حالیہ بحران کے دوران افغان حکمرانوں اور میاں نواز شریف کی خاموشی لمحہ فکریہ اور معمہ ہے، لیاقت بلوچ
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
جماعت اسلامی کے نائب امیر کا کہنا تھا کہ دنیا جان گئی ہے کہ بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ عالمی امن کے لیے خطرہ اور خطے میں ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے، بھارت، اسرائیل جنگی جنون میں پاگل ہوکر انسانیت کے قتلِ عام پر آمادہ ہیں، اِن کے اس احمقانہ جنگی جنون کو ختم کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا کہ سید ابوالاعلی مودودی نے پاکستان میں اقامتِ دین، دفاعِ مملکتِ خداداد اور آئین کی فرمانروائی، عدل و انصاف کے نظام پر مبنی مضبوط نظریات کو فروغ دیا، ملک میں فرقہ واریت، انتہاپسندی، شدتِ جذبات کے بجائے اتحادِ امت، سیاسی آئینی جمہوری اقدار اور اخلاقیات کی پابند مزاحمت کا پیغام دیا، کشمیر، فلسطین اور عالمِ اسلام کے اتحاد کے محاذوں پر انہوں نے مجاہدانہ کردار ادا کیا۔ لیاقت بلوچ نے پہلگام واقعہ کی آڑ میں پاکستان کے خلاف بھارتی جنگی جنون، جارحیت اور اس کے جواب میں افواجِ پاکستان کی طرف سے بھرپور جوابی کارروائی کو پاکستان کی فتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ پوری قوم اللہ کی تائید و نصرت پر یومِ تشکر منارہی ہے تو دوسری طرف انڈیا ذلت آمیز شکست کے بعد اپنے غرور و تکبر اور خطہ پر بالادستی کے خواب چکنا چور ہونے پر تِلملا رہا ہے اور اپنی عوام کو جھوٹی تسلیاں دینے، زخموں کو بھرنے کے لیے جنگ بندی توڑنے کے بہانے تلاش کررہا ہے۔ فاشسٹ مودی اب کسی نئے ایڈونچر کی غلطی نہ دہرائیں وگرنہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اسے مزید ذلت و رسوائی کا سامنا ہوگا، دنیا جان گئی ہے کہ بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ عالمی امن کے لیے خطرہ اور خطے میں ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے، بھارت، اسرائیل جنگی جنون میں پاگل ہوکر انسانیت کے قتلِ عام پر آمادہ ہیں، اِن کے اس احمقانہ جنگی جنون کو ختم کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔
لیاقت بلوچ نے میڈیا نمائندگان کے سوالات کے جواب میں کہا کہ انڈیا کے ساتھ دو دیرینہ تنازعات مسئلہ کشمیر اور پانی کا مسئلہ حل ہونے تک خطے پر جنگ کے خطرات منڈلاتے رہیں گے، انڈیا کی حالیہ پاکستان کے خلاف حالیہ جارحیت کے بعد پاک چین بااعتماد دوستی اور ترکی، ایران کیساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات نئے دور میں داخل ہوئے ہیں، افغانستان کو بھی خطے میں استحکام کی خاطر اِسی دوستی کے دائرے میں آنا ہوگا۔ حالیہ بحران کے دوران افغان حکمرانوں اور میاں نواز شریف کی خاموشی لمحہ فکریہ اور معمہ ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: لیاقت بلوچ جنگی جنون
پڑھیں:
پاکستان نے جرمنی منتقلی کے منتظر افغان شہریوں کو حراست میں لے لیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 اگست 2025ء) جمعرات کو پاکستانی پولیس نے تصدیق کی ہے کہ اسلام آباد میں کچھ افغان شہریوں کو حراست میں لیا ہے۔ یہ گرفتاریاں مہاجرین کے خلاف تازہ کریک ڈاؤن کا حصہ ہیں، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں جرمنی منتقل ہونا تھا۔
پاکستان کن لوگوں کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے؟اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو جرمن پروگراموں میں رجسٹرڈ ہیں، جیسے سابق مقامی عملہ اور دیگر ایسے لوگ جنہیں 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد خطرے سے دوچار قرار دیا گیا تھا۔
یہ واضح نہیں کہ کتنے ایسے افراد ان گرفتار شدگان میں شامل ہیں۔افغانستان سے جرمن فوج کے انخلا کے بعد، جرمنی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے مقامی عملے اور دیگر افغان شہریوں کو پناہ دے گا جو طالبان کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے پاکستان فرار ہوئے تھے۔
(جاری ہے)
