سوزوکی پاکستان نے اپنی معروف جی ایس 150 موٹرسائیکل 12 ہزار 2 سو روپے ماہانہ اقساط پر پیش کردی ہے۔

کمپنی کے اعلامیے کے مطابق حالیہ پیشکش سوزوکی موٹر سائیکل جی ایس 150 کی ملکیت کے خواہاں شہریوں کے لیے اس قابل اعتماد اور کارکردگی پر مبنی موٹر سائیکل کا حصول مزید ممکن بنانے کی غرض سے کی گئی ہے۔

کمپنی کے مطابق اس پیشکش کا مقصد ملک بھر کے صارفین کے لیے موٹر سائیکل کے حصول کے لیے سستا مالیاتی آپشن فراہم کرنا ہے۔.

ماہانہ ادائیگی کا منصوبہ

موجودہ قسط کی اسکیم کے تحت، صارفین 12 ہزار 2 سو روپے ماہانہ قسطوں کی ادائیگی کی شرط پر سوزوکی جی ایس 150 کے مالک ہو سکتے ہیں، تاہم اس ضمن میں مخصوص شرائط و ضوابط لاگو ہوتے ہیں، یہ ماہانہ رقم مکمل پیشگی ادائیگی کے بغیر ملکیت کے لیے ایک مقررہ قابل برداشت لاگت کے ذریعے موثر راستہ فراہم کرتی ہے۔

ماڈل کا جائزہ

جی ایس 150 سوزوکی کے لائن اپ میں ایک مشہور ماڈل ہے، جو اس کے 150کیوبک سینٹی میٹرز انجن، مضبوط ٹارک آؤٹ پٹ، اور آرام دہ کروزر طرز کے ڈیزائن کے لیے پسند کیا جاتا ہے، اس کا انتخاب اکثر لمبی دوری کے مسافر اس کی طاقت اور عملیت کے توازن کے باعث کرتے ہیں۔

بکنگ کا طریقہ

دلچسپی رکھنے والے صارفین آفیشل بکنگ لنک پر جا کر اپنا سوزوکی جی ایس150 اپنے لیے مختص کرسکتے ہیں، مزید معلومات بشمول اہلیت اور مالیاتی شرائط، مجاز سوزوکی ڈیلرشپ کے ذریعے دستیاب ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انجن جی ایس 150 سوزوکی ماہانہ اقساط موٹر سائیکل

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جی ایس 150 سوزوکی ماہانہ اقساط موٹر سائیکل موٹر سائیکل جی ایس 150 کے لیے

پڑھیں:

اتحاد اور مضبوط قیادت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں!

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کو اسوقت تک انصاف نہیں مل سکتا، جب تک وہ اپنی طاقت کا اظہار نہیں کرینگے۔ یہ طاقت سیاسی اور سماجی اتحاد سے حاصل ہوگی۔ انہیں مختلف سیاسی جماعتوں کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگنا بند کرنا ہوگا۔ جب تک انکی صفوں میں اتحاد قائم نہیں ہوگا، انہیں کوئی سیاسی جماعت گھاس نہیں ڈالے گی۔ الگ الگ جماعتوں کے پرچم اٹھا کر ہم کبھی اپنے حقوق کی لڑائی نہیں لڑ سکیں گے۔ اگر ہم سیاسی جماعتوں کے وعدے و وعید کے گرداب میں پھنسے رہیں گے تو کبھی ہمیں بھیڑیئے سے ڈرایا جائے گا اور کبھی ہمیں ہی بھیڑیا بنایا جائے گا۔ اس لئے وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے فرقہ پرستی کے عذاب سے باہر نکلنا ہوگا۔ اس کے لئے سب سے پہلے اپنے درمیان مخلص قیادت کو تلاش کرنا ہوگا، جس کے بغیر نہ تو کوئی موثر تحریک معرض وجود میں آسکتی ہے اور نہ کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔ تحریر: عادل فراز
adilfarazlko@gmail.com

