استعمال شدہ گاڑی خریدنے کے خواہشمند افراد کے لئے بڑی خبر آگئی
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
استعمال شدہ گاڑی خریدنے کے خواہشمند افراد کے لئے بڑی خبر آگئی، آئندہ بجٹ میں ریلیف ملنے کا امکان ہے۔
تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے آئندہ 2025-26 کے بجٹ میں پانچ سال تک پرانی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دینے کی تجویز کا جائزہ لیا جارہا ہے۔فی الحال، حکومت خصوصی اسکیموں کے تحت تین سال تک پرانی استعمال شدہ کاروں اور پانچ سال تک کی SUVs کی درآمد کی اجازت دیتی ہے تاہم مجوزہ پالیسی ممکنہ طور پر پرانی گاڑیوں کی درآمد کے دائرہ کار کو بڑھا دے گی۔
2024-25 کے بجٹ میں حکومت نے 1,300cc سے زیادہ کی درآمد شدہ استعمال شدہ کاروں پر 15 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی۔مزید برآں، حکومت بتدریج ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے اور مکمل طور پر بلٹ اپ (CBU) گاڑیوں پر ٹیرف کو 10 فیصد سے کم کرنے پر غور کر رہی ہے، جس کا وسیع مقصد پانچ سالوں کے اندر آٹو سیکٹر کے ٹیرف کو سنگل ہندسوں پر لانا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایف بی آر پرانی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدی اسکیم کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے، قانون کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانی ان سکیموں کے تحت گاڑیاں درآمد کرنے کے حقدار ہیں، اگر انہوں نے گزشتہ دو سالوں میں گاڑی درآمد نہیں کی، تحفے میں نہیں دی یا حاصل نہیں کی۔ایف بی آر نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ کسٹمز پرانی اور استعمال شدہ گاڑیوں کی نیلامی پر 18 فیصد سیلز ٹیکس وصول نہیں کرے گا، اگر سیلز ٹیکس پہلے لوکل یا امپورٹ کے وقت ادا کیا گیا ہو۔
تاہم، ناقابل استعمال یا قابل مذمت گاڑیوں کی نیلامی پر سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا، چاہے ان پر پہلے ہی سیلز ٹیکس ادا کیا گیا ہو۔ذرائع نے یہ بھی خبردار کیا کہ درآمدی پابندیوں میں نرمی اور ٹیرف میں کمی ملک کے درآمدی بل میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے اور درآمدی گاڑیوں سے مسابقت بڑھنے کی وجہ سے مقامی آٹوموبائل مینوفیکچررز پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: استعمال شدہ گاڑیوں کی سیلز ٹیکس کی درا مد
پڑھیں:
کیا مصنوعی ذہانت موزوں سائز کے کپڑے خریدنے میں مدد کر سکتی ہے؟
زیادہ تر لوگوں کو دکانوں میں درست سائز کے کپڑے نہ مل پانے پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اب اس مسئلے کے بھی کچھ حد تک حل سامنے آچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چین میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے کمالات: بزرگوں کی خدمت گار، نابیناؤں کی ’آنکھ‘، اور بہت کچھ!
