل غزہ میں تباہی و بربادی کرنے میں کامیاب رہی، لیکن غزہ کے عوام کا حوصلہ اور استقامت آج بھی پائیدار ہے، جس نے صیہونیوں کے تمام ناپاک منصوبوں کو ناکام کر رکھا ہے۔ مغربی اور عرب حکمرانوں کی تمام تر حمایت اور طاقت کے باوجود غزہ میں قید صھیونی قیدیوں کو اسرائیل آزاد کروانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ صورتحال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب صھیونی فوجی قیدی بھوک اور قحط کا شکار ہوچکے ہیں، جو خود غاصب صہیونی حکومت نے غزہ کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کی ہے۔
بہرحال پوری دنیا اس بات کا مشاہدہ کر رہی ہے کہ غزہ کے عوام اور غزہ میں موجود مزاحمت نے غاصب صیہونیوں کو شکست سے دوچار کر رکھا ہے۔ اسی طرح یہ شکست اب غاصب صہیونی حکومت کے اندرونی کنٹرول کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ مزاحمت کے محور نے فلسطین و لبنان اور یمن سے عراق اور بالخصوص ایران تک غاصب صہیونی حکومت کو کاری ضربیں لگائی ہیں اور اس بات کا اعتراف امریکی و مغربی تجزیہ نگار بھی کر رہے ہیں۔ انہی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے امریکا کے سابق نائب وزیر دفاع چارلز فریمن کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل دوبارہ جنگ چھیڑنا چاہے تو بھاری نقصان کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ چارلز فریمن نے زور دے کر کہا کہ ایران نے اسرائیل کے دفاعی اور میزائل نظام میں جس مؤثر طریقے سے نفوذ کیا ہے، وہ قابلِ تحسین ہے اور یقینی طور پر اسرائیل کو یہ بات یاد دلا دی گئی ہے کہ وہ امریکا کی مدد کے بغیر اپنی حفاظت نہیں کرسکتا۔
دوسری طرف خود غاصب صہیونی حکومت اسرائیل کے معروف اخبار ہارٹز نے لکھا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت اسرائیل تمام معاملات پر کنٹرول کھو چکی ہے اور دنیا میں ایک منفور ریاست بن چکی ہے۔ صہیونی اخبار ہارٹز نے اسرائیل کے سابق قومی سلامتی مشیر کے نائب چاک فریلیچ کا ایک مضمون شائع کیا ہے، جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ آج غزہ میں جو انسانی بحران اور اس پر عالمی ردِعمل دیکھنے کو مل رہا ہے، اس کی پیش گوئی کے لیے کسی ماہرِ اسٹریٹجی ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن حسبِ معمول بنیامین نیتن یاہو نے مہینوں پہلے دیئے جانے والے انتباہی اشارے نظرانداز کیے اوریہاں تک کہ بہت دیر ہوگئی۔ اسرائیل عام طور پر جنگوں کی ابتدا میں عالمی ہمدردی اور حمایت حاصل کرتا ہے، لیکن پھر کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں، جو انسانی حقوق کے مسائل کے سائے تلے دب جاتے ہیں اور انجام کار اسرائیل "بیانیے کی جنگ" میں شکست کھا جاتا ہے۔
اس بار اسرائیل کی ناکامی نے حماس کے لیے ایک ایسا تاریخی موقع پیدا کر دیا ہے، جس کا وہ شاید خواب میں بھی تصور نہ کرسکے۔ غزہ میں انسانی بحران کے سبب اسرائیل کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے، اسے سنبھالنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ ان تجزیات کی روشنی میں خلاصہ یہ ہے کہ غاصب صہیونی حکومت کمزور ہوچکی ہے اور اب مغربی و عربی حکومتیں اس گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں۔ حالانکہ اس وقت پوری دنیا میں فلسطینیوں کے حق میں ایک مرتبہ پھر عوامی حمایت کی لہر چل رہی ہے، جس نے حقیقی معنوں میں غاصب صہیونی حکومت کو ایک منفور اور ناجائز ریاست کی شناخت دی ہے۔