ٹارچ والا چائنا موبائل اور 10 مئی
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
پاک انڈیا تصادم کے بعد اب ہم سیز فائر کے لمحے میں ہیں۔ اور تیاری ہو رہی ہے باقاعدہ بات چیت کی۔ سو یہ موقع ہے اب تصادم کے نتائج اور اثرات پر بات کرنے کا۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ سمجھنی ہوگی کہ رواں مئی کے پہلے عشرے کے واقعات تک ہم محض حادثاتی طور پر نہیں پہنچے۔ یہ تیاریاں تب شروع ہوئی تھیں جب 2011ء میں امریکا نے پوری سنجیدگی سے پاکستان سے کہا کہ ہماری افغان طالبان سے بات کروایے، ہم افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں۔
اگر آپ کو یاد ہو تو پاکستان نے ایک طویل ٹال مٹول اختیار کر لی تھی اور بات چیت کے لیے سہولت کاری سے مکمل گریز نظر آرہا تھا۔ یہ ٹال مٹول بے سبب نہ تھی۔ یہ چائنا تھا جس نے پاکستان سے کہا تھا کہ ہمیں کم از کم مزید 10 سال ہر حال میں درکار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ چائنا کو 10 سال کیوں درکار تھے ؟ اور اس کا امریکی انخلا سے کیا تعلق تھا ؟ آپ یاد کیجیے تو 10 سال بعد جب فروری 2020 میں دوحہ معاہدہ سائن ہوا تو اسی سال نومبر میں امریکا 30 ممالک کی نیول فورس کی ہمراہی حاصل کرکے کہاں پہنچا تھا؟ وہ ساؤتھ چائنا سی پہنچا تھا۔ اور ایک اضافی حرکت یہ کی تھی کہ امریکا، جاپان، انڈیا اور آسٹریلیا پر مشتمل کواڈ نامی مردہ زندہ کرکے چین پر دباؤ بڑھا دیا تھا۔
اس لیے یہ بات چائنیز 2010ء سے ہی جانتے تھے کہ امریکا افغانستان سے انخلا کرتے ہی اسے گھیرے گا۔ یوں پاکستان نے چین کو مطلوب 10 سال فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور 2020 تک امریکا کو افغانستان میں الجھائے رکھا۔اور یہی وہ دورانیہ ہے جب چین میں شی جن پنگ کا دور صدارت شروع ہوتے ہی ہمہ جہت چائنیز ترقی ناقابل یقین رفتار حاصل کرگئی۔
ہماری ایک بڑی خوش قسمتی یہ رہی کہ جب فروری 2019ء میں بالاکوٹ واقعہ ہوا، اور ہم نے اس کا کرارا جواب دیا تو چونکہ ایک ہی انڈین طیارہ گرا تھا، سو اسے مغرب میں زیادہ اہمیت نہ دی گئی۔ اور چین کی خوش قسمتی یہ کہ یوکرین کی جنگ چھڑ گئی جس سے امریکا اور اس کے اتحادی ساؤتھ چائنا سی سے دوڑے دوڑے روسی سرحد پر پہنچ گئے۔ یوں چین اور پاکستان کو اپنی عسکری طاقت کو یوں یک جان کرنے کا موقع کسی رکاوٹ کے بغیر میسر آگیا کہ اب نظر نہ آنے کے باوجود چین کی پیپلز لبریشن آرمی اپنے ہائی ٹیک وسائل کے ساتھ ہمارے شانہ بشانہ ہوتی ہے۔ اس کی دو مثالیں دیکھیے۔ چین کے انٹیلی جنس، سرویلنس اینڈ ریکانسنس نظام میں سٹیلائٹس کا حصہ 44 سٹیلائٹس پر مشتمل ہے۔ جو دیگر بہت سی سہولیات کے ساتھ ساتھ ایک سہولت یہ بھی فراہم کرتا ہے کہ میدان جنگ آپ کو لائیو نظر آرہا ہوتا ہے۔ہم سب ایئر وائس مارشل اورنگزیب کی پریس بریفنگ کے دوران اس کی جھلک دیکھ چکے۔
دوسری چیز یہ کہ یہ خبر تین چار سال قبل باقاعدہ رپورٹ ہوچکی ہےکہ چین پاک فضائیہ کو سائبر وار ڈویژن بنانے میں تعاون فراہم کر رہا ہے۔ حتی کہ انڈین دفاعی تجزیہ کار پراوین ساھنی نے تب ہی اس پر ایک ویلاگ بھی کردیا تھا اور بتا دیا تھا کہ اس کے نتائج انڈیا کے لیے کیا ہوں گے۔
