امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ ’ہزار سال‘ سے جاری کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کے لیے بھارت اور پاکستان کے ساتھ مل کر کام کریں گے، ان کا یہ حالیہ بیان پاکستان بھارت اور کشمیری عوام کے لئے خاص اہمیت رکھتا ہے۔

صدر ٹرمپ کے مذکورہ بیان کو پاکستان کے حکومتی و سفارتی حلقے جہاں خوش آئند اور امید افزا قرار دے رہے ہیں وہیں بھارت ان کے اس بیان سے خاصا ناخوش نظر آتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد کی پیشکش، وزیراعظم شہباز شریف کا ٹرمپ کے بیان کا خیرمقدم

شملہ معاہدے 1972 کی رو سے مسئلہ کشمیر ایک دو طرفہ معاملہ ہے اور اس پر دونوں ملک آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں، جہاں بھارت کشمیر پر کسی بھی قسم کی ثالثی تو درکنار بات چیت کے لیے بھی آمادہ نہیں وہیں اس کا مؤقف ہے کہ اصل مسئلہ سرحد پار سے آنے والی دہشت گردی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلے پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی ممکن ہوسکتی ہے؟

سفارتی ماہرین صدر ٹرمپ کے اس بیان کو علامتی طور پر اہم سمجھتے ہیں۔

مائیکل کوگلمین

جنوبی ایشیا امور کے امریکی ماہر تجزیہ کار مائیکل کوگلمین اسے ’ایک بڑی پیش رفت‘ قرار دیتے ہیں، ان کے خیال میں کیونکہ حالیہ برسوں میں پاک-بھارت مذاکرات محدود ہو کر رہ گئے تھے لہذا صدر ٹرمپ کا حالیہ بیان مذاکرات کے نئے در وا کرسکتا ہے۔

مائیکل کوگلمین لکھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات  کی پیشکش کو بھارت یقیناً مسترد کر دے گا۔

عبد الباسط

پاکستان کے سابق سفارتکار عبد الباسط نے ایک وی لاگ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر حل کیے جانے سے متعلق صدر ٹرمپ کے بیان پر بھارت میں بہت غصہ ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی تعریف کی جانی چاہیے کیونکہ انہوں نے کم از کم دونوں ملکوں کے بیچ مسئلے کی جڑ کو پکڑا ہے۔

’امریکی صدر کا یہ احساس کہ جموں کشمیر کا مسئلہ اصل مسئلے کی جڑ ہے، ایک خوش آئند اور حوصلہ افزا بات ہے، صدر ٹرمپ اگر اس معاملے کو آگے لے کر چلیں تو شاید اس کے کچھ نتائج نکل بھی آئیں۔‘

عبد الباسط کے مطابق بھارت اس معاملے میں ثالثی کو مسترد کرتا ہے لیکن ثالثی اگر نہ بھی ہو تو سہولت کاری ہو جائے۔ ’دیکھنا یہ ہے کہ اگر صدر ٹرمپ جموں کشمیر پہ خصوصی نمائندہ مقرر کرتے ہیں تو یہ اہم بات ہو گی لیکن ہمیں چین کو ساتھ رکھنا چاہیے کیونکہ چین اس مسئلے میں خود ایک فریق ہے اس لیے اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔‘

اعزاز چوہدری

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے لڑائی نہیں چاہتے، یہ صرف وہاں ایک آر ایس ایس بریگیڈ کی حکومت ہے جو ایسا چاہتی ہے۔

’بھارت کو چاہیے کہ صدر ٹرمپ کی پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ کشمیر، دریائی پانی اور دیگر معاملات پر بات چیت کرے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا امریکی صدر بھارت پاکستان ثالثی چین صدر ٹرمپ کشمیر مذاکرات.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا امریکی صدر بھارت پاکستان ثالثی چین مذاکرات مسئلہ کشمیر صدر ٹرمپ کے پاکستان کے کے لیے

پڑھیں:

عالمی امن انڈیکس 2025: بھارت کی کشمیر میں عسکری جارحیت ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے

بھارت(نیوز ڈیسک)عالمی امن انڈیکس 2025 کی تازہ رپورٹ نے جنوبی ایشیا کے امن و استحکام پر شدید خدشات ظاہر کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری عسکری جارحیت پورے خطے کو ایٹمی تصادم کی طرف دھکیل رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کشمیرکو جنوبی ایشیا کا سب سے خطرناک اور حساس تنازع قراردیا گیا ہے جو کسی بھی وقت ایک تباہ کن جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے بھارت نے 1989 سے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی جبر و تشدد کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں اب تک 40 ہزار سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔

