Daily Ausaf:
2025-05-16@18:33:07 GMT

مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی منظرنامے پر

اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT

حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو اس کشیدگی کے دوران ثالثی کے کردار میں سامنے آئے، نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کا اعلان کروایا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لیے ثالثی کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان نے ان کے بیان کا خیرمقدم کیا، کیونکہ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے عالمی ثالثی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔
دوسری جانب، بھارت اس موقف کو مسترد کرتا ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ جموں و کشمیر اس کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہے اور یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے، اس لیے کسی بیرونی ثالثی یا بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت نہیں۔ بھارت کی یہ کہنا کہ صرف اس موضوع پر بات ہوسکتی ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کب بھارت کے حوالے کیے جائیں گے ایک غیر حقیقت پسندانہ اور جابرانہ رویہ ہے۔
پاکستان کا اصولی اور انصاف پر مبنی مقف ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں، اور کشمیری عوام کی رائے کی روشنی میں حل ہونا چاہیے۔ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ یہی وعدہ اقوام متحدہ نے کیا تھا، اور خود بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کشمیری عوام سے ریفرنڈم کرانے کا وعدہ کیا تھا۔
تقریباً پون صدی گزر چکی ہے، لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ کشمیری عوام مسلسل جبر، تشدد، جبری پابندیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ دوسری طرف، پاکستان اور بھارت کے عوام غربت، بے روزگاری، اور بنیادی سہولتوں کی کمی سے دوچار ہیں، مگر دونوں ممالک اپنے دفاعی بجٹ پر اربوں روپے خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر مسئلہ کشمیر حل ہوجائے تو یہ وسائل تعلیم، صحت اور عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کیے جا سکتے ہیں۔
دنیا ایک اور جنگ، بالخصوص دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان، کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ صدر ٹرمپ نے خود اعتراف کیا کہ اگر فوری مداخلت نہ کی جاتی تو یہ کشیدگی ایٹمی تصادم میں بدل سکتی تھی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو اس کشیدگی کے دوران ثالثی کے کردار میں سامنے آئے، نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کا اعلان کروایا بلکہ یہ بھی کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے لیے ثالثی کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان نے ان کے بیان کا خیرمقدم کیا، کیونکہ پاکستان ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے عالمی ثالثی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔
بھارت کی جانب سے اس موقف کی ہمیشہ مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ جموں و کشمیر اس کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ ہے، لہٰذا یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ تاہم، یہ دعوی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برخلاف ہے۔ 1948 ء اور 1949 ء کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی سے کیا جائے گا۔1957 ء میں بھارت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کو اپنے آئین میں شامل کرلیا، لیکن اقوام متحدہ نے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا۔ آج بھی اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر مسئلہ کشمیر ایک ’’حل طلب تنازعہ‘‘ کے طور پر درج ہے۔کشمیری عوام گزشتہ سات دہائیوں سے مسلسل جبر، ظلم، کرفیو، جبری گمشدگیوں، اور ماورائے عدالت قتل جیسے سنگین مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ بارہا بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ خاص طور پر 5 اگست 2019ء کے بعد جب بھارت نے آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت چھینی، اس کے بعد حالات مزید بگڑ گئے۔