چنانچہ 10 مئی کو پاک فضائیہ کے سائبر ڈویژن کے کارنامے پوری دنیا نے دیکھ لیے۔ اس ڈویژن نے محض چھوٹی موٹی پارٹی یا منسٹیریل ویب سائٹ نہیں کیں بلکہ انڈیا کے پورے دفاعی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ ہم نے چاند پر کوئی کھوتا ریڑھا تو نہیں اتارا مگر خلا میں گشت کرتے ہندوتوا سٹیلائٹ ہمارے قبضے میں تھے۔ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے؟
6 مئی کی رات سے 10 مئی تک انڈین ایئر فورس کسی پاکستانی طیارے پر ایئر ٹو ایئر میزائل داغنا تو دور کسی طیارے کو ریڈار پر لاک بھی کرسکی؟ یہ بات ذہن میں رہے کہ جب آپ کا طیارہ لاک ہوتا ہے تو پائلٹ کو فوراً پتہ چل جاتا ہے کہ وہ لاک ہوگیا ہے، اب کسی بھی لمحے میزائل فائر ہوگا مگر پاک فضائیہ کا کوئی بھی طیارہ لاک نہ ہوسکا۔
پھر ایک اہم بات یہ کہ ہم نے انڈین طیارے ان کی سرزمین پر ہی گرائے تھے۔ چلیے رافیل یا دیگر انڈین طیارے ہمارا کوئی طیارہ نہ گرا سکے۔ مگر 400 کلومیٹر رینج والا ایس 400 کیوں کچھ نہ کرسکا؟ اس کا میزائل تو 1 اعشاریہ 6 کلومیٹرفی سیکنڈ کی رفتار سے آتا ہے اور تقریباً یقینی کلنگ کرتا ہے۔ کیا انڈیا کا ایس 400 کوئی ہلکی سی ہِل جُل بھی کرسکا؟
نتیجہ دیکھیے، جب 7 مئی کو پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس نے 3 رافیل سمیت 5 انڈین طیارے محض ایک گھنٹے میں گرادیے ہیں تو یہ دعویٰ ترقی یافتہ دنیا کے لیے اس قدر ناقابل یقین تھا کہ اگلے 3 دن اس نے اس بحث میں گزار دیے کہ کیا واقعی ایسا ہوا ہے؟ کوئی کہتا ہوا ہے، کوئی کہتا نہیں، جبکہ کوئی کہتا کہ بس ایک رافیل گرا ہے باقی سب مبالغہ ہے۔ لیکن جب 3 دن بعد پاکستان نے پورا انڈین دفاعی نظام مفلوج کرکے اس نام نہاد ریجنل سپر پاور کی ناک رگڑی تو وہ امریکی حکومت بھی ہڑبڑا اٹھی جس نے دو تین روز قبل ہی کہہ دیا تھا کہ ہمارا پاک انڈیا کشمکش سے کوئی لینا دینا نہیں۔اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ، نائب صدر جے ڈی وینس اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو بیک وقت ایک ٹیم کی طرح متحرک تھے۔کسی کو یاد بھی ہے یہ وہی امریکا ہے جو چار، چھ سال قبل تک ہمیں اپنے اسسٹنٹ وزیر خارجہ کے ذریعے ڈیل کیا کرتا تھا، ہمیشہ دھمکی کی زبان میں بات کرتا تھا، انڈیا کی واضح اور علانیہ طرف داری کیا کرتا تھا! مگر اس بار تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ امریکا نے ہمیں اس حد تک برابری کی بنیاد پر ڈیل کیا کہ صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کی قیادت کو مدبر قرار دیدیا اور دونوں کا شکریہ ادا کیا۔
اس سب کا کیا مطلب ہوا؟ یہ کہ ہم نے محض ایک جھڑپ نہیں جیتی۔ بلکہ 3 دن کے اندر اندر اس خطے میں طاقت کا توازن بدل کر رکھ دیا۔ خود کو ریجنل سپر طاقت باور کرانے والا انڈیا کے پاس اب کاغذ پر لکھے پرشکوہ اعداد و شمار ہی رہ گئے ہیں۔ بے روح اور بے جان اعداد و شمار۔
اسے اب پتہ چلا کہ اس کے کسی بھی ایئربیس سے پرواز کرنے والا طیارہ ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کے فوجی کانوائے ہماری نگاہ سے محفوظ رہ کر موومنٹ نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے تاحکم ثانی رافیل گراؤنڈ کردیے ہیں۔ لطف کی بات یہ کہ یہ سب اس انڈیا کے ساتھ ہوا ہے جو کہتا تھا ’اپن بھی اب سپر طاقت ہے۔ اپن کو بھی سلامتی کونسل میں ویٹو پاور مانگنے کا ہے۔‘ دے گا اسے ویٹو پاور اب کوئی؟ اسے ویٹو پاور بننے کے لائق چھوڑا ہم نے؟
