کانوں میں غیر حقیقی آوازیں، کن غذاؤں سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
جن افراد کو اپنے کانوں میں سیٹیاں سی بجتی محسوس ہوتی ہوں یا کچھ اور آوازیں سنائی دیتی ہوں تو ان کے لیے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ وہ کچھ غذاؤں کے استعمال کے ذریعے اس مسئلے پر قابو پاسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: دنیا میں 30 لاکھ بچے ادویات اثر نہ کرنے کے سبب چل بسے، اصل وجہ کیا ہے؟
ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بعض غذائی اشیا اور کانوں میں بجنے کی آواز کے خطرے میں کمی کے درمیان ایک تعلق موجود ہے۔
تحقیق میں ان لوگوں کے لیے کچھ سکون اور خاموشی حاصل کرنے کا ایک آسان طریقہ پیش کیا گیا ہے جو کانوں میں آوازیں بجنے کے مسئلے سے دوچار ہیں۔
کانوں میں آوازیں بجنے والی اس بیماری کو Tinnitus کہتے ہیں جس میں ایک یا دونوں کانوں میں آواز سنائی دیتی ہے۔
ٹینائٹس کے دوران انسان کو اپنے ایک یا پھر دونوں کانوں سے ہر وقت شور اور گھنٹیوں سمیت مختلف اقسام کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور یہ آوازیں سناٹے یا خاموشی کے وقت اور بھی زیادہ تیزی سے سنائی دیتی ہیں۔
اس میں مبتلا ہونے والے افراد کو کانوں میں شور، گھنٹیوں بجنے، عجیب آواز کے گونجنے، کسی کے ہنسنے، پرندوں کی طرح چہچہانے سمیت دیگر طرح کی آوازیں سننے کا احساس ہوتا ہے۔
یہ وہ آواز ہے جو شخص کے ارد گرد کی دنیا میں موجود نہیں ہوتی۔ یہ آواز کوئی بھی ہو سکتی ہے۔ تیز سر سے لے کر دھیمی گرج تک یا مسلسل گنگناہٹ سے لے کر پریشان کن کلک تک اور حتیٰ کہ جسم میں خون کے بہاؤ کی سیٹی کی آواز بھی ہوسکتی ہے۔
دراصل یہ کوئی بڑی بیماری نہیں بلکہ ایک شکایت یا علامت ہے جو عام طور پر جسم میں دوسرے مسائل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان ذہنی صحت کے معاملے میں ترقی یافتہ ممالک سے بہتر، لیکن کیسے؟
کانوں میں آواز کے بجنے کے نظریاتی اسباب اتنے ہی متنوع ہیں جتنی کہ وہ آوازیں جو لوگ سنتے ہیں۔ سماعت کے نقصان یا کان کے انفیکشن سے لے کر ادویات کے ضمنی اثرات، ہائی بلڈ پریشر یا خود بخود قوت مدافعت کے امراض تک اس کے اسباب میں شامل ہیں۔
کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ایسی آوازیں دماغ کے سمعی نظام میں پیدا ہوسکتی ہیں۔ دوسرے سائنسدان یہ سمجھتے ہیں کہ پریشان کن سر کان کے اندر باریک بالوں کے خلیوں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
علاج کا غذائی نظامچین میں روایتی چینی طب کی چینگدو یونیورسٹی کے محققین نے 8 سائنسی مطالعات کے نتائج کا تجزیہ کیا اور کانوں میں بجنے والی آواز کے ٹول کٹ میں ایک اور ممکنہ علاج شامل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ غذائی نظام والا علاج ہے۔
پھل، کیفین اور ڈیری مصنوعاتمحققین کا کہنا ہے کہ پھلوں، فائبر، ڈیری مصنوعات اور کیفین کا استعمال اس مرض کے علاج میں معاون ہے۔
مزید پڑھیں: کون سی غذائیں پرسکون نیند لاسکتی ہیں؟
یہ سب غذائی اشیا کانوں میں بجنے والی آواز کے مسئلے کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ خاص طور پر زیادہ مقدار میں پھل کھانے سے کانوں میں بجنے والی آواز کے خطرے میں 35 فیصد کمی واقع ہوئی، ڈیری مصنوعات کھانے سے خطرے میں 17 فیصد کمی ہوئی۔
کیفین کے استعمال سے 10 فیصد اور غذائی فائبر سے 9 فیصد کمی دیکھی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ٹینائٹس کانوں میں آوازیں کانوں میں سیٹیاں بجنا کانوں میں شور سنائی دینا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹینائٹس کانوں میں ا وازیں کانوں میں سیٹیاں بجنا کانوں میں شور سنائی دینا کانوں میں بجنے کانوں میں آواز سنائی دیتی بجنے والی ا وازیں آواز کے
