جماعت اسلامی کے نائب امیر کا کہنا تھا کہ دنیا جان گئی ہے کہ بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ عالمی امن کے لیے خطرہ اور خطے میں ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے، بھارت، اسرائیل جنگی جنون میں پاگل ہوکر انسانیت کے قتلِ عام پر آمادہ ہیں، اِن کے اس احمقانہ جنگی جنون کو ختم کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ اسلام ٹائمز۔ نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ نے کہا کہ سید ابوالاعلی مودودی نے پاکستان میں اقامتِ دین، دفاعِ مملکتِ خداداد اور آئین کی فرمانروائی، عدل و انصاف کے نظام پر مبنی مضبوط نظریات کو فروغ دیا، ملک میں فرقہ واریت، انتہاپسندی، شدتِ جذبات کے بجائے اتحادِ امت، سیاسی آئینی جمہوری اقدار اور اخلاقیات کی پابند مزاحمت کا پیغام دیا، کشمیر، فلسطین اور عالمِ اسلام کے اتحاد کے محاذوں پر انہوں نے مجاہدانہ کردار ادا کیا۔ لیاقت بلوچ نے پہلگام واقعہ کی آڑ میں پاکستان کے خلاف بھارتی جنگی جنون، جارحیت اور اس کے جواب میں افواجِ پاکستان کی طرف سے بھرپور جوابی کارروائی کو پاکستان کی فتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ پوری قوم اللہ کی تائید و نصرت پر یومِ تشکر منارہی ہے تو دوسری طرف انڈیا ذلت آمیز شکست کے بعد اپنے غرور و تکبر اور خطہ پر بالادستی کے خواب چکنا چور ہونے پر تِلملا رہا ہے اور اپنی عوام کو جھوٹی تسلیاں دینے، زخموں کو بھرنے کے لیے جنگ بندی توڑنے کے بہانے تلاش کررہا ہے۔ فاشسٹ مودی اب کسی نئے ایڈونچر کی غلطی نہ دہرائیں وگرنہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اسے مزید ذلت و رسوائی کا سامنا ہوگا، دنیا جان گئی ہے کہ بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ عالمی امن کے لیے خطرہ اور خطے میں ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے، بھارت، اسرائیل جنگی جنون میں پاگل ہوکر انسانیت کے قتلِ عام پر آمادہ ہیں، اِن کے اس احمقانہ جنگی جنون کو ختم کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔

لیاقت بلوچ نے میڈیا نمائندگان کے سوالات کے جواب میں کہا کہ انڈیا کے ساتھ دو دیرینہ تنازعات مسئلہ کشمیر اور پانی کا مسئلہ حل ہونے تک خطے پر جنگ کے خطرات منڈلاتے رہیں گے، انڈیا کی حالیہ پاکستان کے خلاف حالیہ جارحیت کے بعد پاک چین بااعتماد دوستی اور ترکی، ایران کیساتھ پاکستان کے برادرانہ تعلقات نئے دور میں داخل ہوئے ہیں، افغانستان کو بھی خطے میں استحکام کی خاطر اِسی دوستی کے دائرے میں آنا ہوگا۔ حالیہ بحران کے دوران افغان حکمرانوں اور میاں نواز شریف کی خاموشی لمحہ فکریہ اور معمہ ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: لیاقت بلوچ جنگی جنون

پڑھیں:

بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے، جنگ مسلط کرنے والوں کو اسی طرح جواب دیا جائے گا جیسا مئی میں دیا۔ وفاقی دارالحکومت میں اردن کے شاہ دوم کے ظہرانے کے موقع پر ایوان صدر میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے فیلڈ مارشل نے غزوہ احد سے متعلق بات کرتے ہوئے قرآنی آیات کا حوالہ دیا اورکہا کہ مسلمان جب اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ دشمن پر پھینکی مٹی کو بھی میزائل بنا دیتا ہے، بھارت کے خلاف جنگ میں اللہ نے پاکستان کو سر بلند کیا۔ پاکستان نے اپنے دشمن کو دھول چٹائی ہے۔

 پاکستان کے ایوانِ صدر میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کو نشانِ امتیاز عطا کیے جانے کی تقریب بظاہر ایک سفارتی روایت تھی، لیکن اس موقع پرآرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیرکے خیالات نے اسے ایک نئی معنویت عطا کی۔ ان کے الفاظ نہ صرف پاکستان کی عسکری سوچ کا اظہار ہیں بلکہ خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی فضا اور ہمارے قومی اعتماد کا اشاریہ بھی ہیں۔

