بھارت کا نیا فضائی دفاعی نظام سدرشن چکرلانچ کرنے کااعلان
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
نئی دہلی:بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے یومِ آزادی کے موقع پر لال قلعے سے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے ایک نئے اور جدید فضائی دفاعی نظام سدرشن چکر کے آغاز کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ مودی کا کہنا تھا کہ یہ نظام آئندہ دس برسوں کے دوران ملک بھر میں نصب کر دیا جائے گا، اور اس کا مقصد بھارت کو کسی بھی بیرونی فضائی خطرے سے مکمل تحفظ فراہم کرنا ہے۔
سدرشن چکر کیا ہے؟
نریندر مودی کے مطابق سدرشن چکر ایک ایسا طاقتور نظام ہوگا جو نہ صرف دشمن کے حملے کو ناکام بنائے گا بلکہ بھرپور جوابی وار کی بھی صلاحیت رکھے گا۔
انہوں نے کہا کہ یہ منصوبہ شہریوں کی حفاظت اور جدید جنگی چیلنجز کا مؤثر جواب دینے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ مودی نے عزم ظاہر کیا کہ:
035 تک ملک کے تمام اہم علاقوں — جیسے اسپتال، ریلوے اسٹیشن، عبادت گاہیں اور شہری مراکز — جدید ترین دفاعی شیلڈ کے تحت محفوظ ہوں گے۔
آئرن ڈوم طرز کا نظام
بھارتی حکومت اس منصوبے کو اسرائیلی طرز کے دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ کی طرز پر تیار کر رہی ہے، لیکن یہ مکمل طور پر بھارت میں تیار کردہ ٹیکنالوجی پر مبنی ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ نظام ملک بھر میں کئی سطحوں پر سکیورٹی شیلڈز بنائے گا، جس سے فضائی حملوں، ڈرونز، میزائلز اور دیگر جدید ہتھیاروں سے دفاع ممکن ہوگا۔
پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے تناظر میں اعلان
یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب تین ماہ قبل مئی 2025 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی دہائیوں کی سب سے شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں ہوائی حملوں، ڈرونز، میزائلز اور توپ خانے کا استعمال کیا گیا۔ بھارت نے ان حملوں کو مقبوضہ کشمیر میں 26 شہریوں کی ہلاکت کا ردِ عمل قرار دیا تھا، جس کا الزام اس نے پاکستان پر عائد کیا — تاہم پاکستان اس کی تردید کر چکا ہے۔
بھارت کے اس اعلان سے صرف ایک دن قبل 14 اگست کو یومِ آزادی پاکستان کے موقع پروزیراعظم شہباز شریف نے بھی ایک اہم دفاعی قدم اٹھاتے ہوئے آرمی راکٹ فورس کمانڈ کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ یہ نئی فورس پاکستان کی روایتی جنگی حکمت عملی میں میزائل آپریشنز کی نگرانی کرے گی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
بدل دو نظام: ایک قومی نظریاتی سمت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251117-03-4
پاکستان اس وقت ایک ہمہ گیر سیاسی، معاشی اور سماجی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس بحران کی جڑیں محض معاشی کمزوریوں یا حکومتی ناکامیوں تک محدود نہیں بلکہ پورا سیاسی ڈھانچہ بگاڑ کا شکار ہے۔ گلی محلّوں سے لے کر ایوانِ اقتدار تک، وہی فرسودہ نظام مسلط ہے جو چند خاندانوں، وڈیروں، چودھریوں، سرداروں اور جاگیرداروں کے گرد گھومتا ہے۔ عوام کے بنیادی حقوق اور ان کی رائے کی کوئی عملی حیثیت باقی نہیں رہی۔ ایسے حالات میں جماعت اسلامی پاکستان اپنے نظریاتی سفر کو آگے بڑھاتے ہوئے ملک میں اسلام کے عادلانہ اور شفاف نظام کے قیام کو پھر سے قومی ایجنڈا بنا رہی ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن مسلسل اس حقیقت کی نشاندہی کررہے ہیں کہ موجودہ سیاسی جماعتیں محض خاندانی وراثت اور ذاتی مفادات کا ایک جال بن چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی ہو یا دوسری جاگیردارانہ پارٹیان، سب کا ایجنڈا اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھنا ہے، عوام کے مسائل حل کرنا نہیں۔ کراچی، جو ملک کی معاشی شہ رگ ہے، آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، حالانکہ صوبے میں حکومت وہی ہے جو چار دہائیوں سے اقتدار کا مزہ لوٹ رہی ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ جماعت اسلامی کوئی روایتی سیاسی جماعت نہیں۔ یہ ایک نظریاتی، فکری اور اصلاحی تحریک ہے جس کی بنیاد سید ابوالاعلیٰ مودودی کی انقلابی فکر پر رکھی گئی۔ سید مودودی نے اسلام کو محض عبادات یا اخلاق کی محدود تعلیم نہیں سمجھا بلکہ اسے ایک ہمہ گیر تہذیب، مکمل ضابطہ ٔ حیات اور عادلانہ اجتماعی نظام کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ان کی فکر کے اثرات محض پاکستان تک محدود نہیں رہے بلکہ پوری دنیا میں پھیلے، اور آج بھی بیسیوں ممالک میں جماعت اسلامی کے نظریاتی بھائی چارے کی تحریکیں سرگرم عمل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مینار پاکستان لاہور میں 21 سے 23 نومبر تک منعقد ہونے والا کل پاکستان اجتماع عام ’’بدل دو نظام‘‘ محض ایک سیاسی اجتماع نہیں بلکہ سید مودودی کی فکر کا عالمی تسلسل ہے۔ یہ اجتماع پوری دنیا کے سامنے یہ اعلان کرے گا کہ پاکستان میں نظام کی تبدیلی کی جدوجہد محض ایک احتجاجی عمل نہیں بلکہ ایک نظریاتی انقلاب کی بنیاد ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے درست نشاندہی کی کہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے لیے آئین کو پامال کیا گیا، پارلیمنٹ کی بالادستی کو مجروح کیا گیا اور قوم کو چور دروازوں کی سیاست کے حوالے کر دیا گیا۔ آج جب اسٹاک ایکسچینج بڑھتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ معیشت ترقی کر رہی ہے، حالانکہ یہ اضافہ حقیقی ترقی نہیں بلکہ محض سٹے بازی اور سرمایہ دارانہ کھیل ہے، جس کا عام آدمی کی روٹی، دوائی اور تعلیم سے کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان کا مزدور، کسان، طلبہ، اساتذہ اور متوسط طبقہ آج سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ کوئی ان کے مسائل کی نمائندگی نہیں کرتا۔ ایسے میں جماعت اسلامی واحد جماعت کے طور پر سامنے آتی ہے جو ہر طبقے کے حقوق کے لیے عملی جدوجہد کر رہی ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کی خدمات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمات پر عوام کا جو اعتماد ہے، وہ بھی اسی کردار کا تسلسل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کی نوجوان نسل بڑی تعداد میں جماعت اسلامی کے قریب آرہی ہے۔ بنو قابل پروگرام میں 12 لاکھ نوجوانوں کا رجسٹر ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ نوجوان جماعت اسلامی کو ایک امید کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اس پس منظر میں مینار پاکستان میں ہونے والا اجتماع عام جماعت اسلامی کے نظریاتی اور سیاسی سفر کا ایک ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا۔ یہ اجتماع ملک میں حقیقی تبدیلی کا لائحہ عمل پیش کرے گا۔ یہاں یہ پیغام دیا جائے گا کہ پاکستان کو دراصل سید مودودی کی فکر کے مطابق منظم، شفاف، منصفانہ اور باوقار نظام کی ضرورت ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کا یہ عزم کہ ’’جماعت اسلامی عوام کو ساتھ ملا کر ملک میں حقیقی تبدیلی اور انقلاب کی جدوجہد کر رہی ہے‘‘، امید کا وہ دیا ہے جو مایوسی کے اندھیروں میں روشن ہے۔ یہ اجتماع صرف پاکستان کے لیے نہیں، پوری دنیا کے لیے پیغام ہوگا کہ اسلام کی ہمہ گیر فکر آج بھی انسانیت کے مسائل کا مکمل حل رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی اس فکر کی نمائندہ تحریک ہے جو ظلم، استحصال اور خاندانی سیاست کے مقابلے میں ایک منصفانہ معاشرہ قائم کرنا چاہتی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان کو اس وقت جس راستے کی ضرورت ہے، وہ محض چہروں کی تبدیلی نہیں بلکہ نظام اور سوچ کی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی اس وقت آتی ہے جب کوئی تحریک عوام کے سامنے ایسا لائحہ عمل پیش کرے جو انصاف، شفافیت، خود مختاری اور بااختیار جمہوریت کی بنیاد رکھتا ہو۔ مینار پاکستان کا یہ اجتماع اسی سمت میں ایک فیصلہ کن آغاز ہو سکتا ہے، اگر عوام اس عملی اور نظریاتی جدوجہد کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیں۔ پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے گرد موجود سیاسی کہنہ روایات اور خاندانی اجارہ داریوں کی دیواروں کو گراتے ہوئے ایسی تحریک کا ساتھ دیں جس کے پیچھے کردار، اصول، فکری بنیاد اور واضح سمت موجود ہو۔ جماعت اسلامی کا اعلانِ تبدیلی اسی جدوجہد کا حصہ ہے؛ باقی فیصلہ اس قوم کو خود کرنا ہے کہ وہ مایوسی کے اندھیروں میں رہنا چاہتی ہے یا تکمیل پاکستان کے لیے اور نسل نو کے مستقبل کے لیے درست سمت میں آگے بڑھنا چاہتی ہے۔