پڑھیں:
مسئلہ فلسطین اور دو ریاستی حل
آج کل مسلم دنیا روزانہ یہ پڑھ کر یا سن کر نہال ہو رہی ہیں کہ فلاں مغربی ملک نے فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا ہے کہ یہ ممالک اتنی عجلت میں فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں؟
سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لیجیے کہ ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور دینے والا وہ ہے کہ جس کو امن کا نوبل انعام چاہیے۔
یہ تمام ممالک پہلے ہی اسرائیل کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرچکے ہیں اور اب فلسطین کو تسلیم کرنے کے بعد دو ریاستی حل مکمل ہوا اور اس کے بعد فلسطین اور غزہ میں امن ہوجانا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو فلسطینی بالعموم اور حماس بالخصوص اس کے ذمے دار ہوں گے۔
اب اس دو ریاستی حل کا تاریخ کے تناظر میں جائزہ لیتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے تو 1947 میں ہی فلسطین کو دو الگ الگ یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی منظوری دے دی تھی اور بیت المقدس کو ایک بین الاقوامی شہر قرار دیا تھا۔
اس منصوبے کو یہودی رہنماؤں نے تو قبول کرلیا تھا لیکن عربوں نے اس کو مسترد کردیا تھا اور یوں اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس وقت تک فلسطینیوں کو یقین تھا کہ وہ اپنے دیگر عرب بھائیوں کے ساتھ مل کر بزور شمشیر صیہونیوں کو یہاں سے مار بھگائیں گے لیکن انھوں نے طاقت اور حوصلے کا غلط اندازہ لگایا تھا۔
اسرائیل ایک ایک کر کے عرب ممالک کو روندتا گیا،کچھ کو شکست دی،کچھ کو خرید لیا اور باقی کو حلیف بنا لیا۔
آج زمینی حقائق یہ ہے کہ فلسطینی اپنی جنگ میں بالکل اکیلے ہیں، تمام مسلمان ممالک نے خود کو اس جنگ سے علیحدہ کر لیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زیادہ تر مسلم ممالک درپردہ یا تو اسرائیل کے ساتھ ہے یا خود کو غیر جانبدار کرلیا ہے اور اب فلسطینیوں کو ایک ایسی بند گلی میں لے جایا گیا ہے کہ جس میں سوائے اس کے ان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے کہ وہ دو ریاستی حل کو تسلیم کر لے، ہتھیار رکھ دے اور جو کچھ مل رہا ہے اس پر صبر شکر کے ساتھ قناعت کر لیں۔
یہ اس سے بہت کم ہے جو ان کو 1947 میں مل رہا تھا مگر اس وقت کی زمینی صورتحال اور آج کے حالات میں زمین آسمان کا فرق آچکا ہے۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ جو مل رہا ہے اس کو قبول کرلوں، ورنہ یہ بھی چلا جائے گا اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بتانے والے زیادہ تر اپنے ہیں جوکل تک اسرائیل سے لڑنے کو تیار تھے اور جن کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے صحرا کا سینہ تھر تھرکانپتا تھا مگر آج تیل کی دولت سے مالامال ہوکر آسائش کی علت انھیں اپنی ایئرکنڈیشنڈ رولز رویس سے اترنے نہیں دیتی۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ 20 (بیس) نکاتی امن منصوبے کو آٹھ اسلامی ممالک کی تائید حاصل ہوچکی ہیں جس میں مملکت خداداد پاکستان بھی شامل ہے، اگر اسلامی ممالک فلسطین کے لیے دو ریاستی حل کو تسلیم کرتے ہیں تو گویا بلواسطہ یا بلاواسطہ دونوں ریاستوں کو تسلیم کرتے ہیں۔