جب وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، اگر جنگ ہم پر مسلط کی گئی تو جواب اسی انداز میں دیا جائے گا جیسا کہ مئی میں دیا گیا، تو یہ بیان دراصل دشمن کے لیے پیغام اور عوام کے لیے یقین دہانی دونوں رکھتا ہے۔ ہمارے خطے میں طاقت کے توازن کی نزاکت ایسی ہے کہ ہر لفظ کے اثرات سفارتی سرحدوں سے پار جاتے ہیں اور ہر بیان عالمی فضا میں ارتعاش پیدا کرتا ہے۔

آج جب ہم خطے کی تزویراتی صورتِ حال کو دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کبھی بھی سادہ نہیں رہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کا فقدان ایک مستقل رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ سرحدوں پرکشیدگی، سیاسی بیانات، جارحانہ پالیسیاں اور پراپیگنڈا جنگیں ہمیشہ سے تعلقات کو پیچیدہ بناتی رہی ہیں۔ ایسے ماحول میں پاکستانی قیادت کا یہ کہنا کہ بھارت کی جارحیت کا جواب دیا گیا اور آیندہ بھی دیا جائے گا، یہ صرف عسکری پالیسی کا اعلان نہیں بلکہ سیاسی ترجیحات کی نشاندہی بھی ہے۔

وہ مئی جس کا آرمی چیف نے ذکرکیا، اس میں جوکچھ ہوا، وہ خطے کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، اگرچہ عسکری کارروائیوں کی تفصیلات عمومی طور پر منظرِ عام پر نہیں لائی جاتیں، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے دفاعی سطح پر اپنی صلاحیت دکھائی اور دشمن کو جواب دیا۔

 لیکن اس موقع پر ایک اہم پہلو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے جنگ سے گریز کی اپنی دیرینہ پالیسی کو دوبارہ دہراتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں کوئی بھی ملک جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ معیشتیں جنگ سے کمزور ہوتی ہیں، معاشرے بکھرتے ہیں اور قومیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں، اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان جنگوں کے نتائج پر مختلف آراء موجود ہیں، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت کبھی کمزور ثابت نہیں ہوئی۔

دوسری جانب حالیہ دنوں میں جب افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے کیے گئے، تو اس نے نہ صرف دو طرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ بنا دیا بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی ایک نیا خطرہ پیدا کر دیا۔ پاکستانی قیادت کے مطابق یہ حملے محض سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ایک گہری بھارتی سازش کا نتیجہ ہیں، جس کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا اور افغان سرزمین کو بھارت کے آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف پراکسی وارکا حامی رہا ہے۔ چاہے وہ بلوچستان میں تخریب کاری ہو، فاٹا اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی یا افغانستان میں پاکستان مخالف بیانیہ، بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے ہمیشہ ایسے عناصر کو سہارا دیا جو پاکستان کے اندر انتشار پھیلانے کی کوشش کرتے رہے۔

اب جب کہ بھارت کو خطے میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے ایک نیا محاذ درکار تھا، تو اس نے افغان طالبان حکومت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ بھارت نے افغان حکام کو یہ باورکرایا کہ پاکستان کی پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان عالمی تنہائی کا شکار ہے، لہٰذا پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہی ان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے گزشتہ چار دہائیوں سے افغان عوام کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے۔

سوویت یونین کے حملے کے بعد سے لے کر طالبان کے اقتدار کے خاتمے تک، پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، ان کے لیے تعلیمی، طبی اور معاشی سہولیات فراہم کیں۔ آج بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں۔ یہ پاکستان ہی تھا جس نے ہر عالمی فورم پر افغانستان کے حق میں آواز بلند کی۔ چاہے طالبان حکومت کی بحالی کی بات ہو یا افغانستان کی تعمیرِ نو، پاکستان نے ہمیشہ ہمسایہ ملک کی مدد کو اپنا اخلاقی اور انسانی فریضہ سمجھا، لیکن افسوس کہ آج وہی افغانستان پاکستان کے احسانات کو بھول کر دشمن کی زبان بول رہا ہے۔

پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین پر موجود دہشت گرد تنظیمیں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پاکستان کے خلاف منظم منصوبہ بندی کر رہی ہیں، اور افغان حکومت انھیں روکنے کے بجائے نظر انداز کر رہی ہے بلکہ بعض اوقات ان کی پشت پناہی بھی کرتی ہے۔ یہ طرزِ عمل اس احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے جو برادر ملک سے ہرگز متوقع نہ تھی۔ افغان طالبان حکومت ایک طرف دنیا سے تسلیم کیے جانے کے لیے پاکستان کی حمایت چاہتی ہے، لیکن دوسری طرف وہ پاکستان مخالف گروہوں کو خاموشی سے سہارا دے رہی ہے۔

