وزیرِ اعظم شہبازشریف کا سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ سے اظہار تشکر
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
—فائل فوٹو
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس اور ان کی قیادت کا سفارتی کوششوں پر شکریہ ادا کیا ہے۔
وزیرِ اعظم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی کوششوں نے جنوبی ایشیاء کے حالیہ بحران کو کم کرنے میں مدد دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیکریٹری جنرل یو این کو بتایا ہے کہ ہم نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت دفاع کاحق استعمال کیا، پاکستان علاقائی امن کے مفاد میں جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے پُرعزم ہے۔
وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے دو ہفتوں کے دوران ذمے دارانہ اور نپا تلا ردعمل دیا، ہم کبھی بھی اپنی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
امریکا کا ایران پر حملہ قانونی قرار دینے پر اصرار ، صدر کی ’وار پاورز‘ پر بحث چھڑ گئی
امریکا نے ایران کے جوہری سہولتوں پر ہونے والی حالیہ فضائی حملوں کو اقوامِ متحدہ کے سلامتی کونسل کے تحت ’اجتماعی دفاع‘ کے حق میں تسلیم کر لیا ہے۔
امریکا نے ایک خط میں بتایا کہ یہ حملے ایران کی جوہری افزودگی کی صلاحیت کو ختم کرنے اور اسے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کی نئی دھمکیوں پر ایران کا کرارا جواب، خطے میں تناؤ میں اضافہ
امریکی نمائندہ اقوامِ متحدہ، ڈوروتھی شیعہ نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ یہ کارروائی اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت جائز دفاعی اقدام تھا، اور انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن ایران کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بھی کھلے رکھے ہوئے ہیں ۔
بین الاقوامی ردعملقرار دیتے ہوئے اس کی مکمل حمایت کی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے اور فوری طور پر کشیدگی کم کرنے کی ضرورت ہے۔
چین اور روس نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کارروائی نے اقوام متحدہ کے چارٹر کو نقصان پہنچایا ہے۔ دونوں ممالک نے سفارتی راستہ اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔
یورپی یونین، سعودی عرب، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت متعدد ممالک نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری مذاکرات اور سفارتی حل پر زور دیا ہے۔
ان ممالک کا کہنا ہے کہ مسئلے کا حل صرف بات چیت اور سفارتکاری کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
قانونی پہلو اور مستقبلاس اقدام نے صدر کے ’وار پاورز‘ استعمال پر قانونی بحثیں بھی شروع کر دیں ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ الكونگریس کی منظوری کے بغیر یہ قدم امریکی آئین اور بین الاقوامی قانون دونوں کے تحت سوالات کھڑے کرتا ہے۔
عالمی تجزیہ کاروں نے بھی اس واقعے کو تاریخی موڑ قرار دیا، جہاں ایک جانب امریکہ نے خود کو قانونی دفاع کا حق دیا، اور دوسری جانب عالمی برادری نے اس کی قانونی حیثیت پر تنقید کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ امریکا ایٹمی تنصیبات ایران وار پاورز