وقف ترمیمی قانون ۲۰۲۵ء پر عدالت عظمیٰ کا عبوری فیصلہ اور "وقف از صارف" پر تبصرہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ عدالت عظمیٰ نے وقف ترمیمی قانون پر عرضی گزاروں کی شکایات کی ابتدائی سماعت کے بعد اس قانون پر پابندی سے تو صاف انکار کردیا، لیکن بعض دفعات کو فی الحال موقوف کر دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے جن شقوں کو ابتدائی سماعت میں موقوف کیا، وہ نہایت اہم تھیں، جن میں ضلع مجسٹریٹ کے اختیارات پر قدغن بھی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے وقف ٹریبونل کی اہمیت پر بھی زور دیا اور متنازع املاک کے مقدمات کے تصفیہ کے لئے ضلع مجسٹریٹ کی رائے کے بجائے وقف ٹریبونل کے فیصلے کو لازمی قرار دیا ہے۔ عدالت نے وقف کرنے کے لئے کسی شخص کے پانچ سال تک اسلام کے پیرو ہونے کی شرط کو منسوخ کر دیا، کیونکہ حکومت کے پاس مذہب اور عقیدہ کی تشخیص کا کوئی ضابطہ نہیں ہے، سوائے ذاتی اعلانیہ کے! گویا کہ اس طرح عدلیہ نے وقف معاملات میں بیوروکریسی کی مداخلت پر ضرب لگائی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے جن شقوں پر موقت پابندی عائد کی ہے، وہ نہایت اہم ہیں، لیکن مسلمانوں کو سب سے زیادہ "وقف از صارف" کے آئین سے ہٹانے پر اعتراض تھا، مگر عدالت نے اس پر ابھی کوئی سماعت نہیں کی۔ البتہ جو تبصرے اس دفعہ پر سامنے آئے ہیں، وہ نہایت تشویش ناک اور منصفوں کی ذہنیت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اول تو یہ کہ عدالت عظمیٰ کو مسلمانوں کے اعتراضات کے پیش نظر مقدمے کی سماعت کرنی چاہیئے تھی، کیونکہ اوقاف کی املاک کا تعلق براہ راست مسلمانوں سے ہے، حکومت سے نہیں۔ حکومت ان املاک کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے اور ان کی تنظیم و تشکیل میں اپنا تعاون دے سکتی ہے، بس! حالانکہ ابھی سماعت مکمل نہیں ہوئی اور آئندہ اس دفعہ پر زیادہ بحث و مباحثے کی امید ہے۔ عدالت نے "وقف از صارف" پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کے تحت پورے ملک میں بڑے پیمانے پر سرکاری املاک پر قبضہ ہوا ہے، اگر اس قبضے کو روکنے کے لئے اس شق کو ختم کیا جا رہا ہے تو اس کو من مانی نہیں کہا جاسکتا۔

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ "وقف از صارف" پر عدالت عظمیٰ کا وہی موقف ہے، جو حکومت، سنگھ اور یرقانی تنظیموں کا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے تبصرے میں حکومت کے ذریعے اوقاف کی املاک پر ناجائز قبضوں کی طرف اشارہ نہیں کیا۔ اس کے لئے چیف جسٹس صاحب کو اپنے معاونین کے ساتھ دہلی یا پھر کم از کم ایک بار لکھنؤ کا سفر کرنا چاہیئے، جہاں سرکاری دفاتر تک اوقاف کی زمینوں پر قائم ہیں۔ یہ تمام زمینیں حسین آباد ٹرسٹ کی ملکیت تھیں، جو ضلع مجسٹریٹ کی نگرانی میں آتی ہیں، اس کے باوجود ان زمینوں پر سرکاری سرپرستی میں قبضے ہوتے رہے۔اگر ضلع مجسٹریٹ کی نگرانی میں اوقاف کی املاک محفوظ نہیں تو پھر "وقف پورٹل" پر رجسٹریشن کے بعد وقف کی جائیدادیں محفوظ رہیں گی، اس کی کیا ضمانت ہے۔؟

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جب 1923ء سے آج تک وقف املاک کی رجسٹریشن لازمی رہی ہے تو متولی کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ انہیں رجسٹریشن کے بغیر اوقاف کو جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ اسی بنا پر عدلیہ نے وقف رجسٹریشن کے لئے عائد کی گئی نئی شرائط میں کوئی مداخلت نہیں کی اور رجسٹریشن کے لئے دی گئی مہلت میں بھی توسیع کر دی۔ لہذا اب مسلمانوں کو وقف املاک کا "امید پورٹل" پر نئے ضوابط کے تحت رجسٹریشن کرانا ہوگا۔ لیکن وہ املاک جن کے وقف نامے اور دستاویز موجود نہیں ہیں، ان کی حیثیت زیر سوال ہے، کیونکہ حکومت ایسے اوقاف کی از سرنو جانچ کروا کر ان کی حیثیت کا تعیین کرے گی اور اکثر اوقاف کی املاک کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے گا۔ اوقاف کی وہ عمارتیں جو آثار قدیمہ کے کنٹرول میں آتی ہیں، وہ بغیر کسی تردد کے مسلمانوں سے چھین لی جائیں گی۔

