بھارتی سکھوں، پاکستان اور افغانستان پر میزائل حملہ کرنیوالی آدم پور ایئرفیلڈ تہس نہس
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
پاکستان نے بھارت کی ہندوتوا چالاکی پر کاری وار کرتے ہوئے بھارتی پنجاب میں سکھوں، پاکستان اور افغانستان پر میزائل داغنے والی ایئر فیلڈ کو بھی تہس نہس کردیا ہے۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق آدم پور سے امرتسر میں سکھوں پر پاکستان اور افغانستان پر میزائل داغے گئے تھے۔پاکستانی میزائلوں سے بیاس کے علاقے میں براہموس اسٹوریج سائٹ تباہ کردی گئی جبکہ پاک فوج نے پٹھان کوٹ میں ایئرفیلڈ کو بھی تباہ کردیا۔پاک فوج نے نئی دہلی میں بھی کچھ اہداف کو نشانہ بنایا ہے، بھارتی بریگیڈ ہیڈکوارٹر کے جی ٹاپ اور اڑی میں سپلائی ڈپو بھی تباہ کردیا گیا ہے۔براہموس اسٹوریج سائٹ نگروٹا کو بھی تباہ کر دیا گیا، بھاری نقصانات کی اطلاعات ملی ہیں، بھارتی آرٹلری گن پوزیشن دہرنگیاری بھی تہس نہس کر دی گئی، پاک فوج نے آدم پور ائیر فیلڈ کو تباہ کر دیا۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ کارروائی بھارتی جنگی جنون کے خلاف ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور قومی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
وسطی ایشیائی ریاستیں، تجارتی تعلقات کی نئی راہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گزشتہ دنوں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان اہم ٹیلی فونک رابطہ ہوا، جس میں ازبکستان، پاکستان اور افغانستان کے درمیان ر یلوے لائن فریم ورک کی جلد تکمیل پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ازبکستان، افغانستان، پاکستان ریلوے منصوبے کا مقصد ازبکستان اور پاکستان کے در میان براہ راست ریلوے کے ذریعے رابطہ بنانا ہے، جو افغانستان سے گزرے گا۔ اس منصوبے کا مقصد تجارت کو بڑھانا ہے جو تاشقند، کابل اور پشاور کو جوڑے گا۔ منصوبے پر عمل درآمد سے پاکستان اور وسطی ایشیا کے مابین تجارتی تعلقات کو تقویت ملنے کی توقع ہے۔ یہ ریلوے روٹ افغانستان میں ترمذ، مزار شریف اور لوگر سے گزرے گا جب کہ پاکستان کے ضلع کرم میں خر لاچی بارڈر کراسنگ تک جائے گا۔ یہ منصوبہ مسافروں اور مال برداری کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، اس مقصد کے لیے ریلوے علاقائی تجارت کو فروغ دینے اور علاقے میں مجموعی اقتصادی ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے۔
وسطی ایشیا قدرتی وسائل سے مالا مال اور پاکستان کے لیے بے پناہ اقتصادی مواقع کا حامل ہے۔ پاکستان کا محل وقوع ایسا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطی آکر ملتے ہیں جب کہ جنوب میں بحر ہند کا وسیع سمندر ہے جو چین اور مشرق بعید سے مشرق وسطی، افریقا اور یورپ کے درمیان اہم تجارتی راستوں کی گزرگاہ ہے۔ بحر ہند کی سمندری گزرگاہوں سے توانائی سے مالا مال وسطی ایشیائی ریاستوں تک جانے کے لیے کوئی سمندری ساحل اور بندرگاہ نہیں ہے، واحد زمینی راستہ ایران کے علاوہ پاکستان سے گزر کر جاتا ہے۔ پاکستان سے گزرنے والا یہ راستہ زیادہ تر میدانی اور ہموار ہونے کے با عث آئیڈیل راستہ ہے جب کہ ایران سے جانے والا راستہ زیادہ تر پہاڑی اور ناہموار ہے۔ یہ جغرافیائی حقیقت پاکستان کو وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے ایک دلکش کنجی بنا دیتی ہے۔ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک چین، ایران اور افغانستان کے علاوہ دیگر ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بالعموم اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بالخصوص تجارتی و دفاعی اور عسکری شعبوں میں قابل ذکر تعاون بڑھا سکتے ہیں۔ آذربائیجان کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہو چکا ہے۔ آذربائیجان نے 31 دسمبر 2027 تک پاکستانی چاول پر عائد کردہ کسٹم ڈیوٹی کو استثنیٰ قرار دے رکھا ہے۔ یہ استثنیٰ پاکستان کے لیے بڑا ریلیف ہے، اگر چہ اس ٹیکس چھوٹ کے باوجود پاکستان کی چاول برآمدات آذربائیجان کی کل درآمدات کا محض 4 فی صد ہے۔ قازقستان کی معیشت اس خطے کی بڑی معیشت ہے جہاں 370 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری سامنے آئی ہے۔ قازقستان کے معدنی وسائل میں شامل کوئلہ، کرومائٹ اور زنک کا ذخیرہ دنیا کا دوسرا بڑا ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔ قازقستان قدرتی گیس سے بھی مالا مال ہے۔ ایران سے ہم سستے داموں تیل، لوہا، اسٹیل، چمڑا، شیشہ تازہ سبزیاں اور پھل درآمد جب کہ گندم اور چاول برآمد کر سکتے ہیں۔ گندم اور چاول کی مصنوعات ہم ترکیہ کو بھی برآمد کر سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے چوراہے پر پاکستان کا تزویراتی محل وقوع بلاشبہ اسے رابطے اور تجارتی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لیے اچھی پوزیشن رکھتا ہے، جو پاکستان اور خطے کے لیے اسٹرٹیجک اہمیت کے مرکز کے طور پر امکان پیش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک اہم حصہ ہے، جس میں بنیادی ڈھانچے اور رابطوں میں اضافہ ہے جو وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کو فروغ دے سکتا ہے جبکہ پاکستان، چین، کرغیز جمہوریہ اور قازقستان نے 9 مارچ 1995 کو چہار فریقی ٹریفک اور ٹرانزٹ معاہدے (کیوٹی ٹی اے) دستخط کیے۔ یہ چین، پاکستان، کرغیزستان اور قازقستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریفک اور تجارت کو آسان بنانے کے لیے ایک ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ ہے۔ یہ وسطی ایشیا اور بحیرہ عرب میں پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے درمیان ایک موثر رابطہ نیٹ ورک فراہم کرتا ہے۔ چین نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور اس خطے کے ساتھ اس کی تجارت تقریباً 100 بلین امریکی ڈالر ہے۔ اس کے بعد ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن منصوبہ ہے۔ تاپی منصوبے کا مقصد ترکمانستان میں کلکنیش گیس فیلڈ سے قدرتی گیس افغانستان کے راستے پاکستان اور بھارت لانا ہے۔ تاپی منصوبہ حکومت پاکستان سے انرجی سیکورٹی پلان کا حصہ ہے۔
پاکستان کی پوزیشن اپنے ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران کے ساتھ بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ جہاں مغرب، چین اور بھارت افغانستان کے وسیع معدنی وسائل کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں، پاکستان کی رسائی صرف چند ملین ڈالر کے اجناس کی تجارت تک محدود ہے۔ ایران کے ساتھ، پاکستان، ایران گیس پائپ لائن جو بہت ضروری ہے، دہائیوں سے التوا کا شکار ہے۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کا آغاز ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے، اس سے پاکستان کو جنوبی خطے میں اپنی حیثیت مضبوط کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کے مابین سہ فریقی تزویراتی اتحاد کی بنیاد شنگھائی تعاون تنظیم نے فراہم کی تھی جس میں چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان، بھارت، پاکستان، ایران، بیلا روس شامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سی پیک کے منصوبوں کو جلداز جلد مکمل کر کے پاکستان کے لیے اقتصادی راہداری کو ایران اور ترکیہ کے تیل اور گیس کی فرا ہمی بجلی پیداوار اور ترسیل، تجارتی نقل وحمل، بندرگا ہوں اور جہاز رانی کے ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں۔ ایشیا کے دیگر ممالک جو پاکستان کی طرح بھارت کی جانب سے اشتعال انگیزی کا خطرہ محسوس کر سکتے ہیں۔ جیسے سری لنکا، بنگلا دیش، بھوٹان، نیپال، میانمر کے ساتھ دوستانہ لقات کو استوار کریں۔ باہمی تعاون اور اشتراک کے امکانات کو فروغ دیں۔
قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان کر غیزستان اور تاجکستان توانائی، زراعت اور معدنیات کے وسائل سے مالا مال ہیں اور پاکستان ان کے لیے ایک اہم تجارتی اور ٹرانزٹ مرکز کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ سی پیک اور ٹرانس افغان ریلوے جیسے منصوبے بہتر رابطوں اور تجارت میں سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔ وسطی ایشیا کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات کو فروغ دے کر پاکستان اپنے اقتصادی چیلنجز پر قابو پا سکتا ہے، روایتی منڈیوں پر انحصار کم کر سکتا ہے اور ترقی کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