امریکی عدالت نے اسرائیلی مظالم پر احتجاج کرنے والی ترک طالبہ کو رہا کردیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
امریکا میں غزہ جنگ پر احتجاج کرنے والی ترک طالبہ رمیسہ کو عدالت نے باعزت رہا کردیا۔
ٹفٹس یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی طالبہ اور فلبرائٹ اسکالر رمیسہ اوزترک کو چھ ہفتے سے زائد عرصے تک لوئزیانا کے امیگریشن حراستی مرکز میں رکھا گیا۔
جمعہ کے روز ورمونٹ کے وفاقی جج ولیم سیشنز نے رمیسہ کی فوری رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اسے محض ایک رائے مضمون لکھنے پر قید کیا گیا، جو کہ آئینی حقِ اظہار کے منافی ہے۔
جج نے کہا: ’’یہ گرفتاری ان لاکھوں افراد کی آزادی اظہار پر اثر ڈال سکتی ہے جو غیر شہری ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی شخص اپنے خیالات کے اظہار سے خوف زدہ ہو سکتا ہے۔"
رمیسہ کو مارچ میں سادہ لباس، نقاب پوش اہلکاروں نے بوسٹن کے علاقے سمرول سے گرفتار کیا، جب وہ اپنے گھر کے قریب تھیں۔ ان کا قصور محض اتنا تھا کہ انہوں نے اپنی یونیورسٹی کی فلسطینیوں کے خلاف پالیسی پر تنقید کی اور اسرائیل سے منسلک کمپنیوں سے سرمایہ نکالنے کا مطالبہ کیا۔
امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) کے وکلا نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ رمیسہ کی گرفتاری غیر قانونی اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
رمیسہ نے دورانِ سماعت بتایا کہ وہ حراست کے دوران شدید دمے کے دوروں کا شکار ہوئیں، جو کہ ناقص حالات اور ذہنی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ عدالت نے ان کی صحت کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری رہائی کی ہدایت دی۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
انٹرنیشنل بکر پرائز بھارتی مصنفہ بانو مشتاق نے اپنے نام کرلیا
بھارت کی 77 سال کی وکیل، ایکٹیوسٹ اور مصنفہ بانو مشتاق کو اُن کی کہانیوں کے مجموعے Heart Lamp کے لیے اس سال کا انٹرنیشنل بکر پرائز دیا گیا ہے۔
کسی بھی کہانیوں کے مجموعے کو پہلی بار بکر پرائز کے لیے چُنا گیا ہے اور بانو مشتاق یہ انعام پانے والی پہلی کناڑا زبان کی مصنفہ ہیں۔
اُن کی کہانیاں جنوبی بھارت میں مسلمان خواتین اور لڑکیوں کی روز مرہ زندگی کی کہانیاں ہیں۔
بانو مشتاق نے کہا کہ اُن کی کتاب نے اِس خیال سے جنم لیا کہ کوئی کہانی چھوٹی نہیں ہوتی، ہر کہانی ایک کائنات ہوتی ہے۔
اُن کی کتاب کا کناڑا سے انگریزی میں ترجمہ دیپا بھاشتھی نے کیا۔ بکر پرائز مترجم کو بھی ملتا ہے اور یوں وہ یہ انعام پانے والی پہلی بھارتی مترجم ہیں۔
Post Views: 4