مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی منظرنامے پر
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو اس کشیدگی کے دوران ثالثی کے کردار میں سامنے آئے، نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کا اعلان کروایا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لیے ثالثی کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان نے ان کے بیان کا خیرمقدم کیا، کیونکہ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے عالمی ثالثی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔
دوسری جانب، بھارت اس موقف کو مسترد کرتا ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ جموں و کشمیر اس کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہے اور یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے، اس لیے کسی بیرونی ثالثی یا بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت نہیں۔ بھارت کی یہ کہنا کہ صرف اس موضوع پر بات ہوسکتی ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کب بھارت کے حوالے کیے جائیں گے ایک غیر حقیقت پسندانہ اور جابرانہ رویہ ہے۔
پاکستان کا اصولی اور انصاف پر مبنی مقف ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں، اور کشمیری عوام کی رائے کی روشنی میں حل ہونا چاہیے۔ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ یہی وعدہ اقوام متحدہ نے کیا تھا، اور خود بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کشمیری عوام سے ریفرنڈم کرانے کا وعدہ کیا تھا۔
تقریباً پون صدی گزر چکی ہے، لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ کشمیری عوام مسلسل جبر، تشدد، جبری پابندیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ دوسری طرف، پاکستان اور بھارت کے عوام غربت، بے روزگاری، اور بنیادی سہولتوں کی کمی سے دوچار ہیں، مگر دونوں ممالک اپنے دفاعی بجٹ پر اربوں روپے خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو یہ وسائل تعلیم، صحت اور عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جا سکتے ہیں۔
دنیا ایک اور جنگ، بالخصوص دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان، کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ صدر ٹرمپ نے خود اعتراف کیا کہ اگر فوری مداخلت نہ کی جاتی تو یہ کشیدگی ایٹمی تصادم میں بدل سکتی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو اس کشیدگی کے دوران ثالثی کے کردار میں سامنے آئے، نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کا اعلان کروایا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لیے ثالثی کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان نے ان کے بیان کا خیرمقدم کیا، کیونکہ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے عالمی ثالثی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔
بھارت کی جانب سے اس موقف کی ہمیشہ مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ جموں و کشمیر اس کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہے، لہٰذا یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم، یہ دعوی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برخلاف ہے۔ 1948 ء اور 1949 ء کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی سے کیا جائے گا۔1957 ء میں بھارت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کو اپنے آئین میں شامل کرلیا، لیکن اقوام متحدہ نے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا۔ آج بھی اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر مسئلہ کشمیر ایک ’’حل طلب تنازعہ‘‘ کے طور پر درج ہے۔کشمیری عوام گزشتہ سات دہائیوں سے مسلسل جبر، ظلم، کرفیو، جبری گمشدگیوں، اور ماورائے عدالت قتل جیسے سنگین مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ بارہا بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ خاص طور پر 5 اگست 2019ء کے بعد جب بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت چھینی، اس کے بعد حالات مزید بگڑ گئے۔
حالیہ ماہ مئی میں پاک بھارت کشیدگی اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج سے بھارتی قیادت کی آنکھیں کھل جانی چاہئی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت کی قیادت اور عوام اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھیں۔ یہ مسئلہ کسی جنگ یا فتح و شکست سے نہیں بلکہ کشمیری عوام کی رضامندی اور دونوں ممالک کے باہمی اتفاق سے حل ہوگا۔ نہ بھارت فوجی طاقت سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضہ کرسکتا ہے، نہ پاکستان جنگ کے ذریعے مقبوضہ کشمیر حاصل کرسکتا ہے، اور نہ ہی کشمیری عوام اکیلے اپنی آزادی حاصل کرسکتے ہیں اور نہ تقسیم کشمیر اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنا حل ہے۔ تو پھر آخر اس کا حل کیا ہے؟
