جنوبی ایشیاء میں اسرائیلی ماڈل؟ نیا آتش فشاں
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
پاکستان حالیہ دنوں میں بھارتی جارحیت کی زد میں ہے۔ دو روز سے جاری حملے اور سرحدی علاقوں میں بڑھتی ہوئی فوجی نقل و حرکت خطے کی صورتحال کو خطرناک بنا رہی ہے۔ بھارتی میڈیا اور عسکری حلقوں کی جانب سے مسلسل جنگی ماحول پیدا کرنے کی کوششیں، پاکستان کی سرحدوں پر گولہ باری، اور نئے فوجی ہتھیاروں کی تنصیب ایک واضح پیغام دے رہی ہیں کہ بھارت خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے پر تلا ہوا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت اس وقت آل آئوٹ وار کی طرف بڑھ رہا ہے یا صرف دبائو ڈال کر پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے؟ بھارت نے لشکر طیبہ اور جیش محمد پر پاکستان میں حملوں کے ذریعے جہادی تنظیموں کے جن کو بھی چھیڑ لیا ہے۔ اس کے نتیجے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جہادی سرگرمیوں میں نئی حدت و شدت پیدا ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ مودی سرکار کے لیے ایک ڈرائونا خواب بن جائے گا۔بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں، نئی دہلی میں ہندو انتہا پسندی کو فروغ دینا، اور پاکستانی سرحدوں پر جاسوسی ڈرونز کی پروازیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ وہ کسی بڑی جنگی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔
عالمی سطح پر بھارت نے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدے کر رکھے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ جدید ترین ہتھیار حاصل کر رہا ہے۔لیکن بھارت کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان ایران نہیں، بلکہ ایک ایٹمی طاقت ہے۔ پاکستان نہ صرف مسلمہ میزائل پاور ہے بلکہ اس کے پاس جدید ترین بحریہ اور طاقت ور فضائیہ بھی موجود ہے۔ جنوبی ایشیا ء میں اسرائیلی ماڈل نافذ کرنے کی کوشش بھارت کو بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ خطے میں ایک محدود جنگ بھی عالمی سطح پر طاقتوں کو مداخلت پر مجبور کر دے گی، جس کے نتیجے میں بھارت کو شدید معاشی اور سفارتی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔مودی کا انجام خوفناک نظر آ رہا ہے۔ بھارت کی معیشت میں سست روی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری، کسانوں کے احتجاجات اور فرقہ وارانہ کشیدگی مودی سرکار کو گھیرے ہوئے ہیں۔ ایسے میں جنگی ماحول پیدا کرنا بھارتی قیادت کے لیے ایک آزمودہ نسخہ ہے۔ لیکن جب آتش فشاں پھٹتا ہے تو وہ کسی ایک کو نہیں چھوڑتا۔
جنوبی ایشیاء اس وقت آتش فشاں بننے جا رہا ہے اور اس کے لاوے کی زد میں سبھی آئیں گے، چاہے وہ بھارت ہو، پاکستان ہو یا کشمیر۔پاکستان نے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر بھارتی جارحیت کو اجاگر کرنے کے لیے سفارتی سطح پر کوششیں تیز کر دی ہیں۔ پاکستانی افواج مکمل طور پر چوکس ہیں اور کسی بھی قسم کی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عالمی برادری بھارت کے عزائم پر نظر رکھے گی؟ کیا جنوبی ایشیا میں اسرائیلی ماڈل کی بازگشت عالمی امن کے لیے خطرہ نہیں؟ اور کیا بھارت اس خطے کو مستقل جنگی تھیٹر میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ ان سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ واضح ہوں گے، مگر فی الحال صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔بھارت کی داخلی صورتحال روز بروز پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ جہاں ایک طرف ما باغی تحریکیں ریاستی رٹ کو چیلنج کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف سات بہنوں کے علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکیں بھی زور پکڑ رہی ہیں۔ ان تحریکوں کی جڑیں نہ صرف تاریخی ناانصافیوں میں پیوستہ ہیں بلکہ یہ بھارت کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔بھارت کی مسلم اقلیت کو ریاستی سطح پر دبا ئوکا سامنا ہے۔ انہیں کبھی گائے کے تحفظ کے نام پر نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی لو جہاد کے نام پر، اور کبھی کسی اور بہانے سے۔ یہ صورتحال عالمی سطح پر بھارت کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ساتھ ہی ساتھ چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ بھی بھارت کے لئے ایک سنگین چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
لداخ اور اروناچل پردیش جیسے علاقوں میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ دوسری طرف، چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے ذریعے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔ایسی صورتحال میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ محاذ آرائیوں کو بڑھانا خود اس کے لیے ایک تباہ کن فیصلہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جب اندرونی مسائل پہلے ہی سر اٹھا رہے ہوں، تو بیرونی محاذ پر نیا محاذ کھولنا بھارت کی اقتصادی اور سیاسی استحکام کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔اگر بھارت اپنی توجہ داخلی مسائل کے حل پر مرکوز نہیں کرتا اور پاکستان کے خلاف جارحانہ پالیسیوں کو جاری رکھتا ہے، تو یہ نہ صرف خطے کے امن کو نقصان پہنچائے گا بلکہ خود بھارت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کر رہا ہے بھارت کی بھارت کے سکتا ہے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