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک جینز کا جوڑا ایک برانڈ میں سائز 10 ہو سکتا ہے تو کسی اور برانڈ میں سائز 14 ہو جس سے صارفین الجھن اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ مسئلہ دنیا بھر میں ریٹرنز کے طوفان کا سبب بن چکا ہے جس سے فیشن ریٹیلرز کو ہر سال تقریباً 190 ارب پاؤنڈ کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ خریدار یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کس دکان سے کون سا سائز لینا چاہیے۔
لندن کی ایک مشہور شاپنگ اسٹریٹ پر بات کرتے ہوئے ایک خاتون نے کہا کہ میں دکانوں پر سائزنگ پر بھروسہ نہیں کرتی اور سچ کہوں تو میں اصل سائز کی بجائے دیکھ کر خریدتی ہوں۔
خواتین کی ٹیکنیکایسی بہت سی خواتین ہیں جو اکثر ایک ہی آئٹم کے کئی ورژن آرڈر کرتی ہیں تاکہ ایک صحیح فٹ والا مل سکے اور باقی واپس کر دیتی ہیں جس سے بڑے پیمانے پر ریٹرنز کا کلچر پیدا ہوتا ہے۔
سائزنگ ٹیکنالوجی کی نئی نسلاب کچھ ٹیک کمپنیز اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ’ایزی سائز‘، ’ٹرو فٹ‘ اور ’ڈی لک تھری‘ جیسی ایپلیکیشنز صارفین کو درست سائز چننے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ موبائل فون کی فوٹوز کے ذریعے جسم کے اسکین کے بعد سب سے مناسب فٹ کی تجویز پیش کرتی ہیں۔
اسی دوران گوگل کے ورچوئل فٹنگ روم پلیٹ فارمز صارفین کو ڈیجیٹل اوتار بنانے اور دیکھنے کی سہولت دیتے ہیں کہ آئٹم کس طرح لگے گا تاکہ آن لائن خریداری میں اعتماد بڑھ سکے۔
مزید پڑھیے: کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
حال ہی میں اے آئی سے چلنے والے شاپنگ ایجنٹس بھی مارکیٹ میں آئے ہیں۔’ ڈے ڈریم‘ صارفین کو اپنی ضروریات بیان کرنے دیتا ہے اور پھر اختیارات تجویز کرتا ہے۔
’ون آف‘ مشہور شخصیات کے انداز کو یکجا کر کے مشابہ آئٹمز تلاش کرتا ہے جبکہ ’فیا‘ لاکھوں ویب سائٹس اسکین کر کے قیمتوں کا موازنہ اور سائز کی ابتدائی معلومات فراہم کرتا ہے۔
فٹ کلیکٹیو ماڈلیہ سسٹم مشین لرننگ استعمال کر کے ریٹرنز، سیلز اور صارفین کے ای میلز کے ڈیٹا کا تجزیہ کرتا ہے تاکہ سمجھا جا سکے کہ کپڑا کیوں فٹ نہیں آیا۔
پھر یہ معلومات ڈیزائن اور پروڈکشن ٹیمز کو دی جاتی ہیں تاکہ وہ پیٹرنز، سائز اور مواد کو مینوفیکچرنگ سے پہلے ایڈجسٹ کر سکیں۔
مزید پڑھیں: کیا ہم خبروں کے حوالے سے مصنوعی ذہانت پر اعتبار کرسکتے ہیں؟
مثال کے طور پر سسٹم کسی کمپنی کو کہہ سکتا ہے کہ کسی آئٹم کی لمبائی چند سینٹی میٹر کم کر دیں تاکہ ریٹرنز کی تعداد کم ہو اور کمپنی اور صارف دونوں کا وقت اور پیسہ بچ سکے۔
ٹیکنالوجی کی حدودانڈسٹری میں بہت سے لوگ ایسی ایپلیکشنز یا ٹولز کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن کچھ کہتے ہیں کہ صرف ٹیکنالوجی فیشن کے سائزنگ کے مسئلے کو مکمل طور پر حل نہیں کر سکتی۔
یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت نے مذہبی معاملات کا بھی رخ کرلیا، مذاہب کے ماننے والے کیا کہتے ہیں؟
حالانکہ کوئی ایک حل مکمل طور پر غیر متوازن سائزنگ کو حل نہیں کر سکتا، لیکن ’فٹ کلیکٹیو‘ جیسے ٹولز اور ورچوئل ٹرائی آن اور سائز پیشن گوئی کے پلیٹ فارمز کے بڑھتے ہوئے ماحولیاتی نظام سے ظاہر ہوتا ہے کہ صنعت میں تبدیلی آنی شروع ہو گئی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی اے آئی اور سائزنگ اے آئی اور کپڑوں کے سائز مصنوعی ذہانت مصنوعی ذہانت اور کپڑوں کے سائز