بھارتی میڈیا کسی پرانی پنجابی فلم کی چیختی چلاتی کہانی لگتا ہے: مشی خان
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
پاکستان کی معروف اداکارہ و میزبان مشی خان نے پاک بھارت کشیدگی پر بھارتی میڈیا پر تنقید کے نشتر چلادیے۔
وہ حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شریک ہوئیں جہاں انہوں نے موجودہ صورتحال اور شوبز سے جڑے حساس موضوعات پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔
مشی خان نے بھارت کے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں فالس فلیگ آپریشن اور پاکستانی شہروں اور سرحدوں پر بھارتی جارحیت کو ظالمانہ اور بلاجواز قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ پاک فوج نے اس حملے کا بھرپور جواب دے کر دشمن کو منہ توڑ پیغام دیا اور آج پوری قوم اس شاندار کامیابی پر جشن منا رہی ہے۔
مشی خان کا کہنا تھا کہ الحمداللّٰہ ہمارے فنکار جاگ گئے ہیں، آخرکار انہوں نے لب کشائی شروع کی، ہم نے بار بار آواز اٹھائی کہ یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں۔ اب جو ٹوئٹس، ویڈیوز اور سوشل میڈیا پوسٹس دیکھنے کو مل رہی ہیں وہ امید کی کرن ہیں، یاسر نواز اور منیب بٹ کی ویڈیو دیکھی تو دل خوش ہوگیا۔
انہوں نے زور دیا کہ فنکاروں کو اپنے پلیٹ فارم کا ذمہ دارانہ استعمال کرنا چاہیے، ان کا کردار صرف اداکاری تک محدود نہیں رہا وہ رائے عامہ پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، جب قوم مشکل میں ہو، تو ان کی خاموشی بھی جرم بن جاتی ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ اگرچہ فنکار عالمی سطح پر پہچانے جاتے ہیں اور ان کے مداح ہر جگہ ہوتے ہیں، مگر جب وطن عزیز خطرے میں ہو تو اپنی شناخت، اپنے نظریے اور اپنی زمین کو مقدم رکھنا چاہیے۔
انکا کہنا تھا کہ فن کی کوئی سرحد نہیں لیکن جب دو ملک آمنے سامنے ہوں تو اپنی حدیں خود طے کرنا پڑتی ہیں، محبت تب ہی معتبر ہے جب اس کی بنیاد عزتِ وطن پر ہو۔
مشی خان نے بھارتی میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ انڈین میڈیا کسی پرانی پنجابی فلم کی چیختی چلاتی کہانی لگتا ہے، جہاں سچ کم ڈرامہ زیادہ ہوتا ہے، نہ ثبوت نہ تحقیق صرف سنسنی اور فریب۔
انہوں نے مشہور بھارتی یوٹیوبر اور سابق فوجی گورو آریہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے محض جذبات بھڑکا رہے ہیں، انہوں نے اپنے عوام کو جھوٹ اور ڈھکوسلوں سے بہکایا، اب شرمندگی سے معافیاں مانگ رہے ہیں۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ڈیجیٹل دنیا میں مستعمل نشان ’ @‘: جانیے اس کا مطلب اور ہزاروں سال پرانی دلچسپ تاریخ
آج ’@‘ کا نشان ہمیں ای میل ایڈریس، سوشل میڈیا ہینڈل اور ڈیجیٹل دنیا میں ہر جگہ دکھائی دیتا ہے لیکن اس سادہ سے کرخت نشان کے پیچھے ایک کہانی ہزاروں سال پرانی ہے جو قدیم یونان کی مٹی کی برتن سازی سے شروع ہوتی ہے اور آج کی ڈیجیٹل دنیا تک جا پہنچتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اظہار محبت کے خفیہ اشارے: کیا ایموجیز صدیوں پرانے کوڈ ورڈز کا تسلسل ہیں؟
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق نیویارک کے مشہور میوزیم ’میوزیم آف ماڈرن آرٹ‘کی کیوریٹر پاولا انتونیلی نے سنہ 2010 میں ایک منفرد قدم اٹھایا اور ’@ کا نشان‘ میوزیم کے مستقل ذخیرے میں شامل کر لیا۔
ان کا مقصد ایسے روزمرہ کے معمولی سمجھے جانے والی اشیا کو اجاگر کرنا تھا جنہوں نے انسانی زندگی کو بدل کر رکھ دیا ہے جیسے پوسٹ اٹ نوٹ، کاغذی کلپ، ایم اینڈ ایمز اور کچن ٹولز۔
