دنیا بھر میں مصنوعی بحران پیدا کرکے غزہ سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے، علامہ جواد نقوی
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
لاہور میں خطاب میں تحریک بیداری کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ثالثی کرنیوالے ممالک دراصل اسرائیل کے مفادات کے محافظ بن چکے ہیں، پاکستان میں غزہ کے قاتل ریاستوں کے وسیع مفادات موجود ہیں، اسرائیلی درندگی اب کسی حد و قید کی پابند نہیں رہی اور اس نے غزہ پر مکمل قبضے کا اعلان کرکے اپنے مکروہ اور شیطانی عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے لاہور میں خطاب میں عالم اسلام، خصوصاً پاکستان کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ ایک بار پھر آتش و آہن کی لپیٹ میں ہے، اسرائیلی درندگی اب کسی حد و قید کی پابند نہیں رہی اور اس نے غزہ پر مکمل قبضے کا اعلان کرکے اپنے مکروہ اور شیطانی عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اس قبضے کی عسکری تیاری مکمل ہو چکی ہے، جبکہ تمام بین الاقوامی معاہدات، جنگ بندی کی کوششیں اور اقوامِ متحدہ کی قراردادیں کھلم کھلا نظرانداز کی جا رہی ہیں، وہ قوتیں جو ثالثی کا دعویٰ کرتی رہی ہیں، درحقیقت اسرائیلی مفادات کی محافظ بن چکی ہیں اور انہوں نے فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے اس موقع پر واضح کیا کہ موجودہ عالمی سازش میں سب سے سنگین غداری سعودی عرب، مصر اور ترکی جیسے ممالک نے کی ہے، ان کی قیادتیں اسرائیل کی راہ ہموار کرنے میں اس کیساتھ کھڑی ہو چکی ہیں۔ ان کیساتھ قطر، متحدہ عرب امارات، اردن اور دیگر خلیجی ریاستیں بھی شریکِ جرم ہیں، جو بطور معاون، فلسطینی نسل کشی میں بالواسطہ شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج پوری دنیا میں مختلف خطوں میں مصنوعی بحران اور تنازعات پیدا کیے جا رہے ہیں تاکہ غزہ پر ہونیوالے مظالم سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ فلسطینی مزاحمت، خصوصاً "طوفان الاقصیٰ" نے جو عالمی بیداری اور ضمیر کو جھنجھوڑا تھا، اسے زائل کرنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر ایک منظم مہم جاری ہے۔ یوکرین کا تنازعہ، بھارت کی پشت پناہی اور دیگر شورشیں اسی مہم کا حصہ ہیں تاکہ اسرائیل کو موقع ملے کہ وہ آخری حل یعنی فلسطینی قوم کا مکمل خاتمہ پورا کر سکے۔
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ اسرائیل کو نیتن یاہو جیسے نسل پرست اور فاشسٹ قیادتیں درندوں کی طرح استعمال کر رہی ہیں، جنہیں ٹرمپ جیسے فسطائی عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے، فلسطینی بچے، خواتین، بزرگ ہر روز شہید کیے جا رہے ہیں۔ خیمہ بستیاں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ زندگیاں مفلوج ہو چکی ہیں۔ یہ ایک کھلی نسل کشی ہے، جو نام نہاد عالمی برادری، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی میں جاری ہے۔ پاکستان سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان خائن اور قاتل ریاستوں کے پاکستان میں ہزاروں سیاسی، تجارتی، تعلیمی، عسکری اور ثقافتی مفادات ہیں۔ اگر پاکستان صرف ان مفادات پر ضرب لگانے کا فیصلہ کر لے تو فلسطینی مظلوموں کو فوری ریلیف پہنچایا جا سکتا ہے۔ مگر افسوس، ہماری حکومتیں ہمیشہ کمزور، مفاد پرست اور سامراجی ایجنڈے کی تابع رہی ہیں۔ موجودہ حکومت تو مکمل بے بسی اور دباؤ کا شکار ہے۔
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ لہٰذا اب یہ فریضہ عوام کے کندھوں پر ہے وہ عوام جو خود کو "آزاد" اور باوقار سمجھتے ہیں، جو غلامی کو رد کرتے ہیں، جن کے سینوں میں فلسطین کا درد اور امتِ رسولؐ کی غیرت بیدار ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ ان خائن ریاستوں کے تجارتی، ثقافتی اور سیاسی مفادات کیخلاف ایک فیصلہ کن عوامی بائیکاٹ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی جنگ صرف فلسطین کی جنگ نہیں، یہ حق اور باطل، مظلومیت اور استکبار، اسلام اور استعمار کے درمیان آخری معرکہ ہے، اگر ہم آج بھی خاموش رہے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی، اور روزِ محشر خدا کے حضور ہمارا کوئی عذر قابلِ قبول نہ ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جواد نقوی نے کہا کہ انہوں نے رہی ہیں چکی ہیں اور اس