حالیہ ماہ مئی میں پاک بھارت کشیدگی اور اس سے پیدا ہونے والے نتائج سے بھارتی قیادت کی آنکھیں کھل جانی چاہئی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بھارت کی قیادت اور عوام اس مسئلے کی حساسیت کو سمجھیں۔ یہ مسئلہ کسی جنگ یا فتح و شکست سے نہیں بلکہ کشمیری عوام کی رضامندی اور دونوں ممالک کے باہمی اتفاق سے حل ہوگا۔ نہ بھارت فوجی طاقت سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر قبضہ کرسکتا ہے، نہ پاکستان جنگ کے ذریعے مقبوضہ کشمیر حاصل کرسکتا ہے، اور نہ ہی کشمیری عوام اکیلے اپنی آزادی حاصل کرسکتے ہیں اور نہ تقسیم کشمیر اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد تسلیم کرنا حل ہے۔ تو پھر آخر اس کا حل کیا ہے؟
اس مسئلہ کا ایک ممکنہ، پرامن اور قابلِ عمل حل یہ ہو سکتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کو ایک محدود مدت کے لیے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دے دیا جائے۔ اس دوران ریاست کے دونوں حصوں کے عوام پر آنے جانے کی پابندیاں ختم ہوں، پاکستان اور بھارت مشترکہ انتظامی کردار ادا کریں، اور اقوام متحدہ نگرانی کرے۔ دس سال کے بعد آزادانہ اور شفاف ریفرنڈم کے ذریعے کشمیری عوام سے فیصلہ کروایا جائے کہ وہ کیا چاہتے ہیں بھارت کے ساتھ الحاق، پاکستان کے ساتھ شمولیت یا مکمل آزادی۔
یہ کوئی نئی تجویز نہیں۔ اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کونسل نے دنیا کے کئی علاقوں میں ایسے مسائل پرامن طریقے سے حل کروائے ہیں۔ مشرقی تیمور، نمیبیا، اور پالا جیسے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔مشرقی تیمور کی انڈونیشیا سے آزادی کے لیے اقوام متحدہ نے 1999 ء میں ریفرنڈم کروایا۔ عوام کی اکثریت نے آزادی کے حق میں ووٹ دیا، اور 2002 ء میں مشرقی تیمور ایک آزاد ملک بن گیا۔
جنوبی سوڈان میں طویل خانہ جنگی کے بعد، اقوام متحدہ کی نگرانی میں 2011 ء میں ریفرنڈم ہوا، اور جنوبی سوڈان ایک نئی ریاست کے طور پر قائم ہوا۔نمیبیا کے جنوبی افریقہ کے قبضے سے آزادی کیلئے اقوام متحدہ نے لمبی جدوجہد کے بعد 1990 ء میں خودمختاری دلائی۔ بحرالکاہل میں واقع پالا یہ علاقہ اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ کے تحت تھا، اور 1994 ء میں امریکہ سے معاہدے کے بعد ایک آزاد ریاست بنا۔ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ اگر بین الاقوامی برادری سنجیدگی سے کردار ادا کرے تو پرامن اور قابلِ قبول حل ممکن ہے۔ کشمیر جیسے حساس اور تاریخی مسئلے کے حل کے لیے بھی ایسا ہی ایک روڈمیپ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ اس غرض سے ریاست جموں و کشمیر کو ایک عبوری مدت کے لیے اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ میں دیا جائے۔ اس دوران لائن آف کنٹرول کھول دی جائے، دونوں اطراف کے کشمیری آزادانہ نقل و حرکت کر سکیں، بنیادی حقوق بحال ہوں، اور بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں فضا کو شفاف اور منصفانہ بنایا جائے۔ دس سال کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم ہو، جس میں کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔
میری دانست میں یہی وہ قابلِ عمل راستہ ہے جس سے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم ہوسکتاہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اقوام متحدہ کی قراردادوں اقوام متحدہ کی ٹرسٹی شپ اور اقوام متحدہ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر کے دونوں ممالک کشمیری عوام حل کے لیے بھارت کی بھارت کے عوام کی کے بعد