دنیا بھر میں @ (ایٹ) کے دلچسپ نامیہ حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں ’@‘ کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ تائیوان میں اسے ’چھوٹا چوہا‘، روس میں ’کتا‘، ہالینڈ میں ’بندر کی دم‘ اور یونان میں ’چھوٹا بطخ’ کہا جاتا ہے۔ اٹلی میں اسے ’چیوتچولا‘ یعنی گھونگا، چیک ریپبلک میں ’زاویناچ‘ یعنی ہیرنگ رول جبکہ اسپین و پرتگال میں اسے ’آروبا‘ کہتے ہیں۔
مزید پڑھیے: زبان کا جادو: کیا آپ اصل انٹرنیٹ دیکھ بھی پاتے ہیں؟
عبرانی زبان میں ’@‘ کو غیر رسمی طور پر ’اسٹرُوڈل‘ کہا جاتا ہے جو ایک یورپی مٹھائی ہے۔ یہ تہہ دار (لچھے دار) آٹے سے بنائی جاتی ہے جس کے اندر عام طور پر سیب، دار چینی یا دیگر میٹھے اجزا بھرے جاتے ہیں۔ ’@‘ کی گول، لپٹی ہوئی شکل اس پیسٹری سے مشابہت رکھتی ہے اس لیے عبرانی بولنے والوں نے اسے مزاحیہ اور تخلیقی انداز میں ’اسٹرُوڈل‘ کا نام دے دیا۔ ایک علامت جو اب صرف انٹرنیٹ کا حصہ نہیں بلکہ مختلف ثقافتوں میں اپنی الگ پہچان بھی رکھتی ہے۔
@ کی قدیم جڑیں یونانی برتنوں سے لے کر ٹائپ رائٹر تکعلامت @ کی جڑیں قدیم یونانی مٹی کے برتن ’ایمفورا‘ سے جڑی ہوئی ہیں جنہیں تیل، اناج اور شراب ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ، ایمفورا ایک تجارتی پیمانہ بن گیا اور تاجروں نے ’a‘ کو ایک دم دار انداز میں لکھنا شروع کیا جو آخرکار ’@‘ کی شکل اختیار کر گیا۔
سنہ 1536 میں ایک اطالوی تاجر فرانچسکو لاپی نے ’@‘ کی موجودہ طرز پر پہلی بار اس علامت کو ایمفورا کے لیے استعمال کیا جب اس نے روم کو ایک خط میں شراب کی قیمت ’70 یا 80 ڈکٹ فی ایمفورا‘ کے حساب سے بتائی۔
ٹائپ رائٹرز اور بزنس اکاؤنٹنگ میں ‘@’ کی بقا19ویں صدی میں جب ٹائپ رائٹرز کا استعمال عام ہوا تو @ نے بطور کاروباری علامت اپنی جگہ بنائی خاص طور پر قیمتوں کے اظہار کے لیے (مثلاً 5 items @ $2 each)۔یہی کاروباری اہمیت اسے ہر نسل کے ٹائپ رائٹر میں زندہ رکھتی رہی۔
مزید پڑھیے: انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
انٹرنیٹ انقلاب: ’@‘ کی شناخت کا نیا جنمسنہ1971 میں امریکی کمپیوٹر سائنس دان رے ٹاملِن سن نے پہلی ای میل بھیجنے کے لیے @ کا انتخاب کیا تاکہ یوزرنیم کو نیٹ ورک کے ایڈریس سے جوڑا جا سکے۔ یوں @ انٹرنیٹ کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ بن گیا اور تب سے یہ ہماری ڈیجیٹل شناخت کا جزو لا ینفک بن چکا ہے۔
آن لائن شناخت اور ‘@’ کا گہرا تعلقماہرین لسانیات کے مطابق آج کے ڈیجیٹل دور میں ’@‘ محض ایک علامت نہیں، بلکہ ہماری آن لائن شناخت کا عکاس ہے۔ لوگ اپنے یوزرنیمز کو بہت سوچ سمجھ کر چنتے ہیں کیونکہ وہ انہیں اپنے جذبات، شخصیت اور شناخت کے اظہار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بغیر کوئی ای میل، سوشل میڈیا ہینڈل یا آن لائن گفتگو مکمل نہیں سمجھی جاتی۔
دی میوزیم آف ماڈرن آرٹ میں @ کا اعزازدی میوزیم آف ماڈرن آرٹ کی نمائش میں جب @ کو شامل کیا گیا تو مقصد یہ تھا کہ لوگ عام اشیا کو نئے زاویے سے دیکھیں۔
پاؤلا انتونیلی نے کہا کہ اس چھوٹے سے نشان کے اندر ایک پوری دنیا چھپی ہوئی ہے۔ یہ ہمیں اس بات کی خوشی اور فخر دلاتا ہے کہ ہم ایک ایسے ڈیزائن شدہ دور کا حصہ ہیں جہاں ہر چیز کے پیچھے ایک کہانی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟
آج بھی دنیا کے کچھ حصوں میں @ کو اس کی شکل کی بنیاد پر نام دیا جاتا ہے کوئی اسے گھونگا کہتا ہے، کوئی بندر کی دم، اور کوئی چھوٹی بطخ!
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
@ کا مطلب @ کا نشان ایٹ جنرل (ر) قمر باجوہ قدیم کہانی