بلیک ہول کی خوراک بنتا سورج پہلی بار کیمرے میں قید، خوفناک منظر
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
بلیک ہول کی خوراک بنتے سورج کے حیرت انگیز مناظر ٹیلی اسکوپ میں قید ہوگئے جس نے سائنسدانوں کو حیران کردیا۔
ایک خوفناک دریافت جو سائنسی افسانے کی طرح لگی، حال ہی میں ماہرین فلکیات نے ناسا کے ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ کا استعمال کرتے ہوئے کئی میل دور ایک بہت بڑے بلیک ہول کو دیکھنے میں کامیاب ہوئے جو زمین سے 600 ملین نوری سال کی دوری پر سورج کو نگلنے کے عمل کے دوران دیکھا گیا۔
یہ حیران کن واقعہ جسے ٹائیڈل ڈسٹرکشن ایونٹ (TDE) کہا جاتا ہے اور جس کا نام AT2024tvd رکھا گیا ہے،ہماری کہکشاں سے کئی میلوں دور پیش آیا، جس نے گھومتے ہوئے بلیک ہولز کی ایک ایسی پاپولیشن کو بے نقاب کیا جو پہلے پوشیدہ تھی۔
اس بلیک ہول کے بارے میں ماہرین فلکیات نے انکشاف کیا کہ یہ ہمارے سورج کے ایک ملین گنا ماس کے برابر ہے، جو کہکشاں کے تاریک کنارے پر چھپا پایا گیا۔
اس بلیک ہول کے بارے میں اس وقت تک معلوم نہیں چل سکا جب تک ایک ستارہ اس کے بہت قریب نہ پہنچا، پھر اس ستارے کو بلیک ہول کی زبردست کشش ثقل نے کھینچ کر اور تیز کرکے ”اسپاگٹیفیکیشن“ کے عمل سے گزارتے ہوئے پارا پارا کر دیا۔ اس ستارے کے ملبے کو ایک گرم اور گھومتے ہوئے ڈسک میں کھینچ لیا گیا، جو ایک الٹرا وایلیٹ اور نظر آنے والی روشنی کے دھارے کو پیدا کر رہا تھا جسے زمین اور خلا میں موجود ٹیلی اسکوپوں نے قید کرلیا۔
ماہرین فلکیات نے مختلف مشاہداتی آلات کا استعمال کیا، اور اس کے اصل مقام اور دوری کی تصدیق کرنے کے لیے جن میں ناسا کا چندرا ایکس رے آبزرویٹری اور NRAO ویری لارج ایری شامل تھے۔ ہبل نے تیز نظر سے TDE کی نشاندہی کی، جب کہ چندرا نے اسی مقام سے ایکس ریز کا پتہ لگایا، جس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ کہکشاں کا مرکز اس کا ماخذ نہیں ہے۔
مفکرین کا ماننا ہے کہ ایسے بھٹکنے والے بلیک ہولز پچھلے کہکشانی ملاپوں کے باقیات ہو سکتے ہیں یا دوسرے بلیک ہولز کے ساتھ تعامل سے پیدا ہونے والے کشش ثقل کے ”کِک“ کا نتیجہ ہو سکتے ہیں۔ ان کا دریافت کائناتی مرکزوں سے دور بلیک ہولز کو تلاش کرنے کے نئے راستے کھولتا ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
مودی کی ناکام پالیسیاں؛ بھارت میں کروڑوں لوگ آج بھی خوراک سے محروم
مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے بھارت میں آج بھی کروڑوں لوگ خوراک جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔
بھارت میں غذائی بحران دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے اور مودی سرکار کی مسلسل ناکام پالیسیوں کے نتیجے میں دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہونے کا دعوے دار ملک کروڑوں لوگوں کو آج بھی بھوکا رکھے ہوئے ہے جہاں انہیں خوراک بھی میسر نہیں۔
بھارت میں خوراک کے بحران کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ ہنگر انڈیکس کی رینکنگ میں بھارت 105 ویں نمبر پر ہے، اس رینکنگ نے مودی کے اپنے ملک کو معاشی طاقت قرار دینے کے دعوے کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔
بھارت کے امیر ایک فیصد طبقے کو نکالا جائے تو عوام کی حالت افریقا کے پسماندہ ترین ممالک سے بھی بدتر ہو گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت کی مجموعی دولت کا 40 فیصد صرف ایک فیصد امیر طبقے کے پاس ہے۔ مڈل اور لوئر مڈل کلاس عوام کے پاس محض 3 فیصد دولت ہے جب کہ تقریباً 70 کروڑ بھارتی شہریوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔
رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی معاشی ترقی صرف اشاریوں میں دکھائی جاتی ہے جب کہ دیہی بھارت فاقہ کشی کا شکار، ہے۔ اسی طرح بھارت کی 90 فیصد لیبر فورس مقرر کردہ سے کم اجرت لیتی ہے۔
مودی سرکار کی ناقص پالیسیوں کے باعث 27 فیصد سے زائد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