آئی ایم ایف سے قرض منظوری اور بھارتی ہتھکنڈے ناکام ہونے پر وزیراعظم کا خوشی کا اظہار
اشاعت کی تاریخ: 9th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیراعظم شہباز شریف نے عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے پاکستان کیلئے ایک ارب ڈالر کی قسط کی منظوری اور بھارت کے اس کے خلاف اوچھے ہتھکنڈے ناکام ہونے پر اظہار اطمینان کیا ہے۔
وزیراعظم نے اس حوالے سے نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ محمد اسحاق ڈار، وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب، سیکریٹری خزانہ امداد اللہ بوصال سمیت حکومت کی معاشی ٹیم کی کارکردگی کو خراج تحسین پیش کیا پے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اللہ کے فضل و کرم سے ملکی معاشی صورتحال بہتر اور ملک ترقی کی جانب گامزن ہے، بھارت یک طرفہ جارحیت سے ہماری ملکی ترقی سے توجہ ہٹانے کی مزموم سازش کر رہا ہے، بین الاقوامی اداروں نے بھارت کے جھوٹے پراپیگینڈے کو ذمہ دارانہ انداز سے مسترد کیا، آئی ایم ایف کے پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی بھارتی کوششیں ناکام ہوئیں۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ پروگرام سے پاکستان کی معیشت کو مستحکم اور اسے طویل مدتی بحالی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی، حکومت ٹیکس اصلاحات، توانائی کے شعبے کی بہتر کارکردگی اور نجی شعبے کی ترقی جیسے اہم شعبوں کے حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر کام کر رہی ہے، گزشتہ چودہ ماہ میں بہتر معاشی اعشاریے حکومت کی مثبت پالیسیوں کا مظہر ہیں، پاکستان کے معاشی استحکام کے لائحہ عمل، مؤثر کارکردگی اور اس حوالے سے پائیدار منصوبہ بندی کے لئے پُرعزم ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
شریک جرم ہونے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی جان قربان کردے، شوکت صدیقی
— فائل فوٹواسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا ہے کہ شریک جرم ہونے سے بہتر ہے کہ انسان اپنی جان قربان کردے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ راولپنڈی بار سے خطاب کے بعد جو واقعہ ہوا اس پر اکثر لوگوں نے کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا۔
سابق جج جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ لوگوں نے کہا کہ آپ نے تو چیف جسٹس بننا تھا، شریک جرم بن کر آپ کتنا ہی اختیار پالیں یا دولت اکٹھی کرلیں، آخر میں پچھتائیں گے کہ مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ خواہش تھی کہ ہائیکورٹ بار میں آؤں، 30 ستمبر 2018 میں آخری مرتبہ بار آیا تھا، بار کا مقروض ہوں کہ مشکل وقت میں میرے ساتھ کھڑی ہوئی۔
جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی موجودہ بلڈنگ جس جگہ پر ہے وہ 2012 میں ہم نے لی، چیئرمین سی ڈی اے کو کہا ہمیں ہائیکورٹ کے لیے مجوزہ جگہیں دکھائیں، چیئرمین سی ڈی اے کو کہا کہ بورڈ میٹنگ میں ڈسکس کریں اور تمام چیزیں لے کر آئیں۔
شوکت صدیقی نے کہا کہ چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ یہ جگہ ایسی ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ اس پر کسی اور کی نظر نا ہو، میں چاہ رہا تھا کہ تمام چیزیں دستاویزات کے ساتھ ریکارڈ پر آ جائیں، بلڈنگ کے ڈیزائن سے متعلق کمپیٹیشن کرایا جس میں سیکڑوں آرکیٹیکس نے حصہ لیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایک تھیم لے کر چل رہے تھے کہ روشن اور ہوادار ماحول ہوگا مگر ایسا نہیں ہوسکا، یہ بلڈنگ نومبر 2015 میں مکمل ہونا تھی، کنٹریکٹ تبدیل ہونے پر پراجیکٹ 5 سال لیٹ ہو جائے گا، یہاں پر صرف انصاف ہوگا اور سب کے لیے برابر ہوگا۔
جسٹس (ر) شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ یہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہے، فیڈرل ہائی کورٹ نہیں، میرا مؤقف ہے کہ یہاں پر ججز کی تعیناتیاں اسلام آباد سے ہونی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ این آئی آر سی کے 6 میں سے 5 بینچز کو ویڈیو لنک کے ساتھ منسلک کردیا ہے، وکلا اب اپنے شہروں میں رہ کر ویڈیو لنک پر دلائل دے دیتے ہیں، ٹی اے ڈی اے کی مد میں بچنے والی رقم کو ملازمین پر خرچ کیا جارہا ہے، صرف پشاور کا بینچ ابھی فی الحال ویڈیو لنک سے منسلک نہیں ہوا۔