پاکستان، افغانستان اور چین کا سہ فریقی اجلاس، خطے کی صورتحال پر مشاورت
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی جنگی صورتحال کے تناظر میں پاکستان، افغانستان اور چین کے اعلیٰ سطحی وفود پر مشتمل سہ فریقی اجلاس منعقد ہوا، جس میں خطے میں امن و استحکام اور سیکیورٹی تعاون کے امور پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔
اجلاس کی صدارت افغان وزیر خارجہ ملا امیر متقی نے کی جبکہ پاکستان کی نمائندگی سابق سفیر محمد صادق نے کی جو پاکستانی وفد کے سربراہ تھے۔ چین کی جانب سے افغانستان کے لیے چینی نمائندہ خصوصی نے اپنے وفد کی قیادت کی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں حالیہ جنگی کشیدگی، سرحدی سلامتی، عوامی تحفظ اور علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے لیے اقدامات پر غور کیا گیا۔ فریقین نے خطے میں قیام امن، مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل اور یکطرفہ جارحیت سے گریز کی ضرورت پر زور دیا۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
افغانستان میں عسکریت پسند گروپوں کی پناہ گاہیں پاکستان کیلیے خطرہ قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اقوام متحدہ (اے پی پی) پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سیکورٹی خطرے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ
6,000 افراد پر مشتمل ٹی ٹی پی جسے اقوام متحدہ نے افغان سر زمین سے کام کرنے والا سب سے بڑا دہشت گرد گروپ قرار دیا ہے، پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے15 رکنی سلامتی کونسل سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کی پاکستانی سرحد کے قریب محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ افغانستان سے دہشت گردی اس کے پڑوسیوں، خاص طور پر پاکستان کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ پاکستانی مندوب نے افغانستان کی صورتحال پر بحث کے دوران اسرائیل کے بلا اشتعال حملوں کے بعد ایران کی صورت حال کے ممکنہ غیر مستحکم اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان سمیت پڑوسی ممالک میں پناہ گزینوں کا اخراج نئے چیلنجز کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ جنگ زدہ ملک میں پہلے سے ہی نازک حالات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے لیے خطرے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد ادارے بشمول القاعدہ، ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسند گروپ افغانستان میں حکومتی عملداری سے باہر اپنی پناہ گاہوں سے کام کرتے رہتے ہیں۔