طالبان قیادت جانتی ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر ان کا معاشی اور سفارتی وجود ممکن نہیں، مگر اس کے باوجود وہ داخلی دباؤ کم کرنے کے لیے پاکستان مخالف بیانیہ اختیار کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اپنے عوام کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بیرونی دباؤ میں نہیں ہیں، لہٰذا وہ پاکستان کے خلاف سخت موقف اپنا کر اپنی داخلی مقبولیت بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ پالیسی نہ صرف افغانستان کے مفاد کے خلاف ہے بلکہ پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

 یہ صورتحال خطے کے عوام کے لیے نقصان دہ ہے، مگر اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے جو ایک طرف افغانستان کو اشتعال دلا رہا ہے اور دوسری طرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان حقیقت پسندانہ سوچ اپنائے، اگر افغان طالبان واقعی اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں، تو انھیں بھارت کی چالوں کا حصہ بننے کے بجائے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ آج کا افغانستان اس مقام پر کھڑا ہے جہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ بھارت کا آلہ کار بننا چاہتا ہے یا ایک آزاد اسلامی ریاست کے طور پر اپنے برادر ہمسائے پاکستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہتا ہے۔

افغانستان کو چاہیے کہ وہ بھارت کی چالوں سے ہوشیار رہے کیونکہ بھارت کبھی افغانستان کا خیر خواہ نہیں رہا، اس کا مقصد صرف پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے، اگر افغانستان نے پاکستان کے احسانات کو بھلا کر دشمن کے ایجنڈے پر چلنا جاری رکھا تو نقصان اسی کا ہوگا، کیونکہ پاکستان اپنی سرحدوں، اپنے عوام، اور اپنے وقار کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔افغان طالبان رجیم اور بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات اس امرکو ظاہرکرتے ہیں کہ دونوں ممالک کے پاکستان مخالف عزائم مضبوط ہو رہے ہیں۔

بھارتی میڈیا، خصوصاً ’’انڈیا ٹو ڈے‘‘ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان حکومت دریائے کنڑ پر بھارتی تعاون سے ڈیم تعمیرکرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، تاکہ پاکستان کو پانی کی فراہمی محدود یا بند کی جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت نے طالبان حکومت کو ایک ارب امریکی ڈالر کی مالی امداد کی پیشکش کی ہے اور مختلف ڈیموں جیسے نغلو، درونتہ، شاہتوت، شاہ واروس، گمبیری اور باغدرہ کی تعمیر میں تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ ڈیم پاکستان کی آبی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں، کیونکہ ان کا براہ راست اثر دریائے کابل کے بہاؤ پر پڑے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان عسکری برتری کا سوال ہمیشہ سے میڈیا اور عوامی مباحث میں چھایا رہتا ہے۔ بھارت دفاعی بجٹ میں خطے کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے، جب کہ پاکستان محدود وسائل کے باوجود ایک مؤثر دفاع قائم کیے ہوئے ہے۔

اس کا سبب نہ صرف ہمارے فوجی جوانوں کی بہادری ہے بلکہ ہماری عسکری حکمتِ عملی، جدید تربیت اور انٹیلی جنس آپریشنز کی کامیابیاں بھی ہیں۔ پاکستان جانتا ہے کہ اس کے وسائل بھارت کے مقابلے میں کم ہیں، لیکن جنگ صرف وسائل سے نہیں جیتی جاتی۔ عزم، حکمت اور اتحاد بھی اسی طرح اہم ہوتے ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن کا اظہار آرمی چیف کے بیان میں نمایاں تھا۔ حرف آخر، یہ کہنا مناسب ہے کہ پاکستان کا دفاع عوام کے اتحاد میں پوشیدہ ہے، اگر ہم اندر سے مضبوط ہوں گے، تو کوئی بیرونی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی جنگ معاہدے کی خلاف پرعالمی طاقتوں کی خاموشی افسوسنا ک ہے
  • اجتماع عام آئین سے منحرف ظالمانہ نظام بدلنے کی تحریک کا آغاز ہے‘لیاقت بلوچ
  • بھارت و افغانستان کا گٹھ جوڑ
  • ہمارا اجتماع عام نظام بدلو کے عنوان سے ہوگا،لیاقت بلوچ
  • ججز کے استعفے جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں, سعد رفیق
  • ججز کے استعفے جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں: سعد رفیق
  • عمران خان کی طرح موجودہ حکمرانوں کو دل آزار باتیں کام نہیں آئیں گی، لیاقت بلوچ
  • 27ویں آئینی ترمیم پر آزاد کشمیر کی حکومت پی پی کی جھولی میں ڈال دی جائے گی، لیاقت بلوچ
  • 27ویں آئینی ترمیم پر آزاد کشمیر کی حکومت پی پی کی جھولی میں ڈال دی جائے گی: لیاقت بلوچ
  • اجتماع عام ،کمشنرلاہور و دیگر افسران کامینار پاکستان کا دورہ