ممکن ہے کہ عدالت عظمیٰ آئندہ اس پر حتمی سماعت کرے، مگر صورت حال خوش آئند نہیں ہے۔ کیونکہ چیف جسٹس صاحبان ریٹائرڈ ہونے کے بعد جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ بھی ایک مخصوص نقطہ نگاہ کی حامل ہے۔ ججوں پر بھی زعفرانی سیاست کا واضح اثر نظر آرہا ہے اور ان کے فیصلوں میں جانب داری کا غالب عنصر موجود ہے۔ حکومت کا اصل مقصد ان وقف املاک پر قبضہ کرنا ہے، جو باضابطہ طورپر واقف کی طرف سے رجسٹرڈ نہیں ہیں بلکہ انہیں صرف وقف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے اوقاف کی تعداد زیادہ ہے، جنہیں زبانی طورپر وقف کر دیا گیا تھا۔ نئے قانون کے مطابق ایسی تمام جائیدادیں وقف سے نکل جائیں گی اور حکومت ان جائیدادوں پر مسلط ہو جائے گی۔ عدالت عظمیٰ کو یقیناً معلوم ہوگا کہ اوقاف کی تاریخ مسلمانوں کی آمد سے شروع ہوتی ہے، لہذا ایسے اوقاف جو سینکڑوں سال پرانے ہیں، ان کا ریکارڈ کہاں سے دستیاب ہوگا۔؟

ان کے وقف ہونے کا واحد ثبوت یہ ہے کہ انہیں صدیوں سے وقف کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ اگر ہندوستان کے تمام مذاہب میں موجود قدیم اوقاف کا ریکارڈ تلاش کیا جائے تو اکثر اوقاف کی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ اگر عدالت عظمیٰ رام مندر کا فیصلہ "آستھا" کی بنیاد پر سنا سکتی ہے تو مسلمان جس زمین کو صدیوں سے وقف کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اس کو وقف کیوں تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔؟ عدالت عظمیٰ نے سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں میں غیر مسلم نمائندوں کے داخلے کے دروازے کھول دیئے۔ عدالت نے یہ واضح نہیں کیا کہ مسلمانوں کے اوقاف کی ذمہ داری غیر مسلموں کو کن بنیادوں پر سونپی جا رہی ہے۔؟ کیونکہ ہندوستان کے کسی غیر مسلم ٹرسٹ میں ایک بھی مسلم نمائندہ موجود نہیں ہے۔ خاص طور پر ہندوئوں کے بڑے بڑے ٹرسٹ جن میں رام مندر بھی شامل ہے، کوئی غیر ہندو نمائندہ نہیں ہے۔

جب کہ حکومت نے رام مندر کو بابری مسجد کی جگہ ہندوئوں کی عقیدت کے نام پر تعمیر کروایا، اگر ایسا ہے تو پھر ان دیگر طبقات کو اس ٹرسٹ میں نمائندگی کیوں نہیں دی گئی، جنہیں زعفرانی طاقتیں "اقتدار پر مسلط رہنے کے لئے" ہندو ثابت کرنے پر تلی ہیں، جن میں سکھ، جاٹ اور پسماندہ طبقات بھی شامل ہیں۔ اگر موہن بھاگوت کے بقول ہندوستان کا ہر شہری "ہندو" ہے تو پھر رام مندر میں ہر طبقے اور ہر مذہب کے افراد کو "ہندو" کی نسبت سے شامل کیا جانا چاہیئے تھا۔ چونکہ مسلمانوں کے تئیں ہندوستان کے اکثریتی طبقے کی ذہنیت یکساں ہوتی جا رہی ہے، خواہ وہ حکومتی افراد ہوں، نوکر شاہی طبقہ ہو یا پھر عدالتوں میں موجود منصف ہوں۔یہی وجہ ہے کہ سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں میں غیر مسلم نمائندوں کے داخلے کی راہ ہموار کردی گئی۔ دوسری طرف چیف ایکزیکٹو آفیسر (سی ای او) کے عہدے پر بھی غیر مسلم نمائندے کو مقرر کرنے کا باب کھول دیا گیا۔

