امریکی صدر کی پاکستان اور بھارت کے دیگر مسائل پر بھی ثالثی کی پیشکش
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
واشنگٹن ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 11 مئی 2025ء ) امریکی صدر ڈونلنڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان دیگر مسائل کے حل کیلئے بھی ثالثی کی پیشکش کردی۔ اس حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ میں بھارت اور پاکستان کی مضبوط اور غیر متزلزل ثابت قدم قیادت پر بہت فخر محسوس کرتا ہوں کیوں کہ انہوں نے مکمل طور پر جان لیا اور سمجھا کہ موجودہ جارحیت کو روکنے کا وقت آگیا ہے جو بہت سے لوگوں کی موت اور تباہی کا باعث بن سکتی تھی، امریکہ کو فخر ہے کہ اس نے اس اہم لمحے میں کردار ادا کیا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ لاکھوں اچھے اور بے گناہ لوگ مر سکتے تھے، آپ کے جرات مندادنہ اقدامات سے آپ کی میراث بہت بڑھ گئی ہے، مجھے فخر ہے کہ امریکہ آپ کی مدد کرنے میں کامیاب رہا کہ آپ اس تاریخی اور جرات مندانہ فیصلے پر پہنچ سکیں، ہم دونوں ملکوں کے ساتھ تجارت کو باہمی طور پر فروغ دیں گے، اس کے علاوہ میں آپ دونوں کے ساتھ مل کر دیکھوں گا کہ کیا ’ہزاروں سالوں‘ بعد پریشان کن مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے، میری پوری کوشش ہو گی کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ مل کر اس دیرینہ مسئلے کا پرامن حل تلاش کیا جائے، جس کے لیے دونوں ممالک کے پاس حکمت بھی ہے اور طاقت بھی ہے۔(جاری ہے)
گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت فوری طور پر سیز فائر پر متفق ہوگئے ہیں، امریکہ کی ثالثی میں ایک طویل بات چیت کے بعد مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان نے مکمل اور فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے، ذہانت اور تدبر سے کام لینے پر دونوں ممالک کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اس معاملے پر تمام فریقین کی دلچسپی پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران امریکی نائب صدر وینس اور میں نے بھارت اور پاکستان کے اعلیٰ حکام سے بات چیت کی، جن میں وزرائے اعظم نریندر مودی اور شہباز شریف، وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر، آرمی چیف عاصم منیر اور قومی سلامتی کے مشیران اجیت دووال اور عاصم ملک شامل تھے، مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے فوری جنگ بندی اور ایک غیر جانبدار مقام پر وسیع تر معاملات پر مذاکرات کے آغاز پر اتفاق کیا ہے، ہم وزیراعظم مودی اور وزیراعظم شہباز شریف کے فہم، دوراندیشی اور امن کی راہ اپنانے کے عزم کو سراہتے ہیں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان اور بھارت اور پاکستان امریکی صدر
پڑھیں:
پاک بھارت اور ایران اسرائیل جنگ بندی کے اعلانات، صدر ٹرمپ کے بیانات میں کیا مماثلت رہی؟
ایران اسرائیل اور اس سے قبل پاک بھارت کی جنگ بندی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات میں کئی مماثلتیں دیکھی جا سکتی ہیں جو ان کی سفارتی حکمت عملی، بیانات کے انداز اور مقاصد کی عکاسی کرتی ہیں۔
ٹرمپ نے اس صورتحال میں کون سے ایسے بیانات دیے جو پاک بھارت کشیدگی کے دوران دیے گئے بیانات سے کافی حد تک مماثلت رکھتے ہیں؟ آئیے جانتے ہیں۔
تجارت کو بطور ہتھیار استعمال کیاٹرمپ نے دونوں تنازعات (پاک بھارت اور ایران اسرائیل) کے حل کے لیے تجارت کو ایک اہم ذریعے کے طور پر پیش کیا۔ پاک بھارت تنازعے میں انہوں نے دونوں ممالک کو تجارتی فوائد کی پیشکش کرکے جنگ بندی کروائی جیسا کہ انہوں نے 10 مئی 2025 کو وائٹ ہاؤس میں کہا کہ انہوں نے ’تجارت اور ٹیرف کے ذریعے تنازعے میں کلیدی کردار ادا کیا‘۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی کی خلاف ورزی پر اسرائیل اور ایران دونوں سے خوش نہیں ہوں، ڈونلڈ ٹرمپ
انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم نے تجارت اور ٹیرف کے ذریعے اس تنازعے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ میں نے بھارت اور پاکستان دونوں سے کہا کہ اگر آپ لڑنا چاہتے ہیں تو یہ آپ کی مرضی ہے لیکن آپ یہ نہیں کر سکتے اور پھر امریکا کے ساتھ بہترین تجارتی معاہدوں کی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے بات سنی اور اب ہمارے پاس جنگ بندی ہے۔ تجارت امن کے لیے ایک طاقتور ذریعہ ہے‘۔
اسی طرح ایران اسرائیل تنازعے میں بھی انہوں نے 15 جون 2025 کو سوشل میڈیا پر کہا کہ وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان بھی تجارت کے لالچ سے امن قائم کریں گے۔ یہ دونوں صورتیں ان کی ’ڈیل میکر‘ والی سوچ کو ظاہر کرتی ہیں کہ انہوں نے معاشی فوائد سے جنگ کی صورتحال کو حل کیا۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران اور اسرائیل کو ایک معاہدہ کرنا چاہیے، اور وہ کریں گے بھی، بالکل اسی طرح جیسے میں نے بھارت اور پاکستان کا معاہدہ کرایا۔ تجارت امن کی کنجی ہے، ہر کوئی امریکا کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتا ہے اور میں نے انہیں بتایا کوئی تجارت نہیں، کوئی معاہدہ نہیں، کوئی لڑائی نہیں۔ ہم ایران اور اسرائیل کے درمیان آسانی سے ایک معاہدہ کر سکتے ہیں اور اس خوں ریز تنازعے کو ختم کر سکتے ہیں۔
جنگ بندی کا کریڈٹ لیناٹرمپ نے دونوں تنازعات میں جنگ بندی کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی۔ پاک بھارت تنازعے میں انہوں نے 10 مئی 2025 کو اعلان کیا کہ ان کی ثالثی سے ’فوری اور مکمل سیز فائر‘ ہوا ہے۔ جس سے 2 ایٹمی طاقتوں کے درمیان خطرناک لڑائی ختم ہوئی۔
مزید پڑھیے: ایران اور اسرائیل جنگ بندی پر راضی ہوگئے، صدر ٹرمپ کا اعلان
انہوں نے کہا تھا کہ امریکا کی ثالثی میں ایک طویل رات کی بات چیت کے بعد مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ بھارت اور پاکستان نے مکمل اور فوری سیز فائر پر اتفاق کر لیا ہے۔ دونوں ممالک کو عقلمندی اور زبردست ذہانت کا مظاہرہ کرنے پر مبارکباد۔ اس معاملے پر توجہ دینے کے لیے آپ کا شکریہ۔
اسی طرح ایران اسرائیل تنازعے میں انہوں نے 24 جون 2025 کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اعلان کیا کہ جنگ بندی مؤثر ہو چکی ہے اور دونوں ممالک مرحلہ وار حملے روکیں گے۔ سب کو مبارکباد! اسرائیل اور ایران کے درمیان مکمل اتفاق ہو گیا ہے کہ ایک مکمل اور کلی جنگ بندی ہوگی (تقریباً 6 گھنٹے بعد جب اسرائیل اور ایران اپنے جاری، آخری مشن مکمل کر لیں گے!)، 12 گھنٹوں کے لیے جس کے بعد جنگ کو ختم سمجھا جائے گا! باضابطہ طور پر، ایران جنگ بندی شروع کرے گا اور 12ویں گھنٹے پر اسرائیل جنگ بندی شروع کرے گا اور 24ویں گھنٹے پر، 12 دن کی جنگ کا سرکاری طور پر اختتام دنیا کی طرف سے سلام کیا جائے گا۔
دونوں معاملات میں انہوں نے خود کو امن کے داعی کے طور پر پیش کیا حالانکہ لیکن اسرائیل اور ایران نے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
جوہری تنازعات پر توجہدونوں تنازعات میں جوہری ہتھیاروں کا خطرہ ایک اہم نکتہ رہا۔ پاکستان اور بھارت کے تنازعے میں ٹرمپ نے اسے ایک ممکنہ ایٹمی تنازعہ قرار دیا اور اسے روکنے کی بات کی۔ ’پاکستان اور بھارت جوہری جنگ کی طرف بڑھنے والے تھے لیکن میں نے انہیں روکا‘۔