پڑھیں:

غزہ کو منظم انداز میں تباہ کیا جا رہا ہے،سفیر عالمی برادری فوری اور ضروری اقدامات کرے. عاصم افتخار

نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 14 مئی ۔2025 )اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ غزہ کو منظم انداز میں تباہ کیا جا رہا ہے عالمی برادری وہاں انسانی امدادی کارکنوں کے تحفظ اور فلسطینی عوام کی حالت زار کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے ان خیالات کااظہار انہوں نے غزہ کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا .

(جاری ہے)

عاصم افتخار نے ان مشکل حالات میں خدمات سرانجام دینے والے اقوام متحدہ اور انسانی امدادی کارکنوں کی غیر معمولی جرات کو خراج تحسین پیش کیا انہوں نے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال قابض طاقت کی جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور جاری نسل کشی کا مظہر ہے جو مکمل استثنا کے ساتھ جاری ہے.

پاکستان کے مستقل مندوب نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کو منظم انداز میں تباہ کیا جا رہا ہے اور دو ملین سے زائد افراد، جن میں نصف بچے ہیں، فاقہ کشی اور تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے میں محصور ہیں انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایف پی کے مطابق 470,000 افراد کو شدید قحط کا سامنا ہے جبکہ ہر تین میں سے ایک بچہ جو دو سال سے کم عمر کا ہے شدید غذائی قلت کا شکار ہے پورا انسانی امدادی ڈھانچہ جان بوجھ کر تباہ کر دیا گیا ہے جبکہ آٹے اور ایندھن کی کمی کے باعث ڈبلیو ایف پی کے تمام 25 تندور بند ہو چکے ہیں.

عاصم افتخار نے ہسپتالوں، امدادی قافلوں اور انسانی کارکنوں پر جاری حملوں جن میں 290 UNRWAاہلکاروں کی ہلاکت شامل ہے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی منظم خلاف ورزیاں ہیں. انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور جنیوا کنونشنز کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اسرائیل کے مجوزہ فوجی امداد رابطہ نظام کو تنقید کا نشانہ بنایا جو امداد کی رسائی کو محدود کر کے انسانی امداد کو دبا اور جبری نقل مکانی کے ایک ہتھیار میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے .

انہوں نے عالمی برادری کے لیے چار فوری اور ضروری اقدامات کا مطالبہ جن میں پہلے نمبر پر تمام مقبوضہ علاقوں میں مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی، دوسرا غزہ کی ناکہ بندی کا فوری خاتمہ اور انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی بشمول غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کا مکمل نفاذ،تیسرا انروا کو بغیر کسی مداخلت کے کام کرنے کی اجازت دی جائے، جیسا کہ بین الاقوامی قوانین میں درج ہے اور چوتھامسئلہ فلسطین کی بنیادی وجہ اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور 1967 سے قبل کی سرحدوں کے مطابق دو ریاستی حل کے تحت ایک خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو.

انہوں نے کہاکہ پاکستان نے فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ میزبانی میں آئندہ ہونے والی جون کانفرنس کی بھی حمایت کی اور امید ظاہر کی کہ یہ کانفرنس فلسطینی ریاست کے قیام، مقدس مقامات کے تحفظ اور غیر قانونی بستیوں کی تعمیر کے خاتمے کے لیے ایک قابل اعتماد اور وقت پر مبنی روڈمیپ فراہم کرے گی اپنے خطاب کے اختتام پر عاصم افتخار نے سلامتی کونسل اور عالمی برادری کو یاد دلایا کہ دنیا دیکھ رہی ہے فلسطینی عوام دیکھ رہے ہیں بچے دیکھ رہے ہیں آئیے ہم انہیں مایوس نہ کریں آئیے امن، انصاف اور انسانیت کی خاطر اقدام کریں.

متعلقہ مضامین

  • کشمیر:لہوسے لکھی ہوئی گواہی
  • صدر ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش سے مسئلہ کشمیر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے, مسعود خان
  • عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لے، سلیم بٹ کا مطالبہ
  • عالمی سطح پر مقبوضہ کشمیر متنازع علاقہ تسلیم، پاکستانی موقف کی تائید
  • وزیراعظم کا سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ سے رابطہ، مسئلہ کشمیر کے حل پر زور
  • وزیراعظم کا سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ سے ٹیلیفونک رابطہ، مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے کردار ادا کرنے کا مطالبہ
  • غزہ کو منظم انداز میں تباہ کیا جا رہا ہے،سفیر عالمی برادری فوری اور ضروری اقدامات کرے. عاصم افتخار
  • مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے امریکہ اور عالمی برادری کو کردار ادا کرنا ہوگا: پاکستانی سفیر
  • عالمی سطح پر مقبوضہ کشمیر متنازعہ علاقہ تسلیم، پاکستانی موقف کی تائید