اگر صدارتی آرڈیننس واپس نہ لیا گیا تو ملک بھر میں تاجر برادری پہیہ جام ہڑتال پر مجبور ہو جائے گی، تاجر رہنما
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
تاجر رہنمائوں نے کہا کہ تاجر برادری کے مسائل کے حل کے لیے مرکزی تنظیم تاجران دن رات کوشاں ہے اور ملک بھر کی 80 فیصد سے زائد تاجر برادری مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے مرکزی چیئرمین خواجہ سلیمان صدیقی کی تاجر برادری کے مسائل کے حل کے لیے دن رات جدوجہد کرنے پر شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے مرکزی چیئرمین خواجہ سلیمان صدیقی نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایما پر ایف بی ار کو مزید اختیارات دینے کے صدارتی آرڈیننس کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، اگر صدارتی آرڈیننس واپس نہ لیا گیا تو ملک بھر میں تاجر برادری پہیہ جام ہڑتال پر مجبور ہو جائے گی، انجمن تاجران معصوم شاہ روڈ کے بلامقابلہ نو منتخب عہدے داران کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، جب بھی انہیں ہماری ضرورت پڑے ہم حاضر ہیں، سابق رکن قومی اسمبلی حاجی جاوید اختر انصاری نے کہا کہ تاجر برادری کے مسائل کے حل کے لیے تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے اور جلد ان کی حکومت سے مذاکرات کے لیے پیش رفت ہوگی۔
جماعت اسلامی کے رہنماوں حافظ محمد اسلم، ڈاکٹر صفدر اقبال ہاشمی نے کہا کہ معصوم شاہ روڈ کے تاجران نے نومنتخب بلامقابلہ عہدے داران پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ ایک خوش آئند اقدام ہے، صدر جنوبی پنجاب شیخ جاوید اختر نے کہا کہ تاجر برادری کے مسائل کے حل کے لیے مرکزی تنظیم تاجران دن رات کوشاں ہے، ملک بھر کی 80 فیصد سے زائد تاجر برادری مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے مرکزی چیئرمین خواجہ سلیمان صدیقی کی تاجر برادری کے مسائل کے حل کے لیے دن رات جدوجہد کرنے پر شانہ بشانہ کھڑی ہے، انجمن تاجران معصوم شاہ روڈ کے بلامقابلہ نو منتخب صدر ذیشان ظفر نے کہا کہ تاجر برادری کے اعتماد پر پورا اترنے کے لیے ہمیشہ کی طرح بھرپور کردار ادا کریں گے، ہم تاجر برادری کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہم پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: تاجر برادری کے مسائل کے حل کے لیے نے کہا کہ تاجر برادری کے مرکزی تنظیم تاجران ملک بھر دن رات
پڑھیں:
پاکستان سے تجارت کم کرنا طالبان رجیم کو کتنا مہنگا پڑے گا؟
افغانستان کے تاجروں کو پاکستان کے بجائے متبادل راستے تلاش کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو کہ ایک مشکل کام ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ یہ کہنا تھا پڑوسی ملک افغانستان میں طالبان حکومت کے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر کا جو کچھ دن پہلے کابل میں افغان تاجروں سے ملاقات میں انہیں واضح طور پر بتا چکے تھے کہ پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر ہونے کے امکانات محدود ہیں اور اس کا اثر تجارت پر مزید پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان نیا زرعی تجارتی معاہدہ، بلوچستان کے زمینداروں اور پھل سبزی فروشوں کو تحفظات کیوں؟
ملا برادر سے ملاقات کے بعد افغان تاجر کافی پریشان ہیں۔ ملا برادر کے بیانات اور افغان تاجروں کی پریشانی سے واضح ہو رہا ہے کہ پاکستان سے تجارت افغانستان کے لیے کتنی آسان، سستی اور اہم ہے اور اگراسے کم کیا گیا تو افغان معیشت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
سیاست اور خراب سفارتی تعلقات کے باعث تجارتی حجم میں کمیپاک افغان تجارت سے منسلک تاجروں کے مطابق پاک افغان سفارتی تعلقات کا تجارت پر منفی اثر پڑا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ تجارتی حجم میں اضافے کی بجائے کمی آرہی ہے اور اب نوبت تجارت ختم ہونے کی دہانے پر پہنچی ہے جس سے دونوں ملکوں کو نقصان ہو رہا ہے۔