مزید پڑھیں: ہم نے ایران کے ہاتھ سے بم چھین لیا، اگر وہ اسے حاصل کرلیتے تو ضرور استعمال کرتے، ڈونلڈ ٹرمپ
ایران اسرائیل تنازعے میں بھی انہوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو مرکزی نکتہ بناتے ہوئے کہا کہ حملوں کا مقصد ایران کی جوہری افزودگی کی صلاحیت کا مکمل خاتمہ تھا۔
انہوں نے دونوں صورتوں میں جوہری خطرات کو کم کرنے کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کیا۔
غیر روایتی سفارتی اندازٹرمپ کا غیر روایتی اور براہ راست سفارتی انداز دونوں تنازعات میں نمایاں ہے۔ پاک بھارت تنازعے میں انہوں نے سوشل میڈیا اور عوامی بیانات کے ذریعے جنگ بندی کا اعلان کیا جو بھارت کے لیے غیر متوقع اور حساس تھا۔
ایران اسرائیل تنازعے میں بھی انہوں نے ٹروتھ سوشل پر جنگ بندی کا یکطرفہ اعلان کیا حالانکہ ایران نے اس کی تردید کی۔ ان کا یہ انداز روایتی سفارتی پروٹوکول سے ہٹ کر ہے جو دونوں معاملات میں یکساں نظر آتا ہے۔
علاقائی استحکام پر زورٹرمپ نے دونوں تنازعات کے حل کو خطے کے استحکام سے جوڑا۔ پاک بھارت کے تنازعے میں انہوں نے کہا کہ جنگ بندی سے خطے میں تجارت اور تعلقات بہتر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ رکوائی۔ دونوں ممالک سے کہا کہ جب تک جنگ ختم نہیں ہوگی تب تک ان سے تجارت نہیں ہوسکتی‘۔
ایران اسرائیل تنازعے میں بھی انہوں نے مشرق وسطیٰ میں ’پائیدار امن‘ کی بات کی اور کہا کہ یہ جنگ پورے خطے کو تباہ کر سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جلد اسرائیل اور ایران کے درمیان بھی امن قائم ہو جائے گا، یہ ایک ایسی جنگ تھی جو برسوں تک چل سکتی تھی اور پورے مشرق وسطیٰ کو تباہ کر دیتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی ہوگا‘۔
دونوں صورتوں میں انہوں نے خود کو خطے کے امن کے لیے ایک اہم کردار کے طور پر پیش کیا۔
پاکستان کے کردار پر زوردونوں تنازعات میں ٹرمپ نے پاکستان کے کردار کو اجاگر کیا۔ پاک بھارت تنازعے میں انہوں نے پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی تعریف کی اور کہا کہ انہوں نے جنگ روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس شخص (جنرل عاصم منیر) نے پاکستان کی جانب سے (بھارت کے ساتھ) جنگ روکنے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا‘۔ یہ ملاقات پاک بھارت تنازعے کے بعد فیلڈ مارشل عاصم منیر کے وائٹ ہاؤس دورے کے موقع پر ہوئی۔
ایران اسرائیل تنازعے میں بھی انہوں نے کہا کہ پاکستان ایران کو اچھی طرح جانتا ہے اور وہ اس تنازعے کے حل میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ (پاکستان) ایران کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، شاید سب سے زیادہ اور وہ کسی چیز سے خوش نہیں ہیں۔
یہ مماثلت ان کی سفارتی حکمت عملی میں پاکستان کو ایک اہم شراکت دار کے طور پر دیکھنے کی عکاسی کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستان نے ٹرمپ کو نوبیل امن انعام دینے کے لیے نوبیل کمیٹی کو خط بھیج دیا
ٹرمپ کے بیانات میں مماثلت ان کی سفارتی حکمت عملی کو ظاہر کرتی ہے جو تجارت، جوہری خطرات کو روکنے اور ذاتی کریڈٹ لینے پر مبنی ہے۔ وہ دونوں تنازعات میں خود کو امن کے داعی کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن ان کے دعوؤں کی مکمل تصدیق نہ ہونے سے ان کی تاثیر پر سوالات اٹھتے ہیں۔ ان کی یہ حکمت عملی خطے کے استحکام کے لیے اہم ہو سکتی ہے لیکن اس کے نتائج کا انحصار فریقین کی عملی رضامندی پر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران اسرائیل جھڑپیں ایران اسرائیل کشیدگی پاک بھارت تنازع پاک بھارت کشیدگی