پاکستان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ اسلام آباد نے جنگ بندی کی درخواست کی تھی۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ایسے وقت میں جب علاقائی امن و استحکام کے لیے بین الاقوامی کوششیں کی جا رہی ہیں، یہ بیان غلط معلومات، سیاسی، موقع پرستی اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ایک خطرناک رحجان کی نمایندگی کر رہا ہے۔
دوسری جانب ٹرمپ نے سعودی عرب میں ایک تقریب کے دوران کہا کہ شاید ہم انھیں تھوڑا سا اکٹھا بھی کرسکتے ہیں، جہاں وہ باہر جا کر ایک ساتھ اچھا کھانا کھائیں، اور مسائل حل کریں۔ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ خود ایک مسئلہ ہے۔
جنگ بندی کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے خطاب میں پاکستان کے خلاف سخت لہجہ اپنایا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے بھارتی وزیر اعظم کے بیان کو اشتعال انگیز قرار دیا، جب کہ دوسری جانب بھارت اور پاکستان میں ایک نئی سفارتی جنگ شروع ہوگئی ہے۔
دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے سفارت کاروں پر ’’ ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث‘‘ ہونے کا الزام عائد کرکے انھیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ یہ اقدام حالیہ فوجی تصادم اور امریکا کے دباؤ میں دونوں ملکوں کے درمیان فائر بندی کے بعد سامنے آیا ہے، جس کے بعد دونوں دیرینہ حریفوں کے درمیان ایک نیا سفارتی تعطل پیدا ہوگیا ہے۔
ایک فرانسیسی اخبار نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر شدید تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مودی نے جلتی پر تیل ڈالا، جب کہ تقریر کرتے ہوئے ان کا چہرہ بھیانک لگ رہا تھا۔ تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ طاقت کے خواب دیکھنے والے رہنما اگر زمینی حقائق کو نظرانداز کر دیں تو انھیں زوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بڑے خواب کبھی کبھار بڑے سانحات کا پیش خیمہ بن جاتے ہیں۔ مودی کی پالیسیوں کی ایک بڑی خامی یہ تھی کہ انھوں نے زمینی حقائق کے بجائے خوابوں کی دنیا میں فیصلہ سازی شروع کردی۔
انڈیا کو ایک عالمی طاقت بنانے کی خواہش اپنی جگہ، مگر یہ خواہش تبھی مکمل ہو سکتی ہے جب ریاست کی پالیسیوں میں توازن، تدبر اور علاقائی حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت ہو۔ مودی کے اقتدار میں انڈیا نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جارحانہ پالیسی اپنائی، جس کا نتیجہ سفارتی تنہائی اور عسکری ناکامی کی صورت میں سامنے آیا۔ اندرونِ ملک بھی صورت حال کچھ مختلف نہ تھی۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ، مسلم مخالف قوانین اور اقلیتوں کے خلاف پے در پے اقدامات نے مودی حکومت کو عالمی سطح پر متنازع بنا دیا ہے۔ امریکا، یورپ اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا، مگر بھارتی حکومت نے ہر تنقید کو پراپیگنڈہ قرار دے کر رد کر دیا۔
’آپریشن سندور‘ ایک اور ایسا فوجی منصوبہ تھا، جس نے مودی حکومت کو پریشانیوں کی دلدل میں دھکیل دیا۔ جب مودی حکومت نے پہلگام واقعے کے بعد اپنے ’فوجی‘ بیانیے کو بڑھاوا دیتے ہوئے پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کی تو اس کا نتیجہ کچھ اور ہی نکلا۔ آپریشن سندور وہ آپریشن تھا، جس کا مقصد پاکستان کے ساتھ تناؤ کے دوران بھارت کی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا، خاص طور پر ایئر فورس کے جدید رافیل طیاروں کی مدد سے۔ مودی نے رافیل طیاروں کو عسکری طاقت کا ایک اہم ستون قرار دیا تھا اور ان طیاروں کے ذریعے پاکستان کے دفاعی نظام کو مفلوج کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
مودی کا خیال تھا کہ رافیل طیارے انڈیا کے لیے گیم چینجر ثابت ہوں گے اور ان طیاروں کی موجودگی پاکستان کو شکستِ فاش دے گی، مگر جب آپریشن سندور میں انڈین طیارے پاکستان کے فضائی دفاع کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال ہوئے، تو پاکستان نے نہ صرف ان کو بے اثر کیا بلکہ طیارے بھی گرا دیے۔مودی کی انتہا پسندی اور جارحانہ پالیسیوں سے خطے کا امن تباہ ہو رہا ہے اور پاکستان کو اس نے ترنوالہ سمجھا لیکن پاکستان ترنوالہ نہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والا بھارت اب قوم پرستی کو ایک ایسے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے جس کے ذریعے اندرونی مسائل اور عالمی تنقید سے توجہ ہٹائی جا سکے۔ یہ خطرناک سیاسی حکمت عملی خطے کے امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔
پہلی بار بھارتی عوام کا ایک بڑا طبقہ ہر بار پاکستان کو الزام دینے کے بجائے داخلی طور پر سوالات اٹھا رہا ہے۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ بھارت کی کشمیر اتنی وسیع سیکیورٹی فورسز کہاں تھیں؟ کشمیر میں تعینات سات لاکھ فوجی کیا کر رہے تھے؟ یہ سوچ کا ابھار ایک اہم لمحہ ہے اور پاکستان کے موقف کی ایک بڑی تائید۔ پاکستان بارہا بھارت پر بلوچ علیحدگی پسندوں کی خفیہ مدد، دہشت گردی میں ملوث ہونے اور افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے ذریعے تخریبی کارروائیوں کی پشت پناہی جیسے الزامات لگاتا رہا ہے جن کے واضح شواہد انڈین خفیہ اداروں کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
آج مودی حکومت نے انڈین جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، لیکن آج مودی کے بھارت میں میڈیا، ادارے اور تعلیم سب اس تنگ نظری کے شکار ہو چکے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں پر ظلم بڑھ گیا ہے اور اظہارِ رائے کی آزادی کو سختی سے کچلا جا رہا ہے۔ آج وہ صحافی، دانشور اور سماجی کارکن جنھیں کبھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا یا تو خاموش کر دیے گئے ہیں یا دباؤ میں آ چکے ہیں۔ 2002 کے گجرات فسادات کے مرکزی کردار مودی اب ان پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جو انڈیا کو آمریت کی طرف لے جا رہی ہیں۔ ان کی حکومت نے نہ صرف انڈیا کی جمہوری بنیادوں کو خطرے میں ڈالا ہے بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔ ان کی وراثت تشدد کو ہوا دیتی ہے اور مفاہمت کو ختم کرتی ہے اور یہ اب چھپایا نہیں جا سکتا۔
ایٹمی طاقت اور دنیا کی بہترین افواج رکھنے والا پاکستان مجبور ہو رہا ہے کہ وہ یہ سوچے کہ آیا اسے طاقتور دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے یا پھر دانشمندی سے کام لے کر انڈین عوام اور عالمی طاقتوں پر اعتماد کرنا چاہیے کہ وہ اس صورتحال کو قابو میں رکھیں گے۔پاکستان کسی جزیرے کی طرح تنہا نہیں ہے بلکہ اس کے پاس جغرافیائی سیاست میں اہم اتحادی ہیں اور وہ ترقی کی خواہش رکھتا ہے۔ اگر صرف معیشت کی بات کی جائے تو واضح ہے کہ گریٹر ایشیا اور مشرق وسطیٰ کا خوشحال مستقبل جنوبی ایشیا کے امن سے وابستہ ہے۔
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد بھی بھارتی حکام اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں، اس دوران جہاں ایک طرف تنازع کشمیر پر مؤقف غیر لچکدار قرار دیدیا، وہیں اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ کہا کہ سندھ طاس معاہدہ معطل رہے گا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان 10 مئی کو ایک مکمل اور فوری فائر بندی کا اعلان کئی دنوں تک جاری رہنے والی فوجی جھڑپوں کے بعد کیا گیا جس نے دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔
دوسری جانب امریکی صدر نے یو ایس، سعودی سرمایہ کاری فورم میں یہ دعویٰ دہرایا کہ ’’امریکا نے بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی کشیدگی میں کمی اور جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا‘‘ جب کہ بھارت کی حکومت اس دعوے کو مسترد کر رہی ہے۔ امریکی صدر کا کہنا ہے کہ دونوں جوہری طاقتوں، بھارت اور پاکستان، کو تجارتی مراعات کی پیشکش کی ہے، اگر آپ (بھارت اور پاکستان) لڑائی روک دیں، تو ہم آپ سے تجارت کریں گے، اگر آپ لڑائی نہیں روکیں گے، تو تجارت نہیں ہوگی۔
