خطے میں دیرپا امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے: ڈاکٹر محمد فیصل
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
سٹی42:برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا ہے کہ خطے میں دیرپا امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔
اپنے بیان میں ڈاکٹر محمد فیصل نے پاک بھارت جنگ بندی کے حوالے سے کہا کہ امید ہے پاک بھارت جنگ بندی دیرپاہوگی، پاک بھارت جنگ بندی کیلئے امریکا نے بہترین کردار کا اداکیا۔
انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعے میں جو بھی ملوث ہوا سے سزادی جانی چاہیے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ خودجج بنیں اور فیصلہ کرکے بمباری شروع کردیں۔
پاکستان کا پرچم اللہ تعالی نے سر بلند رکھا اور فتح سے نوازا؛ خواجہ عمران نذیر
پاکستانی ہائی کمشنر نے مزید کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع بھارت نے خود پیچیدہ بنایا ہے، اگربھارت عالمی قوانین کا احترام کرے تو مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں، خطے میں دیرپا امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔
.ذریعہ: City 42
پڑھیں:
عالمی امن انڈیکس 2025: بھارت کی کشمیر میں عسکری جارحیت ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے
بھارت(نیوز ڈیسک)عالمی امن انڈیکس 2025 کی تازہ رپورٹ نے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام پر شدید خدشات ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری عسکری جارحیت پورے خطے کو ایٹمی تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کشمیرکو جنوبی ایشیا کا سب سے خطرناک اور حساس تنازع قراردیا گیا ہے جو کسی بھی وقت ایک تباہ کن جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے بھارت نے 1989 سے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی جبر و تشدد کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں اب تک 40 ہزار سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔
بھارت نے وادی کشمیر کو دنیا کا سب سے زیادہ فوج زدہ علاقہ بنا دیا ہے، جہاں پانچ لاکھ سے زائد فوجی اہلکار، 1.3 لاکھ پولیس، راشٹریہ رائفلز اور دیگر نیم فوجی دستے تعینات ہیں اس کے برعکس پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر میں محض دفاعی نکتہ نظر سے محدود تعداد میں فوج تعینات ہے، جو دونوں ممالک کے رویوں میں نمایاں فرق کو ظاہرکرتا ہے۔
مئی 2025 کے دوران بھارت کی جانب سے پاکستان پر میزائل حملے کو خطے کے لیے انتہائی خطرناک قدم قرار دیا گیا ہے، جس سے جنوبی ایشیا ایٹمی تصادم کے دہانے پرآ گیا تھا، عالمی امن انڈیکس نے اس واقعے کو بھارت کی عسکری جارحیت اور سفارتی غیرسنجیدگی کی مثال قرار دیا۔
“مسلح افراد” کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ عالمی برادری بھارت کی جانب سے کشمیری مزاحمت کاروں کو “دہشت گرد” کہنے کے مؤقف کو قبول نہیں کرتی۔ اس سے بھارت کا یک طرفہ بیانیہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
اگست 2019 کے اقدام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کوختم کر کے کشمیریوں کے ساتھ کیا گیا آئینی معاہدہ توڑ دیا، اس اقدام کے بعد بھارت نے ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کر دیا اور وادی میں مواصلاتی بلیک آؤٹ، ہزاروں گرفتاریوں اور مکمل فوجی محاصروں کے ذریعے شہری آزادیوں کو سلب کر دیا۔
کشمیری عوام کی مزاحمت، محرومی اور غصہ ان مظالم کے بعد مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔ بھارت نے اپنے اقدامات کو “قومی وحدت” اور “قانونی اصلاحات” کا نام دے کر اصل نیت کو چھپانے کی کوشش کی، مگر یہ پالیسیاں دراصل ہندوتوا ایجنڈے کو فروغ دینے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔
رپورٹ نے خبردار کیا کہ آئندہ بارہ ماہ کے دوران کشمیر میں شدید جھڑپوں اور ممکنہ جنگ کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔ بھارت کے اندر بھی اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں، کے خلاف تشدد اور انتہا پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے، جو ملک کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کر رہا ہے۔
رپورٹ کا اختتام اس انتباہ پر ہوتا ہے کہ: “بھارت کے فوجی تسلط کے باوجود کشمیریوں کی تحریکِ آزادی نہ صرف زندہ ہے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کی فسطائی پالیسیوں کو بے نقاب کر رہی ہے، دنیا کو چاہیے کہ وہ کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کرے اور خطے میں دیرپا امن کے لیے فعال کردار ادا کرے۔”
ڈنمارک کے سفارت خانے کے وفد کی اڈیالہ جیل آمد، گرفتار شہری سے ملاقات