ایران کے بعد ! اب کس کی باری ہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل درحقیقت مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ از سرِ نو ترتیب دینا چاہتا ہے اور 13 جون کو ایران پر حملہ اور اس کے بعد جوہری تنصیبات پر ہونے والی بمباری اس راستے سے ایک بڑی رکاوٹ کو ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔
ایران کی آبادی 9 کروڑ سے کچھ زیادہ ہے، جو عراق کی آبادی سے تقریباً تین گنا ہے، اور اس کی نسلی ساخت زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس لیے اگر ملک میں بدامنی ہوتی ہے تو یہ ایک بہت بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
1979 کی اسلامی انقلاب سے پہلے ایران اور اسرائیل قریبی اتحادی تھے اور ان کے درمیان گہرے اقتصادی اور عسکری تعلقات تھے۔ تل ابیب کو یقیناً اس ماضی کو دوبارہ حاصل کرنے کی امید ہے۔
13 سے 24 جون کے درمیان ایران کے ساتھ تباہ کن “پیشگی” جنگ کے بعد، جب ایران کو کمزور کر دیا جائے گا، اسرائیل ممکن ہے کہ کسی دوسری “پریشان کن” علاقائی طاقت یعنی ترکی کے خلاف غیر فوجی طریقے سے اقدامات کرے۔
کچھ ماہرین کے مطابق ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، اگرچہ اسرائیل کی طرف سے ترکی کے خلاف براہِ راست فوجی کارروائی کا امکان فی الحال کم ہی نظر آتا ہے۔
ترکی کے سیاسی حلقے اور میڈیا میں یہ رائے عام ہے کہ اسرائیل ترکی کو اپنا اگلا ہدف سمجھتا ہے تاکہ اسے قابو میں رکھا جا سکے۔ اس حوالے سے ترکی کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے سربراہ دولت باہچلی نے کہا کہ “اسرائیل کا مقصد اناطولیہ کے جغرافیے کو گھیر لینا ہے” اور خبردار کیا کہ ترکی “حتمی ہدف” ہے۔
7 اکتوبر 2023 سے مشرقِ وسطیٰ میں جاری بڑی تبدیلیوں اور ایران کے ساتھ حالیہ جنگ کے پس منظر میں ترکی نے اپنے میزائل پروگرام میں تیزی لائی ہے۔ 11 جون 2025 کو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کنیسٹ میں کہا کہ “چاہے کوئی کچھ بھی سمجھے، عثمانی سلطنت اب واپس نہیں آئے گی”۔
خطے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے خدشات کی جڑیں ترکی کی تاریخ میں موجود ہیں، جنہیں ترکی کے سابق وزیرِاعظم نجم الدین اربکان اور ان کے بیٹے فاتح اربکان بار بار بیان کر چکے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے کچھ اشارے بھی ان خدشات کو ہوا دیتے ہیں، جیسے ایک اسرائیلی ٹی وی کا وائرل ویڈیو جس میں ایک تبصرہ نگار نے کہا کہ “آخر کار اسرائیل کو ترکی کا سامنا کرنا پڑے گا”۔
اس کے علاوہ پرتگال کے سابق وزیر برائے یورپی امور برونو میسیاس بھی خبردار کر چکے ہیں کہ ایران پر مغربی یا اسرائیلی حملوں کے بعد ترکی کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں ہو سکتی ہیں۔
پاکستان، جو خطے کی ایک اور اہم اسلامی طاقت ہے اور واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، ایران سے قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے ساتھ “مضبوط یکجہتی” کا اظہار کیا اور اسرائیلی جارحیت کو “انتہائی خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ” قرار دیا، جو خطے میں مزید عدم استحکام لا سکتی ہے۔
اس کے باوجود پاکستان نے سفارتی ذرائع سے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اپنے اسٹریٹیجک شراکت دار چین سے مطالبہ کیا کہ وہ کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے سفارتی کردار ادا کرے۔ پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا کہ اسرائیلی حملوں کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ کوئی نیا عسکری تعاون شروع نہیں کیا۔
پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ ایران-اسرائیل تنازعے میں براہِ راست فریق نہیں ہے، اس کی اصل توجہ بھارت اور افغانستان سے آنے والے خطرات پر مرکوز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اسرائیل کی حالیہ حکمت عملی میں پاکستان کا کردار ثانوی ہے۔
یقیناً اسرائیل، جو ہمیشہ سب کو حیران کرتا رہا ہے، ممکن ہے کہ کچھ اور سوچ رہا ہو۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اسرائیل کا حملہ غزہ پر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے ایران کے ساتھ جنگ بندی کے آثار کے ساتھ ہی کہا: “حماس آج غیر معمولی تنہائی کا شکار ہے، اور یہی وقت ہے کہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا جائے اور غزہ سے مستقل خطرے کا خاتمہ کیا جائے اور مغویوں کو واپس لایا جائے”۔