بھارتی سکھوں، پاکستان اور افغانستان پر میزائل حملہ کرنیوالی آدم پور ایئرفیلڈ تہس نہس
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
پاکستان نے بھارت کی ہندوتوا چالاکی پر کاری وار کرتے ہوئے بھارتی پنجاب میں سکھوں، پاکستان اور افغانستان پر میزائل داغنے والی ایئر فیلڈ کو بھی تہس نہس کردیا ہے۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق آدم پور سے امرتسر میں سکھوں پر پاکستان اور افغانستان پر میزائل داغے گئے تھے۔پاکستانی میزائلوں سے بیاس کے علاقے میں براہموس اسٹوریج سائٹ تباہ کردی گئی جبکہ پاک فوج نے پٹھان کوٹ میں ایئرفیلڈ کو بھی تباہ کردیا۔پاک فوج نے نئی دہلی میں بھی کچھ اہداف کو نشانہ بنایا ہے، بھارتی بریگیڈ ہیڈکوارٹر کے جی ٹاپ اور اڑی میں سپلائی ڈپو بھی تباہ کردیا گیا ہے۔براہموس اسٹوریج سائٹ نگروٹا کو بھی تباہ کر دیا گیا، بھاری نقصانات کی اطلاعات ملی ہیں، بھارتی آرٹلری گن پوزیشن دہرنگیاری بھی تہس نہس کر دی گئی، پاک فوج نے آدم پور ائیر فیلڈ کو تباہ کر دیا۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ کارروائی بھارتی جنگی جنون کے خلاف ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور قومی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
پاکستان کی حالیہ بارشوں کو گلوبل وارمنگ نے تباہ کن بنایا. تحقیق
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔07 اگست ۔2025 ) پاکستان ہونے والی حالیہ بارشیں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے مہلک ہوئیں اور تباہ کن سیلاب آئے جو سینکڑوں ہلاکتوں کا باعث بنے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق سائنسدانوں کے ایک گروپ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن نے ایک تحقیق میں پاکستان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد بتایا ہے کہ 24 جون سے 23 جولائی جنوبی ایشیا میں 10 سے 15 فیصد تک زیادہ بارشیں ہوئیں، جس کی وجہ سے پاکستان کے شہری و دیہی علاقوں میں سیلاب آئے اور عمارتیں گریں.(جاری ہے)
پاکستان حکومت کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ 26 جون کے بعد سے شدید بارشوں کی وجہ سے اب تک کم سے کم 300 ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ سیلاب کے باعث ایک ہزار چھ سو گھروں کو نقصان بھی پہنچا ہے پاکستان کے شمالی علاقے ہنزہ کے علاقے سرور آباد سے تعلق رکھنے والے ایک کاروباری شخص ثاقب حسن نے منہدم ہونے والے اپنے گھر کے ملبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ 22 جولائی کو ان کے اور 18 عزیزوں کے گھر سیلاب میں بہہ گئے تھے جبکہ ان کے ڈیری فارمز بھی تباہ ہوئے ڈیری فارم میں رکھے گئے جانور تیز لہروں کی نذر ہو گئے جس سے ان کے خاندان کو تقریبا 10 کروڑ روپے کا نقصان ہوا اس چھوٹے سے علاقے میں آخری وقت میں لوگوں کو خبردار کرنے اور گھروں سے نکلنے کے اعلان کا واحد ذریعہ مقامی مساجد ہیں، جہاں سے لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف جانے کی ہدایت کی جاتی ہے. انہوں نے ٹیلی فون پر نشریاتی ادارے کو بتایاکہ اب ہم بے گھر ہیں کیونکہ ہماری رہائش گاہیں تباہ ہو چکی ہیں حکومت کی جانب سے مجموعی طور پر 50 ہزار روپے کا راشن اور سات خیمے دیے گئے ہیں، جن میں ہم پچھلے دو ہفتے سے رہ رہے ہیں اسلام آباد میں رہائش پذیر موسمیات کے سائنسدان جیکب سٹینز جو کہ ڈبلیو ڈبیلو کی تحقیق کا حصہ نہیں تھے، کا کہنا ہے کہ زیادہ درجہ حرارت اور گلوبل وارمنگ نے بارشوں کو ماہرین کی توقع سے بھی زیادہ تیز کر دیا ہے. ان کے مطابق حالیہ ہفتوں کے دوران ہم پاکستان ہی نہیں خطے میں ہونے والے واقعات کا جائزہ لیتے رہے تاہم جنوبی ایشیا میں ہونے والے واقعات نے ہمیں چونکا کر رکھ دیا ہے آسٹریا کی گریز یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ماہر ارضیات سٹیز کا یہ بھی کہنا تھا کہ بہت سے ایسے واقعات جن کے بارے میں اندازہ لگایا تھا کہ وہ 2050 میں رونما ہوں گے وہ 2025 میں ہی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں کیونکہ رواں موسم گرما میں درجہ حرارت اوسط سے کہیں زیادہ رہا ہے چلاس کے علاقے میں پچھلے دنوں کلاڈ برسٹ کا واقعہ بھی سامنے آیا جس سے بڑے پیمانے پر سیلاب آیا اور تباہی ہوئی. مون سون کی بارشوں میں شدت آنے سے جنوبی ایشیا کے علاقے ہل کر رہ گئے ہیں خصوصا ہمالیائی پہاڑوں کے قریب واقع علاقے، جن کا سلسلہ پانچ ممالک تک پھیلا ہوا ہے منجمد جھیلوں کے پگھلنے اور وہاں سے ہونے والے بہا ﺅکی وجہ سے جولائی میں ہائی صرو پاور ڈیموں کے قریب واقع اور نیپال اور چین کو ملانے والا پل تباہ ہوا اسی طرح شمالی انڈیا کا ایک گاﺅں بھی لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آیا جس میں کم سے کم چار افراد ہلاک اور سینکڑوں لاپتہ ہو گئے تھے. تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی بارش کے تجزیے عیاں ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سیلاب کو انتہائی خطرناک بنا رہی ہے ان کا کہنا تھا کہ گرم پہاڑی علاقوں میں زیادہ تباہی دیکھنے میں آئی ہے اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گرم ماحول میں نمی زیادہ ہوتی ہے جو کہ بارشوں کو شدید بنا سکتی ہے . امپیریل کالج لندن کے سینٹر فار انوائرمنٹل پالیسی سے منسلک اور تحقیق کی سربراہی کرنے والی محقق مریم زکریا کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں ہونے والے 10 ڈگری کا ہر اضافہ موسم کو بارشوں کی طرف لے جانے کا باعث بنے گا جس سے یہ بات کی اہمیت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ فوسل ایندھن سے قابل تجدید توانائی کی جانب منتقل ہونا کیوں ضروری ہے.