ٹرمپ کا یہ بیان ایک نئی بحث کو جنم دے چکا ہے کہ امریکا کے صدر کی ’’ ثالثی پالیسی‘‘ خطے میں امن کے لیے مددگار ہے یا نہیں۔بھارت کی جانب سے یہ کہنا کہ پاکستان ثالثی کے لیے امریکی صدر کے پاس گیا، غلط ثابت ہو چکا ہے، امریکی صحافی نک رابرٹسن بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان نہیں ثالثی کے لیے بھارت نے ٹرمپ سے رابطہ کیا۔ اس تناظر میں، پاکستان نے امریکی ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر بھارت مذاکرات کے لیے تیار ہے تو پاکستان بھی اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت ضروری ہے اور اس میں کسی تیسرے فریق کی مدد سے گریز نہیں کیا جانا چاہیے۔
اس تمام صورتحال میں، جنوبی ایشیا کے امن اور استحکام کے لیے عالمی برادری کی ذمے داری مزید بڑھ گئی ہے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے اور دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرے۔ یہ وقت ہے کہ عالمی برادری اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے کردار ادا کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھارت اور پاکستان اور پاکستان کے جنوبی ایشیا مودی حکومت کے درمیان کرتے ہوئے حکومت نے بھارت کی نے بھارت کے خلاف کے امن کہا کہ کے لیے رہا ہے کے بعد ہے اور
پڑھیں:
’مودی ایک شکست خوردہ انسان نظر آئے‘
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مئی 2025ء) پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عرفان صدیقی نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے عوامی نشریاتی خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'مودی ایک ہارے ہوئے انسان نظر آئے‘۔
مقامی نیوز چینل جیو سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ انہوں نے پیر کے دن مودی کا عوامی خطاب 'انتہائی غور‘ سے دیکھا اور ان کا خیال ہے کہ نہ صرف الفاظ بلکہ باڈی لینگوئج میں بھی وہ 'شکست خوردہ‘ دکھائی دیے۔
پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد بھارتی وزیر اعظم مودی پہلی مرتبہ عوامی منظر نامے پر آئے اور انہوں نے اپنی قوم سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں مودی نے کہا کہ انہیں جوہری ہتھیاروں سے بلیک میل نہیں کیا جا سکتا اور وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے مبینہ انفراسٹرکچرز ختم ہو جانا چاہییں۔
(جاری ہے)
امریکہ کی مداخلت پر بھارت میں غصہ کیوں؟وزیر اعظم مودی کے اس خطاب سے قبل ملکی اپوزیشن پارٹیاں حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی تھیں۔
مرکزی اپوزیشن کانگریس پارٹی کے سربراہ راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال پر کل جماعتی اجلاس طلب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ واضح ہو کہ امریکہ نے جنگ بندی کیسے کروا دی؟ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے متنازعہ خطے پر کسی غیرجانبدار مقام پر مذاکرات کیونکر ہو سکتے ہیں؟واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین سیز فائر انہوں نے کروایا۔
ٹرمپ کے بقول انہوں نے دونوں ممالک سے کہا تھا کہ اگر فوری جنگ بندی نہیں کی جائے گی تو واشنگٹن پاکستان اور بھارت سے تجارت ترک کر دیں گے۔بھارت کشمیر کو ایک داخلی معاملہ قرار دیتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس موضوع پر عالمی طاقتیں اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کر سکتی ہیں۔ اس لیے بھارت میں امریکی صدر کے بیان پر بالخصوص اپوزیشن جماعتیں کافی برہم نظر آ رہی ہیں۔
پاکستانی معیشت پر اثر نہیں پڑا، وزیر خزانہپاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ حالیہ فوجی کشیدگی کا پاکستان کی معیشت پر بڑا اثر نہیں پڑے گا اور اسے موجودہ مالی وسائل کے اندر رہتے ہوئے سنبھالا جا سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں اورنگزیب کا کہنا تھا کہ فی الحال کسی نئی اقتصادی جائزہ رپورٹ کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات پر جلد پیش رفت متوقع ہے، جس کے تحت پاکستان اعلیٰ معیار کی کپاس اور سویا بین کے علاوہ دیگر مصنوعات امریکہ درآمد کر سکے گا، جس سے ملکی معیشت میں بہتری آئی گی۔
پاکستانی وزیر خزانہ کے بقول اسلام آباد حکومت امریکہ کے ساتھ ممکنہ تجارتی ڈیل کے مختلف پہلوؤں پر غور کر رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول وہ پاکستان کے ساتھ کسی تجارتی ڈیل کو حتمی شکل دینے کے لیے جلد ہی ایک پراسس شروع کریں گے۔
ادارت: افسر اعوان