اس پوری صورتحال کا سب سے شاندار پہلو یہ ہے کہ جب چین اور ہم مل کر یہ سب تیاریاں کر رہے تھے تو انڈیا اور مغربی دنیا نے اسے یہ سوچ کر سیریس ہی نہ لیا کہ چین کی مصنوعات تو بس وہ ٹارچ والے چائنا موبائل جیسی ہی ہوتی ہیں۔ یوں پاکستان کو یہ وارننگ کسی نے بھی جاری نہ کی کہ اتنے سارے طیارے کیوں خریدے جا رہے ہیں؟ یہ سب کیا چل رہا ہے؟ ورنہ امریکا کی تو تاریخ رہی ہے کہ کسی ناپسندیدہ ملک نے ہتھیاروں کا ذرا سا غیر معمولی سودا کیا تو وارننگ آگئی کہ خبردار جو طاقت کا توازن بگاڑا۔
ہماری خریداریوں کو دنیا نے ذرا بھی توجہ نہ دی۔ کیونکہ انہیں لگتا تھا کہ آئی فون کے آگے جو حیثیت چائنا کے ٹارچ والے موبائل کی ہے، وہی جے 10 سی کی رافیل کے آگے ہوگی۔ ہوش انہیں تب آیا جب 10 مئی ہوگیا۔ اور اب مغرب کی پریشانی یہ نہیں کہ انڈیا کا کیا بنے گا؟ بلکہ انہیں اپنی ٹیکنالوجیز کی فکر پڑ گئی ہے۔ کیونکہ یوکرین جنگ سے جان چھڑا کر امریکا چین کی جانب متوجہ ہوکر ایک بار پھر ساؤتھ چائنا سی میں اودھم مچانے کی تیاری میں تھا۔ لیکن 10 مئی نے امریکیوں کو اس خوف میں مبتلا کردیا ہے کہ جب پاکستان کی ملٹری اتنی پاور فل ہوچکی ہے تو چین کی پیپلز لبریشن آرمی کی طاقت کا کیا عالم ہوگا؟
یہ وہ سوال ہے جس نے 10 مئی کے بعد سے مغرب کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ اور انہیں صاف نظر آرہا ہے کہ تائیوان تو محض اس لیے چین میں ضم نہیں ہوا کہ ابھی چینیوں نے کیا نہیں، ورنہ رکاوٹ تو کوئی نہیں۔ گویا مار انڈیا کو پڑی مگر درد تائیوان سے ہوتا ہوا واشنگٹن تک گیا۔ اسی لیے عالمی تجزیہ کار بھی کہہ رہے ہیں کہ 10 مئی کو طاقت کا توازن چین کےحق میں شفٹ ہوچکا ہے۔ وہ شفٹ شفٹ کے ثمرات ہمیں براہ راست نصیب ہوں گے۔ یہ سفر ہم نے اور چین نے اس حد تک مل کر کیا ہے کہ نکلنے کے لیے بیتاب امریکا کو 2020ء تک افغانستان میں ہم نے ہی الجھائے رکھا تاکہ تیاریاں بھرپور ہوسکیں۔
10 مئی نے ثابت کردیا کہ اب الحمدللہ ہم تیار ہیں مگر ہمیں ٹارچ والے چائنا موبائل کا یہ احسان ہمیشہ یاد رکھنا ہوگا کہ مغربی طاقتوں کو ماموں اسی نے بنایا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان نے انڈیا کے دیا تھا طاقت کا کے ساتھ چین کی تھا کہ کے لیے
پڑھیں:
بھارت نے دریاؤں کا رخ موڑا تو یہ اقدام جنگ سمجھا جائے گا، رانا ثنا ءاللہ
اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ کاغذوں میں سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، پاکستان کے حصے کا پانی تو آ رہا ہے، اگر انڈیا نے دریاؤں کا رخ موڑا تو یہ اقدام جنگ سمجھا جائے گا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتےہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ کاغذوں میں سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے سے کچھ نہیں ہوتا، پاکستان کے حصے کا پانی آ رہا ہے، اگر انڈیا نے پاکستان کے حصے میں دریاؤں کے پانی کا رخ موڑنے کی کوشش کی تو اس کو اقدام جنگ سمجھا جائے گا۔
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ممبئی حملوں میں انڈیا نے پاکستان کو کوئی ثبوت نہیں دیے تھے، بھارت نے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی تھی۔
وزیراعظم کے مشیر نے مطالبہ کیا کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان آزاد کمیشن بنایا جائے، یہ کمیشن دونوں ملکوں میں دہشت گردی کی انکوائری کرے، اس حوالے سے پاکستان نے ایک تجویز بھارت کو دی تھی۔