سپریم کورٹ کا خواتین فوجی افسران کو مستقل کمیشن کا اہل قرار دینا قابل ستائش ہے، انوما آچاریہ
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایسی خواتین افسران جنہوں نے شارٹ سروس کمیشن کے تحت 14 سال یا اس سے زائد مدت کی خدمت انجام دی، وہ عبوری طور پر پنشن کی مستحق ہونگی۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے 9 مئی کو اپنے ایک اہم فیصلے میں اُن خواتین افسران کو عبوری ریلیف فراہم کیا جو شارٹ سروس کمیشن (ایس ایس سی) پر فوج میں خدمات انجام دے چکی ہیں، مگر جنہیں پنشن کا فائدہ نہیں دیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ اگر ان افسران نے کم از کم 14 سال کی خدمت مکمل کر لی ہے، تو وہ پنشن کے حقدار ہوں گی، چاہے ان کا مستقل کمیشن نہ بھی ہوا ہو۔ اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ریٹائرڈ ونگ کمانڈر انوما آچاریہ نے کہا کہ یہ محض ایک عدالتی کارروائی نہیں، بلکہ کئی خواتین افسران کے لیے ایک نئی امید ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ حوصلے کی بنیاد ہے، میں خود اس سے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل ہوں۔
دہلی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے دفتر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے آچاریہ نے اس فیصلے کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ اس سے ان خواتین کی طویل جدوجہد کو تسلیم کیا گیا ہے جو دہائیوں سے برابری کا حق مانگ رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف ان خواتین کے لئے نہیں جو عدالت گئیں، بلکہ ان کے لئے بھی ہے جن کی آواز کبھی نہ سنی گئی۔ میں آج یہاں صرف ایک سابق فوجی نہیں، ایک شہری، ایک خاتون اور کانگریس کی نمائندہ کے طور پر بول رہی ہوں۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ایسی خواتین افسران جنہوں نے شارٹ سروس کمیشن کے تحت 14 سال یا اس سے زائد مدت کی خدمت انجام دی، وہ عبوری طور پر پنشن کی مستحق ہوں گی، بشرطیکہ ان کے خلاف کوئی عدالتی یا انضباطی کارروائی نہ ہوئی ہو۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ اس عبوری سہولت کے دوران ان افسران کے پنشن فوائد جاری رکھے۔ انوما آچاریہ نے بتایا کہ 1992ء میں کانگریس حکومت کے تحت جب خواتین کو پہلی بار فوج میں شامل ہونے کا موقع ملا، تو وہ ابتدائی بیچ میں شامل تھیں۔ اس وقت خواتین کو صرف 5 سال کے لئے لیا گیا تھا اور مستقل کمیشن یا پنشن کا کوئی تصور نہ تھا۔ بعد میں ان خواتین کو بارہا قانونی جنگ لڑنی پڑی۔
انہوں نے کہا کہ 2007ء میں ونگ کمانڈر انوپما جوشی اور اسکواڈرن لیڈر رخسانہ حق نے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جس کے بعد کئی دیگر خواتین افسران نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ انوما آچاریہ بھی ان افسران میں شامل تھیں۔ انہوں نے کہا کہ 2010ء میں جب دہلی ہائی کورٹ نے خواتین افسران کے حق میں فیصلہ دیا، تو ہم نے راہل گاندھی سے ملاقات کی۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ اس مسئلے کو وزارتِ دفاع کے سامنے رکھیں گے اور رکھا بھی۔ فضائیہ میں خواتین کو جلد انصاف مل گیا لیکن فوج اور بحریہ کی افسران کو کئی سال مزید عدالتوں میں لڑنا پڑا۔ 2020ء میں سپریم کورٹ نے بالآخر خواتین کو مستقل کمیشن دینے کا فیصلہ سنایا، جس کے بعد کچھ خواتین کو پنشن ملی لیکن صرف انہیں جنہوں نے قانونی راستہ اپنایا۔
انوما آچاریہ نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ جو عدالت گئیں، وہ جیت گئیں لیکن کیا باقی خواتین اس لئے محروم رہیں گی کہ وہ خاموش رہیں، یہ نظام کا المیہ ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ خواتین کے مورال کو بلند کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ جسٹس سوریہ کانت نے یہ بات کھل کر کہی۔ انہوں نے مستقبل کے امکانات پر بھی بات کی اور کہا کہ این ڈی اے (نیشنل ڈیفنس اکیڈمی) میں خواتین کی شمولیت سے اب راہیں کھل چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ اگلے چند عشروں میں ایک خاتون آرمی چیف دیکھیں گے۔ آخر میں آچاریہ نے کہا کہ میں ان سب خواتین کو سلام پیش کرتی ہوں جو اپنے حق کے لئے ڈٹی رہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ خواتین افسران انوما آچاریہ نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ خواتین کو آچاریہ نے کورٹ نے کے لئے
پڑھیں:
چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تجاویز منظور کر لیں
اسلام آباد:چیف جسٹس پاکستان سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہارون الرشید اور سیکریٹری بار نے ملاقات کی، جس میں عدالتی کارکردگی کو بہتر بنانے اور وکلا کی فلاح و بہبود کے حوالے سے متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بار کے اعلامیے کے مطابق ملاقات کے دوران صدر بار نے درخواست کی اے ایس سی ایز کو ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کی طرح مقدمات دائر کرنے کی اجازت دی جائے، چیف جسٹس پاکستان نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے متعلقہ دفتر کو اس پر عمل درآمد کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کردی۔
عوامی سہولت مرکز کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے صدر نے تجویز دی کہ ڈپٹی رجسٹرار کے عہدے کے ایک افسر کو ضمانتی مچلکوں اور دیگر عدالتی امور سے متعلق معاملات نمٹانے کے لیے تعینات کیا جائے۔
چیف جسٹس نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور ہدایت دی کہ ایک ڈپٹی رجسٹرار روزانہ صبح گیارہ بجے سے لیکر ساڑھے 11بجے اور دن 2بجے سے لیکر 2بج کر 20 منٹ تک تعینات کر کے امور انجام دیں گے۔