اس مسئلہ کا ایک ممکنہ، پرامن اور قابلِ عمل حل یہ ہو سکتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کو ایک محدود مدت کے لیے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دے دیا جائے۔ اس دوران ریاست کے دونوں حصوں کے عوام پر آنے جانے کی پابندیاں ختم ہوں، پاکستان اور بھارت مشترکہ انتظامی کردار ادا کریں، اور اقوام متحدہ نگرانی کرے۔ دس سال کے بعد آزادانہ اور شفاف ریفرنڈم کے ذریعے کشمیری عوام سے فیصلہ کروایا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں بھارت کے ساتھ الحاق، پاکستان کے ساتھ شمولیت یا مکمل آزادی۔
یہ کوئی نئی تجویز نہیں۔ اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کونسل نے دنیا کے کئی علاقوں میں ایسے مسائل پرامن طریقے سے حل کروائے ہیں۔ مشرقی تیمور، نمیبیا، اور پالا جیسے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔مشرقی تیمور کی انڈونیشیا سے آزادی کے لیے اقوام متحدہ نے 1999 ء میں ریفرنڈم کروایا۔ عوام کی اکثریت نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا، اور 2002 ء میں مشرقی تیمور ایک آزاد ملک بن گیا۔
جنوبی سوڈان میں طویل خانہ جنگی کے بعد، اقوام متحدہ کی نگرانی میں 2011 ء میں ریفرنڈم ہوا، اور جنوبی سوڈان ایک نئی ریاست کے طور پر قائم ہوا۔نمیبیا کے جنوبی افریقہ کے قبضے سے آزادی کیلئے اقوام متحدہ نے لمبی جدوجہد کے بعد 1990 ء میں خودمختاری دلائی۔ بحرالکاہل میں واقع پالا یہ علاقہ اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کے تحت تھا، اور 1994 ء میں امریکہ سے معاہدے کے بعد ایک آزاد ریاست بنا۔ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اگر بین الاقوامی برادری سنجیدگی سے کردار ادا کرے تو پرامن اور قابلِ قبول حل ممکن ہے۔ کشمیر جیسے حساس اور تاریخی مسئلے کے حل کے لیے بھی ایسا ہی ایک روڈمیپ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ اس غرض سے ریاست جموں و کشمیر کو ایک عبوری مدت کے لیے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دیا جائے۔ اس دوران لائن آف کنٹرول کھول دی جائے، دونوں اطراف کے کشمیری آزادانہ نقل و حرکت کر سکیں، بنیادی حقوق بحال ہوں، اور بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں فضا کو شفاف اور منصفانہ بنایا جائے۔ دس سال کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم ہو، جس میں کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
میری دانست میں یہی وہ قابلِ عمل راستہ ہے جس سے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم ہوسکتاہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی قراردادوں اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ اور اقوام متحدہ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے دونوں ممالک کشمیری عوام حل کے لیے بھارت کی بھارت کے عوام کی کے بعد
پڑھیں:
ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ کے ملک میں داخلے پر پابندی لگادی
ایران نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ کے ملک میں داخلے پر پابندی لگادی WhatsAppFacebookTwitter 0 29 June, 2025 سب نیوز
تہران (سب نیوز)ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے )کے سربراہ رافیل گروسی کے ملک میں داخلے پر پابندی لگا دی۔
ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے انادولو ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ہفتے کے روز اعلان کیا ہے کہ اقوام متحدہ کیجوہری نگران ادارے(آئی اے ای اے )کے سربراہ رافیل ماریانو گروسی کو ایران میں داخل ہونے اور آئی اے ای اے کو جوہری تنصیبات پر نگرانی کے لیے کیمرے لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
انادولو ایجنسی نے ایرانی قومی خبر رساں ایجنسی ارناکے حوالے رپورٹ کیا کہ عباس عراقچی نے ایک بیان میں کہاکہ ہم بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو اپنی جوہری تنصیبات پر کیمرے لگانے کی اجازت نہیں دیں گے، اور ایجنسی کے سربراہ کے ملک میں داخلے پر پابندی ہوگی۔ یہ اعلان اسرائیل اور امریکا کے ساتھ حالیہ فوجی تنازعات کے بعد نگرانی تک رسائی اور شفافیت پر تہران اور اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد سامنے آیا ہے۔
یہ اقدام ایران کی پارلیمنٹ کی جانب سے بدھ کے روز آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی قانون سازی کی منظوری کے بعد کیا گیا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان کی کوئی یونیورسٹی سرفہرست 350 یونیورسٹیوں میں جگہ نہ بنا سکی ،رینکنگ جاری پاکستان کی کوئی یونیورسٹی سرفہرست 350 یونیورسٹیوں میں جگہ نہ بنا سکی ،رینکنگ جاری ایران چند ماہ میں یورینیئم افزودہ کرنے کا آغاز کرسکتا ہے، سربراہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی دوستی ہو تو ایسی، میاں منظور وٹو نے گاڑی میں بیٹھ کر اپنے دوست کی نماز جنازہ ادا کی، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل اسلام آباد میں 1سال میں 1427ریسٹورنٹس پر 3کروڑ 30لاکھ روپے جرمانہ، رپورٹ جاری اسرائیلی فوج کی غزہ میں بڑے فوجی آپریشن کی تیاری، شمالی علاقوں میں انخلا کے احکامات جاری پیپلز پارٹی کا وفاقی حکومت میں شمولیت کا امکان،اعلی عہدیداروں میں رابطےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم