ٹرمپ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے،نیتن یاہو
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 مئی2025ء)اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں، ٹرمپ فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کریں گے کہ اسرائیل کی سلامتی کو خطرے میں ڈالیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے اختلافات کے بارے میں خبروں کے جواب میں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ آپ فلسطینی ریاست کے بارے میں سنیں گے اور ٹرمپ اسے تسلیم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں اپنے جنگی منصوبوں کے حوالے سے اسرائیل واشنگٹن سے اجازت نہیں مانگتا۔نیتن یاہو نے خارجہ امور اور سلامتی کمیٹی کے سامنے کہا کہ میں نے میڈیا میں سنا ہے کہ میں اور ٹرمپ ایک دوسرے سے ناراض ہیں اور سفیر تل ابیب میں امریکی سفیر مائیک ہکابی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں۔(جاری ہے)
انہوں نے مزید کہا کہ میں اور ٹرمپ ہر چند دنوں میں بات کرتے ہیں اور خود ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہم ایک ہی بات دیکھتے ہیں۔
اس لیے میرا نہیں خیال کہ آپ فلسطینی ریاست کے بارے میں سنیں گے۔ چینلز پر تقسیم کی بات کی سیاسی وجوہات ہیں۔انہوں نے زور دیا کہ کہ ہم نے حوثیوں پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں مانگی اور نہ ہی ہم غزہ میں اپنے جنگی منصوبوں کے لیے اجازت مانگتے ہیں۔ امریکیوں نے حوثیوں کے خلاف مداخلت کرنے کی رضاکارانہ پیشکش کی اور کہا تھا کہ جب حوثی حملے بند کر دیں گے تو وہ بھی رک جائیں گے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فلسطینی ریاست نے کہا
پڑھیں:
آسٹریلیا کا بڑا فیصلہ: اگلے ماہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
آسٹریلیا کے وزیرِاعظم انتھونی البانیز نے اعلان کیا ہے کہ آسٹریلیا ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ دو ریاستی حل کے فروغ اور مشرقِ وسطیٰ میں تشدد کے خاتمے کے لیے اہم قدم ہے۔
انتھونی البانیز کے مطابق، فلسطینی اتھارٹی نے اس فیصلے کے بدلے کئی وعدے کیے ہیں، جن میں حماس کو مستقبل کی ریاست سے الگ رکھنا، اسرائیل کے پرامن وجود کو تسلیم کرنا، غیر مسلح ہونا، عام انتخابات کرانا، شہدا و قیدیوں کے خاندانوں کو ادائیگیاں ختم کرنا، گورننس میں اصلاحات، تعلیمی و مالی شفافیت، اور عالمی نگرانی کی اجازت شامل ہیں تاکہ نفرت اور تشدد کی ترغیب روکی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ یہ موقع فلسطینی عوام کو اس انداز میں حقِ خود ارادیت دینے کا ہے جو حماس کو مکمل طور پر خطے سے باہر کر دے۔
اس فیصلے کو عرب لیگ کے حالیہ مطالبے سے بھی تقویت ملی ہے جس میں حماس سے کہا گیا تھا کہ وہ غزہ میں حکمرانی چھوڑ کر ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرے۔