پڑھیں:
اپنے اپنے مفادات کی سیاست
شاہ محمود قریشی نے جیل سے بانی پی ٹی آئی کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ خالی قرار دی گئی نشستوں کو الیکشن میں خالی نہ چھوڑیں بلکہ ان پر پی ٹی آئی کے خواہش مندوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیں کیوں کہ جبر اور انتقام کے باوجود ہمیں سیاسی میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہیے کیوں کہ الیکشن لڑنا ہی ہمارے سیاسی مفاد میں ہے۔
پی ٹی آئی رہنما اس سے قبل بھی بانی چیئرمین کو متعدد پیغامات بھیج چکے ہیں مگر لگتا ہے کہ سینئر رہنما کی نہیں سنی جا رہی۔ انھیں جیل سے کوئی جواب ملتا ہے اور نہ ہی ان کے شکوؤں پر توجہ دی جاتی ہے اور شاہ محمود قریشی سے کہیں جونیئر رہنما اور موجودہ عہدیداران بھی ان سے ملاقات کرنے آنا نہیں چاہتے اور سب جو سیاست میں نئے اور وکلا ہیں وہ بھی اپنے سینئر رہنماؤں کی کسی بات کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی دو سال سے قید پارٹی کے سینئرزسے جیل میں جا کر ملنا بھی پسند نہیں کرتے۔ کیوں کہ پی ٹی آئی کے موجودہ عہدیداروں کی اب پارٹی میں کوئی اہمیت نہیں کہ وہ سینئر رہنماؤں کو اس قابل بھی نہیں سمجھتے کہ وہ سب پی ٹی آئی سے تعلق کے باعث دو سال سے جیل بھگت رہے ہیں اور کوئی نیا رہنما ان کی رہائی کا بھی مطالبہ نہیں کرتا اور باقی جو صرف بانی چیئرمین کی رہائی کا ہی مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔
ان نئے رہنماؤں کو پارٹی میں کوئی نہیں جانتا اور یہ سب اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لیے اور میڈیا میں نظر آنے کے لیے سرگرم رہتے ہیں اور بانی نے بھی مفت وکالت کے لیے انھیں اہم عہدے دے رکھے ہیں جب کہ ان کی پارٹی کے لیے کوئی خدمات نہیں ہیں اور متعدد بانی کی وجہ سے اسمبلیوں میں بھی پہنچ چکے ہیں جن کا اپنا کوئی حلقہ انتخاب تک نہیں ہے مگر بانی کی مفت وکالت ہی ان کی پہچان ہے۔
جن نئے رہنماؤں نے کبھی کونسلر تک کا الیکشن نہیں لڑا آج وہ پارٹی کے کرتا دھرتا بنے ہوئے ہیں۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ آج کی سیاست کا عوام کی خدمت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ آج ہر شخص صرف سیاسی مفاد کے لیے سیاسی پارٹی جوائن کرتا اور مختلف طریقے استعمال کرکے یا پارٹی کو فنڈز دے کر پارٹی قیادت کے سامنے اپنا مقام بناتا جاتا ہے کیونکہ سرمایہ دار ہر پارٹی کی ضرورت ہوتے ہیں اور قیادت بھی ایسے شخص کوپارٹی ٹکٹ دینے پر مجبور ہوتی ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کے سربراہ ایک ہیں اور کسی ایک کا بھی مثالی کردار نہیں ہے کیونکہ ملک میں سیاسی پارٹیاں ہی ایسا کرتی آ رہی ہیں جس کی وجہ سے ہر پارٹی سربراہ مفاد پرستوں کو ہی اہمیت دیتا ہے کیوں کہ پارٹی چلانا ہوتی ہے ‘ بڑے پیمانے پر عطیات دینے والے موجود ہیں۔
پی ٹی آئی ملک کی واحد پارٹی ہے جو 2013 میں صوبائی اور 2018 میں وفاقی اقتدار میں آئی اور اسے بڑا صوبہ فرمائش پر اکثریت نہ ہونے کے باوجود دیا گیا تھا اور پی ٹی آئی میں اکثر لوگ کبھی اقتدار میں نہیں رہے اور نئے رہنما اور دوسری پارٹیوں کے لوگ اقتدار کے لیے ہی شامل ہوئے تھے جب کہ (ن) لیگ اور پی پی تین تین باریاں لے کر اپنوں کو نواز چکی تھیں۔ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے پہلی بار اقتدار میں آ کر خوب نوازا۔ بیرون ملک سے بھی اپنوں کو بلا کر حکومتی عہدوں سے نوازنے کا نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
پی ڈی ایم کے ذریعے اپنی آئینی برطرفی کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے بھرپور طور استعمال کیا اور 2024میں پی ڈی ایم کی نفرت میں عوام نے کامیابی بھی دلائی مگر سانحہ 9 مئی اور بانی کے مختلف اور متنازع بیانات اور ہٹ دھرمی کی سیاست انھیں اقتدار سے دور لے جا چکی ہے اور حالیہ سزاؤں اور احتجاجی تحریک میں مسلسل ناکامیوں کے باعث ہی غالباً ضمنی الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کیا ہے اور ضمنی الیکشن میں انھیں اپنی پارٹی کی ناکامی نظر آ رہی ہے۔ مفاد پرستوں کے لیے اب پی ٹی آئی میں کشش نظر نہیں آ رہی اور سیاسی مفاد پرستی کے لیے حکومتی پارٹیوں میں ہی جانے کو ترجیح دیں گے۔