ان میں سے تقریباً 2,400 افراد اب پاکستان میں موجود ہیں اور جرمنی جانے کے منتظر ہیں۔ جرمن وزارت داخلہ کے مطابق، ان میں سابق مقامی عملہ اور ان کے خاندان کے تقریباً 350 افراد شامل ہیں۔
جرمنی نے گرفتاریوں پر کیا کہا؟جب وفاقی جرمن وزیر داخلہ آلیکسانڈر ڈوبرنٹ سے پوچھا گیا کہ آیا افغانستان بھیجے گئے افراد کو واپس لایا جا رہا ہے تو انہوں نے کہا کہ جرمن ایجنسی برائے بین الاقوامی تعاون کے ذریعے ان افراد سے رابطہ ہے اور انہیں مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہر کیس کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا جرمنی پر ان افراد کو لانے کے لیے قانونی ذمہ داری ہے یا نہیں۔
وزارت داخلہ نے گرفتاریوں سے آگاہی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ان گرفتار شدگان کے بارے میں مطلع کر دیا گیا ہے جو جرمن پروگراموں کا حصہ ہیں۔ڈوبرِنڈٹ نے کہا،’’ہم اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ پاکستان میں افغان شہریوں کو افغانستان واپس بھیجنے کا عمل تیز کیا جا رہا ہے۔ اکثریت کے پاس فی الحال جرمنی کے لیے اجازت نامہ موجود نہیں ہے، اور یہ ابھی نہیں کہا جا سکتا کہ آیا ان افراد کو یہ دستاویز جاری کی جائے گی بھی یا نہیں۔
علاقے کے مقامی افراد نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ کچھ لوگوں کو سرحدی علاقوں اور حتیٰ کہ افغانستان بھی بھیج دیا گیا ہے۔ ایک گیسٹ ہاؤس کے مالک نے ڈی پی اے نیوز ایجنسی کو بتایا، ’’میرے گیسٹ ہاؤس سے ہی سات خاندانوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔‘‘
ایڈووکیسی گروپ ’کابل لفٹ بروکے‘ (کابل ہوائی پل) نے کہا کہ کہ خاندانوں کو الگ اور نابالغ بچوں کو والدین سے جدا کر دیا گیا ہے۔
مثال کے طور پر، 17 اور 18 سال کی دو بہنوں کو مبینہ طور پر خاندان کے بغیر گرفتار کر کے افغانستان بھیج دیا گیا۔گروپ نے ایک بیان میں کہا، ’’اسلام آباد میں جرمن سفارت خانہ متاثرہ افراد کی مؤثر حفاظت کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔‘‘
متاثرہ افراد میں ایک ایسا خاندان بھی شامل ہے جس کے حق میں برلن کی انتظامی عدالت پہلے ہی مثبت ہنگامی فیصلہ جاری کر چکی ہے۔
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے برلن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک افغان صحافی کی رہائی کو یقینی بنائے جسے جرمنی میں داخلے کا وعدہ کیا گیا ہے اور کہا کہ ’’جرمنی کو اب فوراً کارروائی کرنی چاہیے۔‘‘ یہ سب اب کیوں ہو رہا ہے؟پاکستان نے 2023 کے آخر میں غیر قانونی افغان شہریوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری شروع کی اور اپریل 2024 میں اس پالیسی کو رجسٹرڈ افراد تک بھی بڑھا دیا۔
اسلام آباد کے حکام کا کہنا ہے کہ منصوبہ ہے کہ 30 لاکھ افغان شہریوں کو ملک سے نکالا جائے اور یہ پالیسی طالبان حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ضروری ہے۔انسانی حقوق کے کارکنان خبردار کرتے ہیں کہ واپس بھیجے جانے والوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں، جن میں طالبان کے خلاف سمجھے جانے والے اقدامات پر انتقامی کارروائی کا امکان بھی شامل ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی جرمن حکومت پر تنقیدگرین پارٹی کی شاہینہ گمبیر نے ان ملک بدریوں کو ’’ایک اسکینڈل‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا، '' کئی مہینوں سے وفاقی حکومت ان کی قانونی طور پر تسلیم شدہ حفاظتی ضرورت کو نظر انداز کر رہی ہے۔
‘‘سوشلسٹ لیفٹ پارٹی کی کلارا بُنگر نے اس صورتحال کو ’’انتہائی غیر انسانی‘‘ قرار دیا اور کہا، ’’اب فوراً کارروائی کی جائے، ویزے جاری کیے جائیں، ملک بدری روکی جائے۔‘‘
کابل لفٹ بروکے کا کہنا ہے کہ اس کے پاس 15 عدالتی فیصلے ہیں جو متاثرہ افراد کے جرمنی میں داخلے کے حق کی تصدیق کرتے ہیں، لیکن ’’وفاقی حکومت کی اپیلیں اکثر ویزے کے اجرا میں تاخیر کا سبب بنتی ہیں۔‘‘
انسانی حقوق کے گروپ اور اپوزیشن جماعتیں فوری ویزوں کے اجرا اور پہلے سے ملک بدر کیے گئے افراد کی محفوظ واپسی کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔
ادارت: صلاح الدین زین