اس میں سے ایک تو فلسطین ہوئی، دوسری کا نام میں نہیں لینا چاہوں گا، ہاں اگر حکومت پاکستان اس پر اپنا موقف دے تو زیادہ بہتر ہے۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ ریاست کو عقائد کے تحت نہیں بلکہ مفادات کے تحت چلانا چاہیے لیکن میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ مسلمان ریاستوں کو ہی کیوں سو جوتے اور سو پیاز دونوں کھانے پڑتے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ اسرائیل عربوں سے اپنے تعلقات استوارکرنا چاہتا تھا ۔ آج پوری عرب دنیا نے رسمی یا غیر رسمی طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور یہ وہی ممالک ہے کہ جن کی وجہ سے ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آج کے حالات میں یہاں ماضی کا صیغہ ہی استعمال کرسکتے ہیں اور مستقبل تو ویسے بھی غیر یقینی ہوتا ہے۔
پوری مسلم اور عرب دنیا میں کوئی بھی معاہدہ امریکا کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ امریکا کو واضح طور پر نہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی صرف امریکی صدرکے چہرے سے مسکراہٹ غائب جائے تو معاہدہ منسوخ ہوجاتا ہے یا التوا میں چلا جاتا ہے۔
ہمسایہ مسلم ممالک نے اپنی فضائی حدود ہمیشہ اسرائیل کے لیے کھلی رکھی ہیں، چاہے وہ عراق کے ایٹمی ریکٹر پر حملہ کا وقت ہوں یا قطر میں حماس پر حملہ ہوں، تو پھر ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرق وسطی کے ممالک کو آخرکس سے خطرہ لاحق ہے؟
اس کا جواب بھی بہت آسان ہے، آپ بس یہ دیکھ لیجیے کہ ماضی قریب میں ان پر حملہ کس نے کیا ہے؟ اور کیا دیگر مسلم ممالک ان سے لڑنے کے لیے تیار ہے جب کہ ماضی میں ہم نے بھی اس لڑائی کا حصہ بننے سے انکارکردیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطی میں حکمرانوں کے لیے سب سے اہم چیز ان کا اپنا اقتدار ہے۔
لیکن اب صورتحال بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ عرب حکمرانوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ امریکا پر اندھا دھند اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا اب قابل اعتماد اتحادی نہیں رہا۔ وہ مشکل وقت میں عربو ں کی کہاں تک مدد کرے گا۔ یہ وہ سوال ہے جو بار بار اٹھایا جا رہا ہے۔
دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں نئی صف بندی ہونے جا رہی ہے۔ اس دفعہ ہوسکتا ہے کہ کسی ایک صف میں اسرائیل اور کچھ اسلامی ممالک اکٹھے ہوں۔ بل کلنٹن نے تو پہلے بھی کہا تھا کہ بھئی آپ لوگ کیوں لڑتے ہوں؟ آپ لوگ تو آپس میں کزن ہے۔
دنیا ان کزن کو ملانا چاہتی ہے تاکہ ابراہیمی معاہدے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ ایسے کام کروانے کے عوض جب امریکا کسی کو نوازنا چاہتا ہے تو کسی کو یونیورسٹی میں لیکچرکے ذریعے معاوضہ دلواتا ہے اور کسی کو غزہ کے بورڈ آف پیس کا سربراہ بنا کر نوازتا ہے۔
اس دفعہ قرعہ 10 ڈاوئنگ اسٹریٹ کے سابقہ مکین کا نکلا ہے کہ جس کو بورڈ آف پیس کی سربراہی دینے کی تیاری تقریباً مکمل کر لی گئی ہے۔
عراق کے ساتھ جنگ میں بھی انھوں نے بہت وفاداری دکھائی تھی اور اس فدویانہ کردار کے معاوضے کی ادائیگی کا وقت آگیا ہے اور امید کی جائے گی کہ وہ مستقبل میں بھی اپنی تابعداری سے امریکا اور اسرائیل کو مایوس نہیں کریں گے۔ دنیا کو ایک نئے لارنس آف عربیہ کے لیے تیار کیا جارہا ہے، اگر آپ نے پرانی لارنس آف عربیہ نہیں دیکھی تو جلدی سے دیکھ لیجیے کیونکہ آپ جلد ہی دنیا کے اسٹیج پر اس کو دوبارہ چلتا ہوا دیکھیں گے اور اس دفعہ تو لارنس کو عربی لباس پہنے کا بھی تکلف نہیں کرنا ہوں گا، سوٹ سے ہی کام چل جائے گا بلکہ دوڑے گا۔