پاک افغان چیمبر آف کامرس کے کوآرڈینیٹر ضیاء اللہ سرحدی کے مطابق پاک افغان تجارت ہمیشہ سفارتی تعلقات کی کشمکش کی نذر ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بارڈر بندش، نئی پالیسیز اور سختیوں سے نقصان صرف تاجروں کا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: سیاست اور خراب سفارتی تعلقات، پاک افغان تجارت میں کتنا نقصان ہورہا ہے؟
ضیاء اللہ کے مطابق سنہ 2010 تک تجارت عروج پر تھی جس کے بعد پابندیوں اور نئے شرائط نے تجارت کو زبوں حالی کا شکار کر دیا اور افغان ٹریڈ چابہار کی طرف منتقل ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ 70 فیصد تجارت جو یہاں سے ہو رہی تھی وہ اب چابہار منتقل ہو گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند سالوں میں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی نے تجارت کو شدید متاثر کیا ہے۔
تاجروں کے مطابق دوطرفہ تجارتی حجم ڈھائی ارب ڈالر تھا جو اب ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہو گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ چابہار اور دیگر روٹ استعمال کرنا مجبوری ہے اور یہ پاکستان کے روٹ کے مقابلے میں مہنگے اور مشکل بھی ثابت ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاک افغان معاہدہ طے، کن سبزی و پھلوں کی تجارت ہوگی، ٹیرف کتنا؟
اگرچہ افغان طالبان حکومت نے اپنے تاجروں کو واضح بتا دیا ہے کہ پاکستان سے تجارت کم کریں لیکن افغان تاجر اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کے ذریعے یا پاکستان کے راستے ٹرانزٹ ٹریڈ آسان اور سستی ہے۔
پاک افغان تجارت سے وابستہ پشاور میں مقیم ایک افغان تاجر نے بتایا کہ پاکستان سے تجارت ختم کرنا ان کے لیے معاشی طور پر قتل کے برابر ہے۔ انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان میں تمام افغان تاجروں کے تعلقات مضبوط ہیں اور اچانک کسی دوسرے ملک کی طرف تجارت منتقل کرنا ممکن نہیں۔
’دونوں جانب سے تاجر تجارت کے فروغ کے حق میں ہیں‘انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مارکیٹ افغان تاجروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور پاکستانی تاجر بھی باہمی تجارت کے فروغ کے حق میں ہیں۔
تاجر نے کہا کہ پاکستان سے تجارت ختم کرنا ایسا ہے جیسے تاجروں کو کنویں میں دھکیل دیا جائے۔
افغان تاجر کے مطابق پاک افغان تجارت میں کمی یا خاتمے سے دونوں جانب نقصان ہوگا لیکن افغانوں کا نقصان زیادہ ہوگا اور عام عوام بھی متاثر ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک افغان تعلقات میں بہتری، تجارت 3 گنا بڑھانے کا ہدف
وہ کہتے ہیں کہ حالیہ سرحد بندش سے افغان کسانوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ انگور، انار اور دیگر پھلوں کی ترسیل نہیں ہو سکی۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے مال چند گھنٹوں میں پہنچ جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پنڈی یا پشاور سے اگر مال صبح روانہ کیا جائے تو شام تک افغانستان کے کسی بڑے شہر پہنچ جاتا ہے۔
افغان تاجروں کے پاس متبادل راستے محدود اور مہنگے ہیں۔ انڈیا، چین اور تاجکستان کے راستے استعمال کرنے میں وقت زیادہ لگتا ہے اور لاگت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے زمینی راستے افغانستان کے لیے سب سے آسان، سستا اور قابل اعتماد ہیں۔
پاک افغان تجارتپاکستان سے افغانستان میں آٹا، چینی، دالیں، گھی، سبزیاں، تازہ پھل، ادویات، تعمیراتی سامان اور روزمرہ استعمال کی اشیا پہنچتی ہیں جبکہ افغانستان سے پاکستان الیکٹرانکس، سبزیاں، پھل اور دیگر درآمد شدہ مصنوعات بھیجی جاتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاک افغان تجارت سے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے لیکن افغانستان کو اس کی زیادہ ضرورت ہے اور وہ پاکستان پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان تاجر افغانستان پاک افغان تجارت پاک افغان تجارتی روٹ پاکستان