عدالت نے کہا کہ جہاں تک ممکن ہو، وقف بورڈ کا سی ای او مسلمان ہو۔ یعنی اگر اس عہدے کے لائق مسلمان نہ ملے تو غیر مسلم کو بھی وقف بورڈ کا سی ای او مقرر کیا جا سکتا ہے۔ گویا کہ عدلیہ کا فیصلہ مکمل طور پر حکومت کے حق میں ہے اور مسلمانوں کو ایک بار پھر آئینہ دکھلایا گیا کہ مودی کے ہندوستان میں تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر اکثر مسلم رہنمائوں کو "آمنا و صدقنا" کہتے ہوئے سنا، جو ہمارے لئے باعث حیرت تھا۔ ہر بار عدلیہ کے فیصلے کو سر آنکھوں پر تسلیم کرنا اور سیاہ و سفید پر ججوں کو سراہتے رہنا انصاف کے خلاف ہے۔بابری مسجد کو حقائق اور شواہد کے برخلاف "آستھا" کے نام پر رام مندر کے حوالے کر دیا گیا اور مسلمان عدلیہ کے فیصلے کا استقبال کرتے رہے۔ عدالت کا ہر فیصلہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، یہ بھی ہماری نظر میں رہنا چاہیئے۔ خاص طور پر اترپردیش کی عدالتوں کے فیصلے جو ہمیشہ ریاست کے مفاد میں ہوتے ہیں، انہیں سر آنکھوں پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

عدالتوں کے وہ قاضی جو سنگھ کے دفتر اور یرقانی تنظیموں کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں، ان کے فیصلے کبھی غیر جانب دار نہیں ہوسکتے۔عدالتیں یقیناً انصاف کی بنیاد پر مقدس ہوتی ہیں، مگر ججوں کو تقدس کا لبادہ نہیں اُڑھانا چاہیئے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو پھر ججوں کے غیر آئینی فیصلوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ یاد رکھنا چاہیئے! مسلمانوں کو اس وقت تک انصاف نہیں مل سکتا، جب تک وہ اپنی طاقت کا اظہار نہیں کریں گے۔ یہ طاقت سیاسی اور سماجی اتحاد سے حاصل ہوگی۔ انہیں مختلف سیاسی جماعتوں کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگنا بند کرنا ہوگا۔ جب تک ان کی صفوں میں اتحاد قائم نہیں ہوگا، انہیں کوئی سیاسی جماعت گھاس نہیں ڈالے گی۔ الگ الگ جماعتوں کے پرچم اٹھا کر ہم کبھی اپنے حقوق کی لڑائی نہیں لڑ سکیں گے۔ اگر ہم سیاسی جماعتوں کے وعد و وعید کے گرداب میں پھنسے رہیں گے تو کبھی ہمیں بھیڑیئے سے ڈرایا جائے گا اور کبھی ہمیں ہی بھیڑیا بنایا جائے گا۔ اس لئے وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے فرقہ پرستی کے عذاب سے باہر نکلنا ہوگا۔ اس کے لئے سب سے پہلے اپنے درمیان مخلص قیادت کو تلاش کرنا ہوگا، جس کے بغیر نہ تو کوئی موثر تحریک معرض وجود میں آسکتی ہے اور نہ کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جرمانے کا نیا قانون؛ موٹر سائیکل اور گاڑی مالکان کیلئے بڑی خبر
  • پنجاب میں سیلاب کے بعد سروے کا عمل کیسے آگے بڑھ رہا ہے؟ ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بتا دیا
  • ٹنڈو جام میں ڈاکوئوں کی کامیاب کارروائیوں کا سلسلہ جاری
  • کراچی: نامعلوم ملزمان کی فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق
  • ملک میں حالیہ ہفتے مہنگائی کی شرح میں 0.56 فیصد اضافہ
  • موٹرسائیکل، رکشہ اور گاڑیوں کے اخراج ٹیسٹ کی فیس لازمی قرار
  • مددگار 15 کی کارروائی، شہری بازیاب، چھینی گئی موٹرسائیکل برآمد
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی ماہانہ کارکردگی رپورٹ
  • اتحاد اور مضبوط قیادت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں!
  • پی ٹی سی ایل کو ٹیلی نار کے حصول کی منظوری دےدی