بھارت نے وادی کشمیر کو دنیا کا سب سے زیادہ فوج زدہ علاقہ بنا دیا ہے، جہاں پانچ لاکھ سے زائد فوجی اہلکار، 1.3 لاکھ پولیس، راشٹریہ رائفلز اور دیگر نیم فوجی دستے تعینات ہیں اس کے برعکس پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر میں محض دفاعی نکتہ نظر سے محدود تعداد میں فوج تعینات ہے، جو دونوں ممالک کے رویوں میں نمایاں فرق کو ظاہرکرتا ہے۔

مئی 2025 کے دوران بھارت کی جانب سے پاکستان پر میزائل حملے کو خطے کے لیے انتہائی خطرناک قدم قرار دیا گیا ہے، جس سے جنوبی ایشیا ایٹمی تصادم کے دہانے پرآ گیا تھا، عالمی امن انڈیکس نے اس واقعے کو بھارت کی عسکری جارحیت اور سفارتی غیرسنجیدگی کی مثال قرار دیا۔

“مسلح افراد” کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے واضح کیا گیا کہ عالمی برادری بھارت کی جانب سے کشمیری مزاحمت کاروں کو “دہشت گرد” کہنے کے مؤقف کو قبول نہیں کرتی۔ اس سے بھارت کا یک طرفہ بیانیہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔

اگست 2019 کے اقدام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کوختم کر کے کشمیریوں کے ساتھ کیا گیا آئینی معاہدہ توڑ دیا، اس اقدام کے بعد بھارت نے ریاست کو دو مرکزی علاقوں میں تقسیم کر دیا اور وادی میں مواصلاتی بلیک آؤٹ، ہزاروں گرفتاریوں اور مکمل فوجی محاصروں کے ذریعے شہری آزادیوں کو سلب کر دیا۔

کشمیری عوام کی مزاحمت، محرومی اور غصہ ان مظالم کے بعد مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔ بھارت نے اپنے اقدامات کو “قومی وحدت” اور “قانونی اصلاحات” کا نام دے کر اصل نیت کو چھپانے کی کوشش کی، مگر یہ پالیسیاں دراصل ہندوتوا ایجنڈے کو فروغ دینے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔

رپورٹ نے خبردار کیا کہ آئندہ بارہ ماہ کے دوران کشمیر میں شدید جھڑپوں اور ممکنہ جنگ کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔ بھارت کے اندر بھی اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں، کے خلاف تشدد اور انتہا پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے، جو ملک کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کر رہا ہے۔

رپورٹ کا اختتام اس انتباہ پر ہوتا ہے کہ: “بھارت کے فوجی تسلط کے باوجود کشمیریوں کی تحریکِ آزادی نہ صرف زندہ ہے بلکہ عالمی سطح پر بھارت کی فسطائی پالیسیوں کو بے نقاب کر رہی ہے، دنیا کو چاہیے کہ وہ کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کرے اور خطے میں دیرپا امن کے لیے فعال کردار ادا کرے۔”

ڈنمارک کے سفارت خانے کے وفد کی اڈیالہ جیل آمد، گرفتار شہری سے ملاقات

متعلقہ مضامین

  • بھارت غیرقانونی طور پر کشمیر پر قابض ہے؛ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں خواجہ آصف کا دوٹوک مؤقف
  • عین ممکن ہے ٹرمپ پاکستان کا دورہ کریں، بلاول بھٹو زرداری
  • ٹرمپ کی ایک بار پھر فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تعریف
  • ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس پر منافع کی شرح کتنی ہے؟
  • اسرائیل ایران جنگ کا ڈرامائی اختتام ، ٹرمپ پھر مرد بحران قرار
  • مسئلہ کشمیر پر صدر ٹرمپ کی ثالثی!
  • شہباز شریف کا ایرانی صدر کو فون،امن بحالی کی اہمیت پر زور
  • شہباز شریف کا مسعود پزشکیان سے ٹیلیفونک رابطہ، امن بحالی کی اہمیت پر زور
  • عالمی امن انڈیکس 2025: بھارت کی کشمیر میں عسکری جارحیت ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے
  • ٹرمپ کا ثالثی کا دعویٰ: بھارت امریکہ کے درمیان تناؤ کا باعث