پاک بھارت جنگ نے سرحدی علاقوں کے باسیوں کی سوچ بدل دی
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
لاہور:
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ مختصر جنگ نے لاہور کے سرحدی علاقوں میں بسنے والوں کی جنگ سے متعلق سوچ اور خوف کو بدل کر رکھ دیا، جدید ٹیکنالوجی جیسے جنگی طیارے، میزائل اور ڈرونز پر مبنی اس جنگ نے توپ و ٹینکوں سے لڑی جانے والی روایتی جنگ کا تصور تبدیل ہوگیا ہے۔
بی آر بی (بمبانوالی راوی بیدیاں) نہر کے مشرقی جانب واقع دیہات، جو ماضی میں جنگوں کے دوران خالی کروا لیے جاتے تھے، اس بار پُرسکون اور مطمئن رہے۔
علاقہ مکین ملک محمد بشیر کا کہنا ہے کہ 1965 اور 1971 کی جنگوں کے برعکس، حالیہ کشیدگی کے دوران نہ تو لوگوں نے نقل مکانی کی اور نہ ہی خوف و ہراس پھیلنے دیا۔
ایک اور شہری محمد الطاف نے کہا کہ اب کے بار تو "ایک چڑیا بھی شہر کی طرف نہیں گئی"، لوگوں نے اپنے گھروں کو نہیں چھوڑا، بلکہ صبر و یقین کے ساتھ سرحدوں پر قیام پذیر رہے۔
رانا احسان الہی نامی شہری کا کہنا تھا کہ اگر آج سوشل میڈیا اور ٹی وی نہ ہوتا تو شاید ہمیں خبر بھی نہ ہوتی کہ کوئی جنگ ہوئی ہے۔
نوجوان محمد قیصر نے بتایا کہ اس جنگ میں نہ توپوں کی آواز سنائی دی اور نہ ہی ٹینکوں کی گھن گرج، بلکہ خاموشی سے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جنگ لڑی گئی، جس میں پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی۔
مقامی افراد کے مطابق حالیہ جنگ نے نہ صرف ان کے خوف کو ختم کیا بلکہ انہیں مزید حوصلہ اور جرات بھی بخشی ہے۔
واضح رہے کہ 1965ء کی جنگ میں لاہور کی بی آر بی نہر سے مشرقی جانب کے علاقے سیز فائر تک انڈین فوج کے قبضے میں رہے تھے، جنگ ختم ہونے کے بعد جب لوگ گھروں کو واپس آئے تو سب کچھ تباہ ہوچکا تھا لیکن حالیہ جنگ نے لوگوں کے دل سے جنگ کا خوف نکال کرانہیں نڈر اور بہادر بنا دیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
دنیا باقی مسئلوں میں غزہ کے المیہ کو نظر انداز نہ کرے، یو این چیف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 27 جون 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ دہراتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ علاقے میں انسانی بحران ہولناک صورت اختیار کر گیا ہے اور دنیا دیگر علاقائی تنازعات میں فلسطینیوں کی تکالیف کو نظرانداز نہ کرے۔
سیکرٹری جنرل نے اقوام متحدہ کی 'مالیات برائے ترقی' کانفرنس میں شرکت کے لیے سپین روانگی سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ دنوں اسرائیل اور ایران کا تنازع دنیا کی توجہ کا مرکز رہا لیکن غزہ کے شہریوں کی ابتلا ہنگامی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔
Tweet URLلوگ بار بار نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں اور اب 20 لاکھ سے زیادہ آبادی کو غزہ کے 20 فیصد حصے میں محدود کر دیا گیا ہے۔
(جاری ہے)
یہ جگہیں بھی خطرے سے خالی نہیں ہیں جہاں خیموں، شہریوں اور ان لوگوں پر متواتر بم برس رہے ہیں جن کے پاس کوئی بھی محفوط ٹھکانہ نہیں ہے۔خوراک کی تلاش میں موتانہوں نے کہا کہ غزہ میں لوگوں کو 20 ماہ سے جاری جنگ کے بدترین حالات کا سامنا ہے۔ علاقے میں خوراک، ایندھن، ادویات اور پناہ کی شدید کمی ہے۔ خوراک کی تلاش گویا موت کی سزا بن گئی ہے اور محض بقا کی جدوجہد کرنے والے فلسطینیوں کی زندگی شدید خطروں سے دوچار ہے۔
سیکرٹری جنرل نے غزہ میں فوری جنگ بندی، باقیماندہ تمام یرغمالیوں کی غیرمشروط رہائی اور علاقے میں انسانی امداد کی مکمل اور بلارکاوٹ رسائی یقینی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ امدادی کارکن بھوکے ہیں، ہسپتالوں کے پاس طبی سازوسامان کی شدید قلت ہے اور شہری غیرمحفوظ علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔
وسیع انسانی امداد کی ضرورتانتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی تیزرفتار فراہمی ضروری ہے۔
قابض طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ امداد کی ترسیل میں سہولت دے۔بین الاقوامی قانون کا تقاضا ہے کہ غزہ میں اقوام متحدہ اور اس کے شراکتی اداروں کو امدادی سرگرمیاں انجام دینے کے قابل ہونا چاہیے اور بارسوخ ممالک کو چاہیے کہ وہ اس ضمن میں اپنا ضروری کردار ادا کریں۔
غزہ میں امداد کی فراہمی کے کسی بھی طریقہ کار میں شہریوں کے تحفظ کی ضمانت ملنی چاہیے اور لوگوں کو مدد کے حصول کے لیے ایسے علاقوں میں آنے پر مجبور نہ کیا جائے جہاں عسکری کارروائیاں جاری ہیں۔
امن و خوشحالی کی ضمانتسیکرٹری جنرل نے کہا کہ اقوام متحدہ نے انسانیت، غیرجانبداری اور خودمختاری کے اصولوں کی بنیاد پر ایک تفصیلی امدادی منصوبہ بنایا ہے جس پر عمل درآمد کی صورت میں غزہ کے لوگوں کی تکالیف میں کمی لائی جا سکتی ہے اور گزشتہ جنگ بندی کے دوران اس کا عملی مظاہرہ بھی ہو چکا ہے۔
گفتگو کے آخر میں سیکرٹری جنرل نے وسیع سیاسی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی مسئلے کا دو ریاستی حل ہی خطے میں پرامن اور خوشحال مستقبل کی امیدوں کو بحال کرنے کا واحد پائیدار طریقہ ہے۔